سمیع چوہدری کا کالم: یا پھر قصور ٹاس کا ہی نکلے گا؟


فطرت یکسانیت سے اکتا جاتی ہے۔ جب سبھی کچھ سیدھا سیدھا ہو اور ہر عمل اپنے طے شدہ ردِ عمل کی طرف ہی لے جائے تو زندگی سے جوش اور تجسس ختم ہو جاتا ہے۔ اگر روزانہ دو اور دو چار ہی ہوں تو کوئی بھی کہانی دلچسپ نہیں رہتی۔

پی ایس ایل کا بنیادی مرحلہ کل شب تمام ہوا۔ دس میچز پہ محیط یہ دوڑ ٹورنامنٹ کے خدوخال واضح کرنے کو کافی ہوتی ہے۔ پتا چل جاتا ہے کہ کس ٹیم کی قوت کیا ہے اور ہوا کدھر کو چلے گی۔

ٹیموں کی قوت اور کمیاں تو اپنی جگہ، فی الوقت اس سیزن کی سب سے بڑی پریشانی ’ٹاس‘ ہی رہا ہے۔ ویسے تو ہر کھیل میں ہی ٹاس اہم ہوتا ہی ہے مگر پی ایس ایل کے اس ایڈیشن میں ٹاس کی اہمیت ضرورت سے بھی زیادہ بڑھ گئی ہے۔

جب کوئی چیز اس قدر غیر معمولی اہمیت اختیار کر جائے تو اپنی تمام تر خوبیوں کے باوجود دقت کا سبب بننے لگتی ہے۔ ٹاس نے جس طرح اس ٹورنامنٹ کو متاثر کیا ہے، کھیل اور منصوبہ بندی جیسے عوامل اس کے آگے پھیکے پڑنے لگے ہیں۔

سمیع چوہدری کے دیگر کالم پڑھیے

ہر روز ’جمعرات‘ نہیں ہوتی

’مصباح ٹھیک کہتے ہیں، لیکن۔۔۔‘

پی ایس ایل کا چھٹا ایڈیشن ورلڈ کپ تک پہنچائے گا؟

سمیع چوہدری کا کالم: اب نمبر ون رینکنگ والے دن دور نہیں

اب تک مکمل ہوئے 10 پی ایس ایل میچز میں سبھی میں فتح پہلے بولنگ کرنے والوں کو حاصل ہوئی۔ اور ایسا ہرگز نہیں ہے کہ پہلی اننگز کی بولنگ کچھ آسان ہوتی ہے بلکہ یہ دوسری اننگز کی بیٹنگ ہے جو کہ کراچی کی پچز پہ ہمیشہ آسان ثابت ہوتی رہی ہے۔

جب ٹاس پہ ہی فتح و شکست کے امکانات اس قدر واضح نظر آ جائیں تو باقی ماندہ کھیل خود بخود اپنی رعنائی کھو دیتا ہے۔ گویا آپ سپن اور پیس کا جو بھی توازن رکھیں، مڈل آرڈر میں پاور ہٹرز شامل کر لیں، بھلے ڈیتھ اوورز میں بہترین بولنگ آپشنز آپ کی جیب میں ہوں، آپ نہیں جیت سکتے اگر آپ دوسری اننگز میں بولنگ کر رہے ہیں۔

کھلاڑیوں کے لیے تو جو دقت ہے سو ہے، شائقین اور ان سے بھی بڑھ کر بجائے خود ٹورنامنٹ کے لیے یہ رجحان نہایت تکلیف دہ ہے۔ دلچسپی تبھی برقرار رہتی ہے جب ممکنات کا ایک ڈھیر لگا ہو اور کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہو۔ نہ کہ یہ عالم کہ جہاں ٹاس ہارے، سمجھو میچ ہار گئے۔

کچھ دخل اس میں پلئینگ کنڈیشنز کا بھی ہے۔ دوسری اننگز کی بولنگ میں دشواری کسی حد تک اوس کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے لیکن یہ مفروضہ بجائے خود ایسا باوزن نہیں کیونکہ اوس رات کے میچز کو تو متاثر کر سکتی ہے مگر دن میں ہوئے مقابلوں میں بھی اگر تعاقب کرنے والی ٹیم ہی کامیاب رہتی ہے تو ٹاس کے سوا کس کو قصوروار ٹھہرایا جائے۔

عین ممکن ہے کہ آئندہ دنوں میں یہ رجحان ٹوٹے۔ کیونکہ اس طرح کا رجحان غالباً ہم سبھی کی طرح ان ٹیموں کے لیے بھی بالکل مختلف اور یکسر نیا ہے۔ دس میچز کا سیمپل اب یہ تعین کرنے کو کافی ہے کہ دوسری اننگز کی بولنگ میں ایسی کیا جدت لائی جائے کہ مجموعے کا دفاع ممکن ہو سکے۔

ابھی تک کھیلے گئے میچز میں بولنگ کے معیارات بھی کچھ خوش کن نہیں رہے۔ سپنرز کو ویسی کامیابی نہیں ملی جو ٹی ٹوئنٹی لیگز بالخصوص پی ایس ایل کا خاصہ رہی ہے۔

دوسری اننگز کی بولنگ میں فیلڈنگ کپتان بھی بنیادی غلطیاں کرتے پائے گئے ہیں۔ بلے بازوں کا تسلسل توڑنے کو کچھ کپتان ایک ایک اوور کے سپیل بھی کروا رہے ہیں مگر اس سے بھی صرف بولرز کا ہی تسلسل ٹوٹ پایا ہے۔

اس صورتِ حال میں تھنک ٹینکس کو اپنی سوچ میں جدت لانا پڑے گی۔ لیفٹ آرم سپنرز عموماً پہلے پاور پلے میں ٹرمپ کارڈ ثابت ہوتے ہیں مگر کراچی کی وکٹ کے اعتبار سے لائن آف اٹیک کو از سرِ نو وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ پارٹ ٹائم بولنگ پہ بے جا بھروسہ کرنے کی بجائے بنیادی اٹیک بولرز کی مہارت پہ کام ہونا بھی ضروری ہے۔

اگرچہ ایک ہفتے کا عرصہ اس ٹورنامنٹ کی مجموعی ہئیت کے بارے کوئی رائے دینے کے لیے کافی نہیں ہے مگر اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ پی ایس ایل کا موجودہ ایڈیشن ابھی تک اپنے تمام سابقہ ایڈیشنز کی نسبت کچھ پھیکا ثابت ہوا ہے۔

دیکھنا ہو گا کہ کراچی کے باقی ماندہ میچز میں یہ اپنا کوئی رنگ جما پاتا ہے یا قصور بالآخر ٹاس کا ہی نکلے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp