انس سرور: گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کے بیٹے سکاٹش لیبر پارٹی کے نئے لیڈر منتخب


Anas Sarwar

PA Media

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے گورنر چوہدری محمد سرور کے صاحبزادے انس سرور کو سکاٹش لیبر پارٹی کے نئے لیڈر کے طور پر منتخب کر لیا گیا ہے۔ گلاسگو سے تعلق رکھنے والے سکاٹش پارلیمنٹ کے رکن انس سرور نے اس مقابلے میں شامل واحد امیدوار مونیکا لینن کو شکست دی ہے۔

یہ مقابلہ اس وقت شروع ہوا جب سکاٹش لیبر پارٹی کے رہنما رچرڈ لیونارڈ نے یہ کہتے ہوئے استعفیٰ دے دیا تھا کہ ان کا استعفیٰ دینا پارٹی کے مفاد میں ہے۔

انس سرور سکاٹش پارلیمنٹ کے انتخابات (6 مئی) سے قبل پارٹی کا چارج سنبھالیں گے۔

وہ برطانیہ میں کسی بڑی سیاسی جماعت کے پہلے ایسے رہنما ہیں جو سفید فام نہیں۔ انھوں نے 57.6 فیصد ووٹ حاصل کیے جبکہ لینن کو 42.4 فیصد ووٹ ملے۔

یہ بھی پڑھیے

چوہدری محمد سرور پنجاب کے نئے گورنر

پارلیمان میں کس کے پاس کتنا سونا ہے؟

برطانوی سیاسی افق کا پہلا پاکستانی ستارہ

سکاٹش لیبر پارٹی کے رہنما منتخب ہونے کے بعد کی گئی تقریر میں انس نے کہا: ’میں سکاٹ لینڈ کے لوگوں سے براہ راست یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں جانتا ہوں کہ آپ کے اعتماد کو جیتنے کے لیے لیبر پارٹی کو بہت زیادہ کام کرنا ہے۔‘

’کیونکہ اگر آپ بہت ایماندار شخص ہیں تو آپ کو وہ سکاٹش لیبر پارٹی نہیں ملی جس کے آپ مستحق تھے۔ بڑھتی ہوئی ناانصافی، عدم مساوات اور تقسیم۔۔۔ مجھے افسوس ہے کہ حالات زیادہ بہتر نہیں ہوئے۔ اور میں ان کو تبدیل کرنے کے لیے دن رات کام کروں گا، تاکہ ہم اس ملک کی تعمیر کرسکیں جس کی ہم سب کو ضرورت ہے۔‘

انس سرور کون ہیں؟

انس سرور اور ان کی اہلیہ فرہین۔ جوڑے کے تین بچے ہیں

PA Media
انس سرور اور ان کی اہلیہ فرہین۔ جوڑے کے تین بچے ہیں

انس سرور 16 سال کی عمر میں سکاٹش لیبر پارٹی کے رکن بن گئے تھے، لیکن سیاست تو پہلے ہی سے ان کے خون میں رچی بسی تھی۔

ٹوبہ ٹیک سنگھ سے برطانیہ منتقل ہونے والے ان کے والد چوہدری محمد سرور کو ہاوس آف کامنز کی تاریخ میں پہلا مسلمان رکن ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

چوہدری محمد سرور سنہ 1997 اور 2010 کے درمیان گلاسکو سے برطانوی پارلیمان کے رکن منتخب ہوتے رہے، یہاں تک کہ ان کے بیٹے انس نے ان کی جگہ لیتے ہوئے اسی نشست پر کامیابی حاصل کی۔

گلاسگو یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد انس سرور نے رکن اسمبلی بننے سے قبل پانچ سال تک پیسلے میں دانتوں کے ڈاکٹر کے طور پر کام کیا۔

37 سالہ انس 2010 سے 2015 تک گلاسگو کے مرکزی رکن پارلیمنٹ تھے اور وہ نیو لیبر کے گورڈن براؤن کیمپ کا حصہ تھے۔

انس نے یونین کی حامی مہم میں 2014 کے آزادی ریفرنڈم تک سرگرم کردار ادا کیا، انھوں نے ’نو ایکٹیوسٹس‘ کے ساتھ بس میں سکاٹ لینڈ کا دورہ بھی کیا۔

2015 کے عام انتخابات میں ایس این پی کی ایلیسن تھیلس کے گلاسگو سینٹرل سیٹ جیتنے کے بعد، انس سرور نے ہولیروڈ کی طرف توجہ دی اور 2016 میں گلاسگو کے لسٹ ایم ایس پی منتخب ہوئے۔

سنہ 2017 میں کیزیہ ڈگڈیل کے اقتدار چھوڑنے کے بعد لیبر پارٹی کو لیڈر شپ کے لیے انتخاب کروانا پڑے اور انس سرور کو رچرڈ لیونارڈ کے خلاف کھڑا کیا گیا۔

یہ تلخ مہم تھی اور انس کو اپنے بچوں کو گلاسگو کے فیس ادا کرنے والے سکول میں بھیجنے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

ان کے خاندان کی کیش اینڈ کیری فرم سے متعلق ملازمتوں کے اشتہارات پر بھی سوالات اٹھائے گئے۔

لیونارڈ مقابلہ جیت گئے اور اس طرح وہ پارٹی کے بائیں جانب سے آنے والے پہلے سکاٹش لیبر رہنما بن گئے۔

اس جیت سے پارٹی کی ممبر سازی کی عکاسی ہوئی۔ لیونارڈ برطانیہ کے لیبر لیڈر جیرمی کوربین کے پختہ حامی تھے جبکہ انس سرور نے کوربین کے دوبارہ انتخابات کی مخالفت کرنے والے ایک خط پر دستخط کیے تھے۔

انس سرور کا ایک ایم ایس پی کے طور پر سب سے زیادہ اعلیٰ کردار سکاٹش لیبر پارٹی کے صحت کے ترجمان کی حیثیت سے تھا۔

انھوں نے گلاسگو کے ملکہ الزبتھ یونیورسٹی ہسپتال میں حفاظتی امور کے حوالے سے کلیدی کردار ادا کیا۔

پہلا مسلمان رہنما

anas sarwar

انس سرور برطانیہ میں کسی بڑی سیاسی پارٹی کے پہلے ایسے رہنما ہوں گے جو سفید فام نہیں ہے اور ماضی میں انھوں نے نسل پرستی کے بارے میں بات کی ہے جس کا انھوں نے خود سیاستدان کی حیثیت سے سامنا کیا ہے۔ اس میں ان کے اہل خانہ کے خلاف جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی شامل ہیں۔

2017 میں قیادت کے لیے ان کی ناکام نامزدگی کے بعد، انس سرور نے دعوی کیا کہ ایک کونسلر نے ان سے کہا تھا کہ سکاٹ لینڈ والے ان کے مذہب اور ان کی جلد کے رنگ کی وجہ سے انھیں ووٹ نہیں دیں گے۔

انس سرور کا کہنا تھا کہ: ’یہ میرے متعلق نہیں ہے۔ یہ سکاٹ لینڈ اور اس کے عوام کے بڑے پن کے بارے میں ہے۔‘

https://twitter.com/HumzaYousaf/status/1365622311701856257

ان کے اس اقدام کا خیر مقدم سکاٹ لینڈ کے جسٹس سکریٹری اور ایس این پی کے ایم ایس پی حمزہ یوسف نے کیا۔

اس کے علاوہ سکاٹ لینڈ کے کئی رہنماؤں نے انھیں مبارکباد دی ہے۔

فرسٹ منسٹر نیکولا سٹرجن نے انس سرور کو مبارکباد پیش کی اور ٹویٹ کیا ’وہ (اور ان سے پہلے ان کے والد) اور میں طویل عرصے سے سیاسی مخالفین ہیں، لیکن میں انھیں پسند بھی کرتی ہوں اور میں ان کو اہمیت بھی دیتی ہوں۔ آئندہ انتخاب کے ہفتوں میں شاید یہ واضح نہ ہو سکے لہذا میں نے ابھی یہ کہہ دینا مناسب سمجھا۔‘

انس سرور کا انتخاب واضح طور پر سکاٹش لیبر کے لیے اہم ہے لیکن یہ برطانیہ کی سیاست میں بھی ایک اہم موڑ ہے۔ اس سے قبل کسی بڑی سیاسی جماعت نے کبھی کسی ایسے رہنما کا انتخاب نہیں کیا جس کا تعلق کسی اقلیتی نسلی گروہ سے ہو۔

اس انتخاب سے انس سرور کو سکاٹ لینڈ سے باہر بھی ایک مضبوط آواز ملے گی اور انھیں اثر و رسوخ رکھنے والے رول ماڈل کی حیثیت سے دیکھا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp