افغانستان: امن معاہدے کے ایک سال بعد بھی امن صرف ایک خواہش ہی ہے


ولی

ایک سال قبل اسی ہفتے طالبان نے امریکہ کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے، جو نظریاتی طور پر افغانستان میں امن کی راہ ہموار کرنے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔

اس میں طالبان کی جانب سے امریکی افواج پر حملہ روکنے اور امریکہ کی اپنی باقی فوجیں ملک سے واپس لے جانے کی بات کہی گئی تھی۔ اس میں افغانستان کی حکومت یا اس کے شہریوں کے حوالے سے طالبان کو جنگ بندی کا پابند نہیں کیا گیا تھا۔

گذشتہ ماہ ایک اتوار کی صبح قادریہ یاسینی معمول کے مطابق اپنے کام پر جانے کے لیے تیار ہوئیں۔ انھوں نے اپنا نیا کوٹ پہنا اور اپنے بیٹے ولی کو یہ کہتے ہوئے اٹھا کہ انھوں نے کھانے کے لیے کچھ رقم ایک جگہ رکھ دی ہے۔ ان کے ڈرائیور دفتر جاتے ہوئے ان کی دوست اور سپریم کورٹ کی ساتھی جج ذکیہ ہیراوی کو لینے کے لیے رکے۔

یاسینی 53 سال کی تھیں اور ہیراوی 47 سال کی تھیں۔ یہ خواتین افغانستان کی تقریبا 250 خواتین ججوں میں سے دو تھیں۔ اور خواتین ججوں کی یہ تعداد دو دہائی قبل طالبان کے دور میں صفر سے بڑھ کر یہاں تک پہنچی تھی جو کہ ملک کے مجموعی ججز کا تقریبا 14 فیصد ہوتی ہیں۔

یہ دونوں خواتین اعلی سطحی سیاستدان نہیں تھیں اور نہ ہی کوئی فوجی شخصیات تھیں۔ اور نہ تو کبھی انھیں طالبان کی طرف سے کوئی انتباہ موصول ہوا تھا جیسا کہ صحافیوں اور دیگر کارکنوں کو ہوتا رہتا ہے۔ وہ روزانہ سکیورٹی کی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی عادی نہیں تھیں۔ ان کے اہل خانہ نے بتایا کہ یاسینی نے حال ہی میں پستول کی سرکاری پیش کش کو مسترد کردیا تھا۔ ان کے خیال سے انھیں اس کی ضرورت نہیں تھی۔

یہ بھی پڑھیے

افغانستان میں امن کی قیمت کیا خواتین کو ادا کرنی پڑ رہی ہے؟

خواتین کے خلاف جرائم کو طالبان کے خلاف ’پروپیگنڈا‘ کے طور پر استعمال کیا گیا

نہ ختم ہونے والی جنگ میں مستقبل کو سنوارنے کی جدوجہد

بہر حال پستول بھی شاید انھیں نہ بچا پاتی۔ قاتلوں کو معلوم تھا کہ یہ دونوں ججز کہاں ہوں گی۔ وہ کار اور اس کا راستہ جانتے تھے۔ وہ تین تھے۔ جب انھوں نے دروازہ کھولا تو یاسینی نے اپنے ہینڈ بیگ کو اپنے سینے سے چمٹا لیا جس سے پانچ گولیاں گزر کر ان کے سینے مین پیوست ہو گئیں۔

اس پرس میں ان کی کتابیں تھیں اور اور مدرز ڈ ے کا ایک کارڈ تھا جو ان کے بیٹوں نے بنایا تھا اور وہ اسے عام طور پر اپنے ساتھ لے کر چلتی تھیں۔ ان سب میں سوراخ ہو گیا تھا۔ ان کے بیٹے ولی نے بتایا کہ ‘ایک بار انھوں نے کہا تھا کہ وہ اس کارڈ کو تقریبا ہر دن دیکھتی ہیں۔’ اس کارڈ پر تحریر تھا:

پیاری امی جان! جب سے ہم نے اس دنیا میں آنکھیں کھولیں ہم نے اپنے لیے آپ کی قربانی کا مشاہدہ کیا۔ آپ نے ہمارے لیے جو کچھ کیا ہم اس کی تلافی نہیں کرسکتے ہیں، لیکن ہم امید کرتے ہیں کہ اس لمحے میں یہ کارڈ آپ کو خوشی دے گا۔ ہمارے ساتھ رہنے کے لیے آپ کا شکریہ! ہیپی مدرز ڈے!!

18 سالہ ولی اور ان کے 19 سالہ بھائی عبدالوہاب نے اپنے چچا سے فون پر سنا کہ وہاں حملہ ہوا ہے۔ وہ اپنی حفاظت کے لیے گھر پر ہی منتظر رہے اور آخر کار پولیس ان کی والدہ کا گولیوں سے چھلنی بیگ لے کر آگئی۔ جب انھیں قتل کی سی سی ٹی وی فوٹیج دکھائی گئی تو بھائیوں نے موٹرسائیکلوں پر بندوق برداروں کو فرار ہوتے ہوئے دیکھا جو اللہ اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے ہوئے بھاگ رہے تھے۔ وہ ان کی ہی عمر کے تھے۔

ولی نے سختی سے کہا: ‘ایسے نوجوان سکول میں ہر روز نظر آتے ہیں۔ لیکن آپ کبھی نہیں سوچیں گے کہ وہ آپ کی ماں کو مار سکتے ہیں۔’



امریکہ اور طالبان کے معاہدے کے ایک سال بعد شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ میں اضافہ ہوا ہے اور اس لہر نے افغانستان کو خوف زدہ کردیا۔ حالانکہ ملک امن کے لیے سیاسی راستے کی تلاش میں ہے۔ قاتلوں نے ملک کے ججز، صحافیوں اور کارکنوں کو نشانہ بنایا ہے۔ وہ موٹرسائیکل پر آکر فائرنگ کرتے ہیں یا پھر کاروں کے نیچے مقناطیسی بم یعنی ‘چپکو بم’ لگا دیتے ہیں۔ انھوں نے ایسے لوگوں کو ہلاک کیا ہے جنھیں طویل عرصے سے جان کا خدشہ تھا اور ایسے لوگوں کو بھی ہلاک کیا ہے جنھیں کبھی دھمکی نہیں دی گئی تھی اور انھیں یہ بھی پتا نہیں تھا کہ انھیں بھی کوئی خطرہ تھا۔

ستمبر میں افغانستان کے اندر امن مذاکرات شروع ہونے کے بعد ان ہلاکتوں میں اضافہ ہوا۔ منگل کو اقوام متحدہ کے ذریعہ شائع کردہ اعدادوشمار کے مطابق گذشتہ سال ٹارگٹڈ حملوں میں 707 افراد کی موت ہوئی جن میں سے نصف کی موت گذشتہ تین ماہ میں ہوئی تھی۔ مجموعی طور پر شہری ہلاکتوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی کیونکہ امریکی فضائی حملوں اور بڑے پیمانے پر طالبان حملوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے (حالانکہ افغان فضائیہ کے حملوں سے شہریوں کی ہلاکت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے)۔ اقوام متحدہ کے مطابق ،ٹارگٹڈ ہلاکتوں کی تعداد میں 45 فیصد کا اضافہ ہوا ہے جن میں ایسے آسان اہداف بھی تھے جنھیں پہلے افغانستان میں نشانہ نہیں بنایا جاتا تھا۔

خوف کی فضا میں مزید اضافہ اس بات سے بھی ہوا کہ بہت سی ہلاکتوں کا کسی نے ذمہ بھی نہیں لیا۔ مانیٹرنگ گروپ افغان پیس واچ کے بانی حبیب خان نے کہا: ‘لوگ مر رہے ہیں، بم پھٹ رہے ہیں اور کوئی ذمہ داری قبول نہیں کررہا ہے۔ انھوں نے کہا: ‘طالبان بڑی تعداد میں لڑتے تھے، وہ ضلعی ہیڈ کوارٹرز اور شہر کے شہری مراکز پر قابض ہوجاتے تھے۔’

اس کے بعد امریکہ کے ساتھ معاہدہ ہوا، جس کی خفیہ ذیلی شقوں میں مبینہ طور پر طالبان کو بڑے شہروں میں پیچیدہ حملوں سے باز رہنے کی بات تھی۔ مسٹر خان کا کہنا ہے کہ اس کے بعد گروپ نے ‘فوجی حملوں کے بجائے ٹارگٹڈ قتل کرنے کی طرف اپنی توجہ مرکوز کی۔’

ذمہ داری نہ قبول کرنے کی وجہ سے کچھ لوگوں نے اسے نام نہاد جنگجو تنظیم دولت اسلامیہ سے وابستہ افراد پر ان الزامات عائد کرنا شروع کیا یا پھر اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ اس افراتفری کا فائدہ سیاسی دھڑے اپنا پرانا حساب کتاب برابر کرنے کے لیے اٹھا رہے ہیں۔ لیکن شاید ہی کسی کو شک ہو کہ ان ہلاکتوں میں سے اکثریت کے پس پشت طالبان ہے۔

افغانستان کے ایک سابق نائب وزیر دفاع تمیم آسی نے کہا: ‘ہر ایک کو امید تھی کہ امریکی معاہدے کے ذریعے طالبان ایک فوجی قوت سے ایک سیاسی قوت یا نیم سیاسی قوت میں تبدیل ہوجائیں گے۔۔۔ لیکن کسی کو بھی طالبان میں تبدیلی کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔ انھوں نے محض اپنی حکمت عملی تبدیل کی ہے۔ وہ ٹارگٹڈ کلنگ کر رہے ہیں کیونکہ یہ براہ راست معاہدہ کے خلاف نہیں ہے۔’

طالبان پر یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ اقتدار میں واپسی سے قبل اپنے ان ناقدین کو ختم کرنے کے لیے قاتلوں کا استعمال کررہے ہیں اور زندہ بچ جانے والوں میں شدید خوف پیدا کررہے ہیں۔ اگر آپ ولی یاسینی سے پوچھیں کہ ان کی والدہ کو کس نے مارا ہے تو وہ صرف اتنا کہیں گے کہ ایک ‘طاقتور مذہبی گروپ’۔

انھوں نے کہا: ‘مجھے معلوم ہے کہ آپ کیا پوچھ رہے ہیں لیکن میں واقعی نہیں کہہ سکتا۔۔۔میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ ذمہ دار کون ہے۔’

اب جب امریکہ اپنی فوج کے انخلا کی ڈیڈ لائن یکم مئی کے قریب آرہا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ طالبان اپنی حکمت عملی کا توازن پھر سے بڑی فوجی کارروائیوں کی طرف لے رہے ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ انخلا میں توسیع پر امن طور پر بات چیت کے ذریعے کی جاسکتی ہے، لیکن اگر امریکہ اس ملک میں زیادہ عرصے تک رہتا ہے، جیسا کہ بہت سے افغان عہدیداروں کو امید ہے، تو پھر طالبان اسے دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیں گے اور امریکہ کے خلاف پھر سے جنگ شروع کرنے کے جواز کے طور پر دیکھیں گے۔ ملک خطرناک صورت حالت سے دو چار ہے۔

سنہ 1996 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی قادریہ یاسینی ایک عمر گزار کر پہنچی تھیں۔ وہ کابل میں ایک نسبتا معمولی خاندان میں پلی بڑھیں۔ ان کے والد ایک کار میکنک اور والدہ ایک خاتون خانہ تھین لیکن والدہ نے انھیں سکول بھیجا۔ کابل کی آریانہ یونیورسٹی میں قانون کے لیکچرر اور قادریہ کی بڑی بہن شکریہ نے کہا: ‘ہماری والدہ کو تعلیم حاصل کرنے کا زیادہ موقع نہیں ملا لیکن ان کا خواب تعلیم یافتہ ہونا تھا۔’

کابل

کابل کا ایک منظر

شکریہ نے کہا: ‘انھوں نے ہمیں بتایا تھا کہ جب کوئی فرڈ تعلیم یافتہ ہوتا ہے تو سارا معاشرہ تھوڑا بہتر تعلیم یافتہ ہوجاتا ہے اور اس طرح آپ اپنے ملک میں تبدیلی لاسکتے ہیں۔’

نوجوان قادریہ اپنے تیز اور محنتی بھائی بہنوں کے درمیان بھی نمایاں تھیں۔ انھیں فرانسیسی زبان اور بعد میں فرانسیسی فلموں سے محبت تھی۔ 11 سال کی عمر میں انھوں نے لیسی ملالائی کے داخلہ کا امتحان پاس کیا۔ یہ لڑکیوں کا ایک معروف فرانسیسی سکول تھا اور جہاں مفت تعلیم فراہم کی جاتی تھی۔ ان کی بہن نے بتایا کہ وہ وقت ان کی زندگی کا ایک خوشگوار دور تھا۔ اس نے کابل یونیورسٹی میں قانون کی ڈگری حاصل کرنے اور سپریم کورٹ کے جریدے میں ملازمت کی پیش کش کی راہ ہموار کی۔ جریدے کے لیے دو سال تک کام کرنے کے بعد یاسینی نے اپنی پرانی یونیورسٹی میں محکمہ قانون میں داخلہ لیا اور پھر صرف 25 کی عمر میں انھوں نے عدالتی داخلے کا امتحان پاس کیا جس سے ان کے جج بننے کا دروازہ وا ہوا۔

یاسینی کی دوست ذکیہ ہیراوی جو گذشتہ ماہ ان کے ساتھ ہی ہلاک کر دی گئیں، انھوں نے بھی قانون کی ڈگری تیزی سے حاصل کی۔ ان کے بھائی حاصی مصطفی ہیراوی نے بتایا کہ وہ اپنی کلاس میں پہلے نمبر پر رہیں۔ انھوں نے کہا: وہ قانون کو پسند کرتی تھی اور اسے اپنے ملک سے محبت تھی۔’

یاسینی کے چند سال بعد ہیراوی فارغ التحصیل ہوئیں، لیکن اس سے پہلے کہ وہ کسی بھی بنچ میں شامل ہوپاتیں افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہو گیا اور یاسینی اور ہیراوی کے خاندانوں کو پاکستان فرار ہونا پڑا۔ چار سال بعد طالبان کابل میں داخل ہوگئے اور لیسی ملالائی کو بند کر دیا گیا اور افغانستان کی لڑکیوں کو گھر رہنے کو کہا گیا۔

شکریہ یاسین

قادریہ یاسین کی بہن شکریہ یاسین اپنے گھر میں

یاسینی نے پاکستان کے شہر پشاور میں صبر سے انتظار کیا۔ انھوں نے انگریزی اور دایہ (بچے کی پیدائش کرانے) کے کام سیکھے اور قانون کے جریدوں کے لیے مضامین لکھے۔ انھوں نے ایک ایسے شخص سے شادی کی جنھیں وہ افغانستان سے جانتی تھیں۔ انھین بھی فرار ہو کر پاکستان میں پناہ لینی پڑھی تھی۔ لیکن وہ گھر واپس آنے کا خواب دیکھتی تھیں۔ ان کی بہن نے کہا: ‘جیسے ہی طالبان کو اقتدار سے ہٹایا گيا انھوں نے کابل کا رخ کیا۔’

ہیراوی اور ان کے بھائی جو پاکستان میں کپڑوں کی فیکٹری میں کام کرتے تھے، دونوں تقریبا چھ ماہ بعد کابل واپس آئے۔ انھوں نے فخر کے ساتھ کہا: ‘جب ہم کابل پہنچے تو اس نے ملازمت کے لیے درخواست دی، اور یقین مانیے کہ دو دن کے اندر ہی وہ ایک بار پھر سے شعبۂ ریسرچ اینڈ سٹڈیز کی پروفیشنل ممبر بن گئیں۔’

یاسینی نے واپسی کے بعد تھوڑے دنوں تک دائی کی حیثیت سے کام کیا۔ لیکن آخر کار انھیں قانون کی طرف واپس جانے کا راستہ مل گیا۔ انھوں نے جریدے میں مضامین شا‏ئع کروائے اور وراثت کے قانون سے متعلق ان کی ایک کتاب بھی شائع ہوئی۔ سنہ 2010 میں آخرکار وہ جج بن گئیں۔ ان کے دو بیٹے عبدولی اور عبدالوہاب ہیں۔ پھر تقریباپانچ سال پہلے جب لڑکے 12 اور 14 سال کے ہوئے تو ان کے والد نے گھر چھوڑ کر دوسرا گھر بسا لیا۔ ولی نے کہا کہ کہ اس کے بعد یاسینی نے ان کی تعلیم پر دوگنا زور لگا دیا۔ ‘میری ساری کامیابیاں میری والدہ کی تعلیم کی جانب سے حوصلہ افزائی کی وجہ سے ہیں۔’

ولی ایک باصلاحیت فنکار اور ماہر لسانیات ہیں، لیکن ان کا خواب افغانستان واپس جانے سے پہلے بیرون ملک طب کی تعلیم حاصل کرنا ہے۔ ان کے بھائی عبدالوہاب اسی سال پیدا ہوئے جس سال طالبان کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ اب وہ کابل یونیورسٹی میں علم معاشیات کے طالب علم ہیں۔ عبدالوہاب پچھلے نومبر میں اس یونیورسٹی میں تھے جب مسلح افراد نے کیمپس میں حملہ کیا تھا اور 22 طالب علموں کو ہلاک کردیا تھا۔ اس کی والدہ نے ان سے رابطہ کرنے کی بے تحاشا کوشش کی تھی اور انھیں چین کا سانس اس وقت آیا جب پتہ چلا کہ وہ ٹھیک ہیں۔

گذشتہ ماہ جب بندوق بردار یاسینی اور ان کے دوست کے لیے آئے اس وقت تک کابل میں اتنے زیادہ قتل ہو چکے تھے کہ ان ہلاکتوں پر بہت صدمہ بھی نہیں ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں خواتین نے نہ تو کبھی عوامی سطح پر طالبان یا کسی اور کے خلاف بات کی تھی اس لیے ان کی موت کو بے جا اور غیر ذمہ دارانہ فعل قرار دیا گیا۔ لیکن اس حملے میں وہ حکمت عملی پورے طور پر موجود تھی جس کا طالبان پر الزام لگایا جاتا ہے وہ ان اداروں کو نشانہ بناتے ہیں جن اداروں پر حکومت انحصار کرتی ہے اور خواتین کو خبردار کرتی ہے کہ انھیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں۔

افغانستان میں آزاد انسانی حقوق کمیشن کی چیئر مین شہرزاد اکبر نے کہا: ‘جب ان خواتین کو ہلاک کیا گیا تو میں یہ سوچتی رہی کہ افغانستان میں ایک عورت کے لیے جج بننا کتنا مشکل ہے، انھیں کتنی ساری مشکلات پر فتح حاصل کرنا پڑا ہوگا اور پھر اس طرح سے ان کا انجام کتنا بہیمانہ ہے۔

‘بہت بار افغان خواتین کو بتایا گیا ہے کہ عوامی زندگی میں ان کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ لیکن ان دونوں جیسی خواتین نے استقامت کا مظاہرہ کیا، وہ پر امید رہیں، وہ اپنے ملک میں ہی رہیں، اپنے ملک میں اپنی محنت لگائی اور سب کے بہتر مستقبل کے لیے جدوجہد کی۔ اور اس صورت حال میں یہ نقصان مزید دل دہلا دینے والا ہے۔’

گذشتہ منگل کو طالبان اور افغان حکومت کی مذاکرات کرنے والی ٹیموں نے اعلان کیا کہ انھوں نے ہفتوں کے تعطل کے بعد بات چیت دوبارہ شروع کردی ہے۔ مذاکرات میں شامل ہونے والے طالبان کا کہنا ہے کہ وہ سیاسی حل کے لیے پرعزم ہیں اور ان کا دعوی ہے کہ ان قتل و غارتگری کے لیے وہ ذمہ دار نہیں جس نے سول سوسائٹی کو دہشت زدہ کر رکھا ہے۔

کابل میں بہت سے کارکن یا تو ملک چھوڑ رہے ہیں یا اپنے طرز زندگی کو محدود کر رہے ہیں۔ حقوق نسواں کی کارکن ڈاکٹر پتونی اسحاق زئی اب زیادہ تر جرمنی میں رہتی ہیں۔ انھوں نے کہا: ‘میں اب افغانستان میں گاڑی نہیں چلاتی۔ اگر کابل میں کہیں جانا ہوتا ہے تو ٹیکسی بلاتی ہوں یا کسی سے کار مانگ لیتی ہوں۔ میں صرف اس وقت باہر جاتی ہوں جب مجھے باہر جانا ضروری ہوتا ہے۔ یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں لیکن میں تنہا نہیں ہوں، لوگ خوفزدہ ہیں۔’

انھوں نے کہا: ‘اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ میں ڈرتی ہوں تو ہاں میں خوفزدہ ہوں۔ مجھے ڈر لگتا ہے۔’

افغان پیس واچ کے بانی مسٹر خان نے کہا کہ وہ شاید ہی اپنے چھوٹا سے احاطے کو چھوڑتے ہیں جس میں ان کا گھر اور دفتر دونوں ہے۔ انھوں نے کہا کہ ‘لوگ اس سخت نئی حقیقت کے مطابق ڈھل رہے ہیں۔’

وہ اور ان کے ساتھی کارکنوں کو خوف ہے کہ اگر امریکہ منصوبے کے مطابق یکم مئی تک فوجیوں کے انخلا پر آگے بڑھاتا ہے تو اور بھی سخت چيزيں ہوں گی۔ صدر بائیڈن سے یہ امید کی جا رہی ہے کہ وہ انخلا میں تاخیر کریں گے اور طالبان پر امن کے لیے زیادہ دباؤ ڈالیں گے، لیکن سب کچھ غیر یقینی ہے۔ دونوں فریق جنگ کے لیے تیار ہیں۔

سابق نائب وزیر دفاع مسٹر آسی نے کہا: ‘اگر وہ مئی کی ڈیڈ لائن پر قائم رہے اور اچانک چلے گئے تو افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہو جائے گا۔۔۔ آپ دیکھیں گے کہ القاعدہ اور دیگر دہشت گرد گروہ دوبارہ زندہ ہو جائیں گے، اور وہ افغانستان کو حملے کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال کریں گے۔ امریکہ کی دلچسپی ختم ہو جائے گی اور وہ سہولت چاہے گا، اس طرح افغانستان کسی اور شام یا لیبیا میں تبدیل ہوجائے گا۔’

پچھلے ایک سال میں قتل ہونے والے افراد کے لواحقین کے لیے اس زندگی میں ان کے چاہنے والوں سے ملنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ یہاں تک کہ بہت سے لوگوں کو یہ تک معلوم نہیں ہے کہ آخر ان کو کس نے مارا۔ وہ امن مذاکرات کے نتائج یا انخلا کے انتظامات کو متاثر کرنے کے لیے کچھ نہیں کرسکتے ہیں۔ وہ صرف اپنا غم لے کر جی سکتے ہیں اور یہ کوشش کر سکتے ہیں کہ اس کو برداشت کریں۔

مصطفیٰ ہیراوی نے پرنم آنکھوں سے کہا: ‘یہ تکلیف جو میں نے، میری ماں اور بہن کو برداشت کرنی پڑی ہے، میں نہیں چاہتا کہ کوئی اور اس درد سے گزرے۔’

قادریہ یاسینی کی بہن شکریہ نے کہا کہ وہ اس خطرے کو نظرانداز کرتے ہوئے وزارت خواتین کے امور کے لیے اپنا کام جاری رکھیں گی۔ وہ دیہی علاقوں کا سفر کریں گی اور وہاں کی نوجوان خواتین کو ان کے مواقع اور حقوق کے بارے میں تعلیم دیں گی۔ گذشتہ ہفتے تک انھوں نے افغانستان کے 34 میں سے 32 صوبوں میں کلاسز منعقد کی تھیں۔

انھوں نے کہا: ‘مجھے طالبان کا کوئی خوف نہیں ہے۔ طالبان مجھے دھمکی دے سکتے ہیں لیکن میں پھر بھی افغانستان کی خواتین کے لیے کام کرتی رہوں گی۔ انھیں یہ جاننے کا حق ہے کہ وہ اپنے ملک کے لیے قیمتی ہیں، اور معاشرے میں ان کی بہت قیمت ہے۔’

سنہ 2019 کے اوائل میں جب امریکہ اور طالبان نے ان مذاکرات کے لیے ملاقاتوں کی ابتدا کی تھی جو کہ معاہدے تک پہنچی اسی دوران افغانستان میں عدالتی شعبے میں داخلے کا امتحان پہلی بار آن لائن ہوا تھا جس کا مقصد صوبوں سے مزید خواتین کو بینچ میں لانا تھا۔ سپریم کورٹ کے مطابق اس وقت ملک بھر میں 99 خواتین جج بننے کی ٹریننگ کررہی ہیں۔ شکریہ نے کہا: ‘اس تعداد میں اضافہ جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ میری بہن کی یہی خواہش ہوتی۔ اور خواتین اچھی ججز ہوتی ہیں۔’

تصاویر اینڈریو کلٹی نے بی بی سی کے لیے لی ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp