کنول پھول اور تتلیوں کے پنکھ


ڈاکٹر طاہرہ کاظمی اور وجاہت مسعود صاحب کا بہت شکریہ کہ “کنول پھول اور تتلیوں کے پنکھ” ملی۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کو کتاب کی اشاعت کی ڈھیروں مبارکباد۔ طاہرہ آپ کے لئے تو میں یہی کہہ سکتی ہوں کہ :

 “وہ آئی، اس نے لکھا اور فتح کر لیا!”

ڈاکٹر طاہرہ کاظمي سے میری ملاقات “ہم سب” میں ان کے تواتر سے چھپنے والے کالموں اور مضامین کی نسبت سے ہوئی۔ ان کی تحریر کا انوکھا پن اور اس کی بے ساختگی نے دل موہ لیا۔ میں کہ جسے ہر تحریر نہیں موہتی۔ بلکہ بہت ہی کم بلکہ چنیدہ چیزوں / تحریروں کو پسند کرتی ہوں۔ میں نے طاہرہ کے ہر کالم کو نہ صرف یہ کہ بڑے پیار سے پڑھا بلکہ اکثر ان پر اپني تفصیلي اور تعریفی رائے بھی لکھی۔ طاہرہ پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہے، لیکن ادب سے ان کا گہرا لگاؤ اور ان کی تحریر کی پختگی حیرت انگیز ہے۔ اور پھر موضوعات کا چناؤ وہ جس بہادری سے کرتی ہیں اور جس طرح ان پر کھل کر لکھتی ہیں۔ اس کے لئے ‘جگرا‘ چاہئے۔

طاہرہ نے عورتوں اور لڑکیوں پر گزرنے والے ہر ستم کی روداد لکھی ہے کہ وہ دل پہ اثر کرتی ہے۔ طاہرہ نے ہر اس عورت / بچی پر۔ زندہ یا مردہ – پر لکھا ہے، جو مرد کی ہوس، ظلم اور بربریت کا نشانہ بنی ہے۔ اور اس پِیڑ اور درد کو اپنے درد کی طرح سیدھے، سچے اور سادہ پیرایے میں یوں بیان کیا ہے کہ ہماری آنکھیں بھر آتی ہیں !

وہ زینب، فرشتہ، مختاراں مائی، اور قندیل بلوچ سے لے کر ایشیا، افریقہ اور قدیم چین کی کنول قدموں والی لڑکیوں تک کے دکھ کو اپنا دکھ جانتی ہے۔ وہ ایک ڈاکٹر ہے اور بطور ڈاکٹر لڑکیوں اور عورتوں کے مسائل اور دکھوں کو اس نے نہ صرف محسوس کیا ہے بلکہ عملی طور پر بھی دیکھا ہے اور ہر درد کی دوا بیان کی ہے۔ اور پھر ان کے ساتھ ساتھ اس درد سے وہ خود بھی گذری ہے :

“: “وہ افریقی لڑکی تھی۰۰۰” وہ جس درد اور عذاب سے گذري تھی ! بحیثیت ڈاکٹر اس درد کی شدت کو طاہرہ نے جس طرح محسوس کیا اسی شدت سے وہ درد ہم پر بھی گزرا، یہی طاہرہ کی تحریر کا کمال ہے۔

طاہرہ کے کالموں کے کچھ ٹکڑے میں من و عن یہاں نقل کررہی ہوں :

* “میں قبر میں مردہ بے جان حالت میں ریپ ہونے والی عورت ہوں!”

* “میں ننھی بچی زینب اور فرشتہ کے روپ میں کوُڑے کے ڈھیر پر ملنے والی عورت ہوں!”

* “میں جسمانی مارپیٹ سے مضروب عورت ہوں!”

* “میں چولہے میں جلائی جانے والی عورت ہوں!”

* “میں گلیوں میں مختاراں مائی کی شکل میں ننگی گھمائی جانے والی عورت ہوں!”

* “میں کاری کے الزام پہ گل سما کے روپ میں سنگسار ہونے والی عورت ہوں!”

* “میں مرد کی بدکاریوں کے بدلے ونی کی صورت میں قربان ہونے والی عورت ہوں!”

* میں کما کے لانے کی صورت میں اپنی کمائی پہ بے اختیار عورت ہوں !”

* “اغوا کے بعد ریپ ہو کر ماری جانے والی عورت ہوں!”

* “میں کھیتوں میں پڑی لاش ہوں!

میں شک کی بنیاد پر زندہ جلائی جانے والی عورت ہوں!”

* “میں اپنی مرضی کے خلاف ہر برس بچہ پیدا کرنے پر مجبور عورت ہوں!”

* “میں مرضی کی شادی کی اجازت نہ ملنے پر ساری عمرگھر بٹھائی جانے والی عورت ہوں!”

وہ جو ایک ڈاکٹر ہے۔ وہ طبی مسائل پر تو بڑی آسانی سے لکھ لیتی ہے اور سہولت سے سمجھا بھی سکتی ہے۔ خود عورت ہے اسی لئے عورتوں کے مسائل پر دل کھول کر لکھتی ہے۔ طاہرہ کی تحریر کی بے ساختگی ہی اس کی سب سے بڑی خوبصورتی ہے۔ وہ کب لکھتی ہے اور کب ہمکلام ہوتی ہے۔

طاہرہ کی تحریر کی بے ساختگی ہمیں اچھی لگتی ہے۔ پر ہو سکتا ہے کچھ لوگوں کو اس کی یہ بہادری اور بیباکی بھاتی نہ ہو۔ شاید ایسے ہی لوگوں کے لئے وہ لکھتی ہے :

“تم مجھے اپنے الفاظ سے قتل کرسکتے ہو…تم مجھے اپنی نگاہوں سے کاٹ سکتے ہو… تم مجھے اپنی نفرت سے مار سکتے ہو… لیکن پھر بھی، ہوا کی طرح، میں پھر اٹھوں گی…ایک روپہلی امید بھری صبح میں!”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments