قومی حکومت: اتحاد کی بجائے انتشار کا سبب بنے گی


پیپلز پارٹی کے چئیر مین بلاول بھٹو زرداری نے ملک میں قومی حکومت کے قیام کا اشارہ دیا ہے تاکہ عوام کو درپیش مسائل حل کئے جاسکیں۔ اسلام آباد میں پاکستان جمہوری تحریک کے صدر مولانا فضل الرحمان کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے دعویٰ کیا کہ’ پی ڈی ایم جس قومی حکومت کے لئے کوشاں ہے، وہ قوم کو درپیش مسائل حل کرنے پر توجہ دے گی۔ تمام مسائل پارلیمنٹ میں حل کئے جائیں گے اور ادارے اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے کام کریں گے‘۔
بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمان نے سینیٹ انتخاب میں ’غیر معمولی‘ نتیجہ دکھانے کی بات بھی کی اور دعویٰ کیا کہ حکمران اتحاد میں شامل بہت سے ارکان اسمبلی ، پی ڈی ایم کے امیدواروں کو ووٹ دیں گے۔ اس دوران پیپلز پارٹی نے سینیٹ کی زیادہ سے زیادہ نشستیں جیتنے کے لئے ایسی چھوٹی پارٹیوں سے بھی رابطہ کیا ہے جو اس وقت حکومتی اتحاد میں شامل ہیں لیکن ان کی طرف سے حکومت سے ناراضی کے اشارے سامنے آتے رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے وفد نے کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) کی قیادت سے ملاقات کی ہے۔ اور انہیں سینیٹ میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی پیشکش کی گئی ہے جبکہ ایسے ہی روابط کی خبریں لاہور سے بھی موصول ہوئی ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ق) کے لیڈر اور پنجاب اسمبلی کے اسپیکر چوہدری پرویز الہیٰ سے رابطہ کیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے مولانا فضل الرحمان کے ساتھ پریس کانفرنس میں تحریک انصاف کے کچھ ارکان کی حمایت کا دعویٰ بھی کیا۔ انہیں اس حمایت پر اتنا یقین ہے کہ وہ سینیٹ میں اوپن بیلیٹ انتخاب کا راستہ کھلنے پر بھی مطمئن ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم دونوں طرح مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔
سپریم کورٹ سوموار کو سینیٹ کے ووٹنگ کے طریقہ کار کے بارے میں اپنی رائے کا اعلان کرنے والی ہے۔ اس معاملہ کی سماعت کے دوران ججوں کی طرف سے ملے جلے اشارے سامنے آئے تھے۔ اس لئے یہ قیاس آرائی ممکن نہیں ہے کہ سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بنچ آئین کی شق 226 کو اسی طرح خفیہ بیلیٹ کے لئے حتمی سمجھے گا جس کا اظہار الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے کیا گیا ہے۔ یا حکومتی رائے کے مطابق سینیٹ الیکشن کو اس شق سے علیحدہ کرکے دیکھا جائے گا۔ ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ سپریم کورٹ کوئی ایسا فیصلہ دے جس میں ارکان اسمبلی ووٹ تو خفیہ ہی دیں لیکن بدعنوانی یا ووٹوں کی خرید و فروخت کے شبہ کی صورت میں الیکشن کمیشن کو مشکوک ووٹوں کی پڑتال کرنے کا حکم دیا جائے۔ اس کا طریقہ کار بھی سپریم کورٹ کے حکم میں ہی سامنے آسکتا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے اگرچہ امید ظاہر کی ہے کہ سپریم کورٹ آئینی تقاضوں کے مطابق ہی فیصلہ کرے گی لیکن اپوزیشن کی تمام پارٹیاں اوپن بیلیٹ کے لئے عمران خان کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لئے کام کرتی رہی ہیں۔ بعد کے حالات میں جو سیاسی تصویر ابھر کر سامنے آئی ہے، اس میں یہ بھی واضح ہوگیاہے کہ عمران خان کی اصل پریشانی ووٹوں کی خرید و فروخت نہیں ہے بلکہ انہیں سیاسی حلیف جماعتوں اور اپنی ہی پارٹی کے بعض ارکان کی نیت پر شک ہے جس کی وجہ سے وہ اوپن ووٹنگ کے ذریعے انہیں مسلسل دباؤ میں رکھنا چاہتے ہیں تاکہ تحریک انصاف کو اپنے حجم کے مطابق سینیٹ کی سیٹیں مل سکیں۔ اور وہ سینیٹ کی سب سے بڑی پارٹی بن جائے اور اتحادیوں کے ساتھ ملک کر اپوزیشن کی بالادستی ختم کردے۔ بلاول بھٹو زرداری البتہ اب یہ یقین دلا رہے ہیں کہ حکومتی اتحاد میں شامل متعدد ارکان دونوں صورتوں میں اپوزیشن یا بطور خاص پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی حمایت کریں گے۔
سپریم کورٹ کی طرف سے اوپن بیلیٹ کے خلاف کوئی ٹھوس فیصلہ عمران خان اور تحریک انصاف کے لئے شدید سیاسی جھٹکا ثابت ہوسکتا ہے۔ اس صورت میں صرف اتحادی جماعتوں ہی میں نہیں بلکہ تحریک انصاف کی صفوں میں بھی انتشار پیدا ہوسکتا ہے۔ حکمران جماعتوں کے کئی ارکان اپوزیشن کے امید واروں کو ووٹ دے کر کامیاب کروا سکتے ہیں۔ ایسا دوٹوک فیصلہ ملک میں اس تاثر کو بھی راسخ کرے گا کہ اسٹبلشمنٹ اب حکومت کو براہ راست تعاون فراہم نہیں کررہی۔ قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر تحریک انصاف کی ناکامی اور ڈسکہ کی نشست پر دھاندلی کے الزامات کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان کا غیر معمولی سخت فیصلہ، پہلے ہی ملکی سیاسی ماحول میں ایک حیرت انگیز تبدیلی کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ بعض مبصرین کا دعویٰ ہے کہ ایسی تبدیلی قلب اسٹبلشمنٹ کے براہ راست اشارے کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ضمنی انتخابات کے بعد اپوزیشن لیڈروں نے تسلسل سے ایسے بیانات دیے ہیں کہ اسٹبلشمنٹ نے انتخابی دھاندلی میں حصہ نہیں لیا۔ حتی کہ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے بھی اسٹبلشمنٹ کی بجائے وفاقی ایجنسیوں پر مداخلت کا الزام لگایا اور وزیر اعظم کو اس کا ذمہ دار قرار دیا۔
اس حوالے سے اپوزیشن کے رویہ کی ایک وجہ سینیٹ انتخاب بھی ہوسکتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سب سیاسی پارٹیوں میں ایسے ارکان شامل ہوتے ہیں جو کسی صورت براہ راست اسٹبلشمنٹ مخالف دکھائی دینے کی خواہش نہیں رکھتے۔ اپوزیشن کے بدلے ہوئے بیانات کو اگرچہ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ کسی ’تفہیم‘ کا نتیجہ بھی کہا جا رہا ہے لیکن اس پہلو کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ اپوزیشن اسٹبلشمنٹ سے ’مفاہمت‘ کا تاثر مضبوط کرکے سینیٹ الیکشن میں فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہو۔ اور براہ راست کوئی سلسلہ جنبانی نہ ہؤا ہو کیوں کہ آئی ایس پی آر نے پی ڈی ایم کے ساتھ کسی بھی قسم کے رابطہ کی تردید کی تھی۔ البتہ حکومت کی پوزیشن کے برعکس سپریم کورٹ کی رائے دراصل اس قیاس کو قوی کرے گی کہ اسٹبلشمنٹ نے تحریک انصاف کو سیاسی معاملات خود طے کرنے کا پیغام دے دیاہے۔ ملکی سیاسی منظر نامہ میں ایسی قیاس آرائیاں انتخابی نتائج تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
پنجاب سے سینیٹرز کے بلامقابلہ منتخب ہونے کی خبر بھی یہ اشارہ دے رہی ہے کہ تحریک انصاف کی سیاسی پوزیشن ڈانواں ڈول ہے۔ وزیر اعظم نے اس کام کے لئے چوہدری پرویز الہیٰ کو ٹاسک دیا تھا جو انہوں نے ق لیگ کا ایک سینیٹر منتخب کروانے کے ’عوض‘ بخوبی سرانجام دیا ہے۔ اس طرح پنجاب سے تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے مساوی تعداد میں سینیٹرز منتخب ہوگئے ہیں۔ مریم نواز نے اس سمجھوتے پر پر بالواسطہ ناپسندیدگی کا اظہار ضرور کیا ہے لیکن اس پر کوئی دوٹوک رائے دینے سے گریز کیا ہے۔ اس سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ نواز شریف بھی اس ’ڈیل‘ سے باخبر تھے اور اس کی منظوری دے چکے تھے۔ البتہ یہ کہنا مشکل ہے کہ قومی سطح پر سیاسی تعاون کی فضا پیدا کرنے میں چوہدری پرویز الہیٰ کوئی اہم کردار کردار ادا کرسکتے ہیں۔
عمران خان کسی صورت ایسا کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے جس سے یہ اندازہ ہو کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ کسی قسم کی سودے بازی کررہے ہیں۔ انہیں پنجاب میں خاص طور سے اور ملک بھر میں عام طور سے اپنی مقبولیت برقرار رکھنے کے لئے ’کرپشن کارڈ‘ استعمال کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔ تحریک انصاف کے لئے اسٹبلشمنٹ کی سرپرستی سے محروم ہو کر اس نعرے کی اہمیت دو چند ہوجائے گی۔
اب بلاول بھٹو زرداری نے قومی حکومت قائم کرنے کی امید ظاہر کی ہے۔ یہ اصطلاح بجائے خود نامکمل ہے۔ کیوں کہ اگر تحریک انصاف کی حکومت کو ختم کرکے پی ڈی ایم میں شامل پارٹیوں پر مشتمل حکومت قائم کرنے کا اشارہ دیا جارہا ہے تو اول تو اس کی کامیابی کے آثار نہیں ہیں ، دوسرے یہ طریقہ مسلمہ جمہوری طریقہ کار سے متصادم ہے۔ اگر جوڑ توڑ کی سیاست سے تحریک انصاف کو کمزور کرکے حکومت تبدیل کرنے کا اقدام کیا جائے گا تو اس سے جمہوریت کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ایسے میں پی ڈی ایم کا نام ہی بے معنی ہوکر رہ جائے گا۔ ماضی میں مسلم لیگ (ن) کی طرح پیپلز پارٹی کی حکومتوں کو متعدد بار نصف مدت پوری کرنے کے بعد گھر بھیجا گیا ہے۔ اس تناظر میں حکومت کسی بھی پارٹی کی ہو کسی اشار ے یا گٹھ جوڑ کے ذریعے اس کا خاتمہ کسی بھی جمہوری تحریک کو زیب نہیں دے گا۔
یہ سمجھنا بھی مشکل ہوگا کہ مسلم لیگ (ن) کیسے ایسی کسی ’قومی حکومت‘ میں شامل ہوجائے گی جو نئے انتخابات کی بجائے موجودہ اسمبلیوں میں توڑ پھوڑ کا نتیجہ ہو۔ ایسی کوئی کوشش عمران خان اور تحریک انصاف سے زیادہ اپوزیشن اتحاد کے لئے خطرے کی گھنٹی ہوگی۔ یہ آثار تو دکھائی دیتے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے مارچ 2018 میں صادق سنجرانی کو چئیر مین سینیٹ بنوا کر اور پھر اسی سال دسمبر میں بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت گرا نے میں کردار ادا کرکے جو ’خدمت‘ انجام دی تھی ، اب وہ اس کا ’انعام‘ پانے کی امید لگائے ہوئے ہو۔ لیکن یہ بیل منڈھے چڑھانے میں صرف اسٹبلشمنٹ کی خاموشی ہی کافی نہیں ہوگی۔ پیپلز پارٹی کو اس منصوبہ کی تکمیل کے لئے تحریک انصاف کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کا مقابلہ بھی درپیش ہوگا۔
یوں بھی کسی ایسی حکومت کو قومی حکومت کیسے کہا جاسکے گا جس میں صرف وہ سیاسی پارٹیاں شامل ہوں جو اس وقت اپوزیشن میں ہیں۔ حقیقی معنوں میں قومی حکومت بنانے کےلئے تمام اہم پارٹیوں کو اس کا حصہ ہونا چاہئے۔ دوسرے لفظوں میں ایسی کوئی حکومت تحریک انصاف کی سرکردگی میں ہی قائم ہوسکتی ہے۔ ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کو کسی نام نہاد قومی حکومت سے علیحدہ رکھ کر کوئی سیاسی منصوبہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اگر بلاول بھٹو زرداری قومی حکومت کے نام پر تحریک انصاف کا ہاتھ تھام کر کسی طرح اقتدار میں حصہ لینا چاہتے ہیں تو ایسا کوئی بھی منصوبہ نہ تو دیرپا ہوگا اور نہ ہی ملک میں جمہوری روایت کے استحکام میں ممد و معاون ہوسکے گا۔ کسی جمہوری تحریک کے پلیٹ فارم سے ایسی کوششوں کا اعلان، قومی سیاسی رہنماؤں کی حرص اور جمہوری کم نگاہی کا مظہر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments