نیپال کے ماؤ نواز انقلابی اور ان کی بیٹی کی کہانی: ’لوگ اپنی جانیں دے رہے ہیں اور تم انقلاب کے لیے شادی بھی نہیں کر سکتیں؟‘


جب فروری سنہ 1996 میں ان کے والد پشپ کمل داہال پرچنڈ نے نیپال میں بادشاہت کے خاتمے کے لیے مسلح تحریک کا آغاز کیا تو اس وقت رینو داہال صرف 18 سال کی تھیں۔

ذرا سوچیں کہ جب 18 سالہ بیٹی اپنے والد کو گولہ بارود اور بندوق کے ساتھ دیکھتی ہوگی تو اسے کیسا محسوس ہوتا ہوگا؟

رینو کا کہنا ہے کہ وہ بندوق انصاف کے لیے اور مطلق العنان حکمرانی کے خلاف اٹھائی گئی تھی۔

پرچنڈ چھ چھ ماہ تک اپنے کنبے سے دور رہتے تھے۔ رینو اپنے والد اور نیپال کمیونسٹ پارٹی (ماؤ نواز) کے ساتھ مسلح تحریک میں شامل رہیں۔

لیکن پرچنڈ نیپال میں اس وقت کے شاہی نظام سے لڑتے ہوئے کبھی اس بات سے غافل نہیں رہے کہ ان کی بیٹیاں بھی تھیں۔ انھیں احساس تھا کہ وہ ایک باپ بھی ہیں اور ان کی ذمہ داریاں ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

‘رام نیپالی تھے، ایودھیا نیپال میں ہے’: وزیر اعظم اولی کے بیان پر تنازع

نیپال: انڈیا ہماری زمین سے ’فوری طور پر نکلے‘

’انڈیا نہیں چاہتا تھا کہ نیپال سیکولر ریاست بنے‘

پرچنڈ کو یہ خوف تھا کہ ان کی لڑائی دو چار مہینوں میں ختم نہیں ہونے والی ہے اور ایسی صورتحال میں ان کی بیٹیوں کا کیا ہوگا۔ پرچنڈ کی تین بیٹیاں تھیں۔ سب سے بڑی بیٹی گیانو، پھر رینو اور سب سے چھوٹی بیٹی گنگا۔

گیانو کی شادی ’جن یدھ‘ یعنی عوامی جنگ کے آغاز سے تین سال قبل سنہ 1993 میں ہوچکی تھی۔ لیکن جب بادشاہت کے خلاف مسلح تحریک بڑھ رہی تھی اسی دوران ان کی دو بیٹیاں رینو اور گنگا بڑی ہو رہی تھیں۔

نیپال کمیونسٹ پارٹی (ماؤ نواز) کے اندر پرچنڈ کی بیٹی رینو کی شادی سے متعلق ایک میٹنگ ہوئی۔ پارٹی نے رینو کی شادی کی تجویز کو منظور کر لیا۔ یہ سال ’جن یدھ‘ کے آغاز کے ایک سال بعد سنہ 1997 کی بات ہے۔ رینو کو پارٹی کے فیصلے اور تجویز سے آگاہ کیا گیا۔

رینو اس وقت 19 سال کی تھیں جب انھیں لڑکے سے ملنے کے لیے کہا گیا۔

رینو اس لڑکے سے ملنے انڈیا کے شہر جالندھر پہنچیں۔

انھوں نے ہنستے ہوئے کہا: ’لوگ لڑکی دیکھنے جاتے ہیں لیکن میں لڑکے کو دیکھنے گئی تھی۔ میں دو دنوں تک لڑکے کے گھر پر ہی رہی۔ لیکن میں شادی کے لیے بالکل تیار نہیں تھی۔ اس وقت میری عمر بھی بہت کم تھی۔ لیکن پاپا اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ ہمیں ساتھ رکھتے۔ پارٹی کا فیصلہ تھا کہ مجھے شادی کرنی چاہیے۔ لیکن میں اپنے والد کو تو اپنی بات بتا سکتی تھی۔ میں نے پاپا سے کہا کہ میں شادی نہیں کرنا چاہتی۔ پاپا نے جواب دیا کہ لوگ تحریک کے لیے اپنی جان دے رہے ہیں اور تم شادی بھی نہیں کرسکتی؟ تمہاری شادی انقلاب کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اس کے بعد میں خاموش ہوگئی۔‘

رینو کا کہنا ہے کہ ’کسی بھی تحریک میں صرف تحریک کا ہی کام نہیں ہوتا ہے۔ زندگی کے باقی کام بھی اسی دوران ہوتے ہیں۔ انقلاب اور محبت ایک ساتھ چلتے ہیں۔ کبھی محبت انقلاب میں شریک ہوتی ہے تو کبھی انقلاب کے دوران ہی محبت ہو جاتی ہے۔ میری شادی بھی اسی سفر کا ایک حصہ ہے۔‘

لکھنؤ میں ہوئی شادی

رینو جالندھر میں جس لڑکے سے ملنے گئی تھی ان کا نام ارجن پاٹھک تھا۔ ارجن پاٹھک اس وقت جالندھر ڈی اے وی میں زیر تعلیم تھے۔ اس وقت ارجن 21 سال کے تھے۔ سنہ 1997 کی اس ملاقات کو یاد کرتے ہوئے ارجن نے کہا: ’ہمارے درمیان زیادہ بات نہیں ہوئی تھی۔ شادی کا فیصلہ پارٹی کا تھا اور ہم پارٹی کے اصولوں اور فیصلوں کے پابند تھے۔ سچ پوچھیں تو مجھے شادی کی زیادہ خواہش نہیں تھی۔‘

لیکن 9 فروری سنہ 1997 کو لکھنؤ کے لیلا ہوٹل میں چپکے سے ان کی شادی ہو گئی۔ رینو کا کہنا ہے کہ ان کی چھوٹی بہن گنگا کی بھی ان کے ساتھ شادی ہوئی۔ رینو نے بتایا: ’دونوں بہنوں کی شادی آدھے گھنٹے میں ہو گئي۔ لکھنؤ میں پولیس انتظامیہ کو اس کا علم نہ ہوسکا۔

اس شادی میں بہت کم لوگ شریک تھے۔ بس دونوں کے والدین اور پارٹی کے کچھ اہم رہنما۔ بابورام بھٹارائی کی اہلیہ ہیسیلا یامی اور نیپال کے موجودہ وزیر داخلہ رام بہادر تھاپا بادل موجود تھے۔

ارجن پاٹھک کہتے ہیں ’میں شادی کے وقت بی ایس سی سیکنڈ ایئر میں تھا۔ پارٹی کا خیال تھا کہ بچوں کے ساتھ کوئی تحریک نہیں ہوسکتی ہے۔ ایسی صورت میں پارٹی رہنماؤں نے بچوں کو آباد کرنے کا فیصلہ کیا۔ شادی کی تجویز پارٹی ہی کی جانب سے آئی تھی اور پارٹی سے وابستگی کی وجہ سے اس فیصلے کو قبول کرنا پڑا۔‘

’یہ شادی اس وقت ہوئی جب پرچنڈ کا ٹھکانہ خفیہ تکھا گیا تھا۔ یہ شادی بھی خفیہ رکھی گئی تھی۔ انڈیا میں پولیس انتظامیہ سے بھی بچنا تھا۔ اسی لیے کسی کو بھنک نہیں لگنے دی گئی۔ یہ جمہوری تحریک کی شادی تھی اور اسی انداز میں کی گئی تھی۔‘

رینو اور ارجن شادی کے بعد

رینو اور ارجن شادی کے بعد

’وقت کا تقاضا‘

ارجن اور رینو دونوں کا خیال ہے کہ پرچنڈ نے وقت کی ضرورت تحت بندوق اٹھائی تھی کیونکہ نظام بہرا ہوچکا تھا اور دوسری طرح سے بات سننے کو تیار نہیں تھا۔

ارجن نے کہا: ’بادشاہی نہیں جاتی ہے۔ بندوق اٹھانا مجبوری تھی۔ تاہم، جو ہم نے سوچا وہ بھی نہیں ہوا۔ ابھی بھی بہت کچھ باقی ہے۔ وقت بدل چکا ہے، کافی آگے نکل چکا ہے۔ اگر ایک بار پھر سے یہاں بادشاہت آجاتی ہے تو ہم یہ خیال کرنے لگیں کہ پھر سے اس کے خلاف مسلح ہو جائیں تو یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ عوامی حمایت جو پہلے ملی تھی وہ اب مشکل ہے۔ ایک طویل عمل کے بعد نیپال میں عوامی جنگ کا آغاز ہوا تھا۔ موجودہ ماحول میں اسے دوبارہ جواز فراہم کرنے میں وقت لگے گا۔‘

رینو نیپال کے چتون ضلع میں بھرت پور میونسپل کارپوریشن کی میئر ہیں اور ارجن پاٹھک اس وقت سوشل سائنسز سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ ارجن کا تعلق نیپال کے گلمی ضلع سے ہے۔

ارجن کے والد ٹیک بہادر پاٹھک کو سنہ 1967 میں انڈین فوج کی گورکھا رجمنٹ میں شامل کیا گیا تھا۔ ارجن بھی سات سال کی عمر میں انڈیا آئے تھے۔

ٹیک بہادر پاٹھک کا انڈین فوج میں داخلہ

ٹیک بہادر پاٹھک اور پرچنڈ کے گہرے دوست بننے کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔ ٹیک بہادر پاٹھک کے گھر کی مالی حالت بہت اچھی نہیں تھی جس نے انھیں نیپال چھوڑنے پر مجبور کردیا۔

سنہ 1967 میں وہ نیپال کے گلمی سے انڈیا میں اترپردیش ریاست کے ضلع گورکھپور پہنچے۔ انھوں نے گورکھپور میں نیپال کے پوکھرا علاقے کے بمبہادر گرونگ سے ان کی ملاقات ہوئی۔ گرونگ انڈین فوج میں کپتان تھے۔

پاٹھک نے گورکھپور آرمی کیمپ میں کیپٹن گرونگ سے ملاقات کی اور فوج میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کیا۔

ٹیک بہادر پاٹھک کہتے ہیں: ’اس وقت کوئی خالی جگہ نہیں تھی ، لیکن گرونگ جی نے اپنے سینیئر افسران سے بات کی اور ہمیں فوج میں رکھ لیا۔ گورکھپور میں دو تین ماہ رہا۔ اس کے بعد مجھے ہماچل پردیش میں 14 جی ٹی سی یعنی 14 گورکھا تربیتی مرکز بھیج دیا گیا۔ اسی جگہ میں نے تربیت حاصل کی۔ تربیت کے بعد مجھے فیروز پور روانہ کردیا گیا۔‘

’یہ پاکستان کی سرحد کے قریب ہے۔ تین چار مہینوں تک سخت ٹریننگ ہوئی اور پھر لہہ لداخ بھیجا گیا۔ دو سال لداخ میں رہنے کے بعد جموں کے پونچھ سیکٹر بھیج دیا گیا۔ یہ سنہ 1971 کا سال تھا اور پاکستان نے دسمبر کے پہلے ہفتے میں انڈیا پر حملہ کردیا تھا۔‘

ٹیک بہادر پاٹھک اس وقت بمشکل 22 سال کے تھے اور انھوں نے انڈین سپاہی کی حیثیت سے پاکستان کے خلاف جنگ میں شرکت کی تھی۔

پاٹھک کہتے ہیں: ’ہمیں سرحد عبور کرکے حملہ کرنے کے لیے کہا گیا۔ ہم پونچھ کے لونگر سیکٹر سے آگے بڑھ رہے تھے۔ پاکستان کی فوج پہلے سے ہی ہماری چوکی پر حملہ کرنے کے لیے تیار تھی۔ بیچ ہی میں ہمارا مقابلہ ہوگیا۔ دونوں طرف سے فائرنگ ہوتی رہی۔ ساری رات وہیں گزری۔ اس دوران ہمارے ایک ساتھی کو پاکستان کے فوجیوں نے پکڑا اور بے دردی سے ہلاک کردیا۔ دوسرے دن اس کی لاش اپنے ساتھ لے کر آیا۔‘

ٹیک بہادور پاٹھک کا کہنا ہے کہ انھوں نے انڈین فوج کا حلف لیا اور اسی کے مطابق پاکستان کے ساتھ جنگ لڑی۔

ٹیک بہادر پاٹھک سنہ 1971 کی جنگ کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’جنگ بہت خوفناک تھی۔ میں بتا نہیں سکتا۔ اس وقت میں 22 سال کا تھا لیکن کسی قسم کا خوف نہیں تھا۔ مجھے کوئی گولی نہیں لگی۔`

انڈین فوج کیوں چھوڑی؟

سات سال میں ہی ٹیک بہادر نے انڈین فوج کو الوداع کہہ دیا۔ آخر ٹیک بہادر پاٹھک نے فوج چھوڑنے کا فیصلہ کیوں کیا؟

انھوں نے بتایا: ’سنہ 1962 میں انڈیا اور چین کے مابین ایک جنگ ہوئی تھی۔ اس میں بڑی تعداد نیپالی باشندے ہلاک ہوئے تھے۔ جب میں لداخ گیا تو دیکھا کہ جنگ میں مارے جانے والوں کی یاد میں یادگاری تختیاں لگی تھیں۔ یہ تختیاں انتہائی خراب حالت میں تھیں۔ مشکل سے نام پڑھ سکا تھا۔ گورکھا وہاں بہت بری حالت میں رہ رہے تھے۔ میں نے سوچا کہ نیپالی بھائیوں نے اتنی سخت سرد علاقے میں ہندوستان کے لیے جان دی اور یہ ان کی حالت ہے۔ ہندوستان کی فوج کے پاس اس وقت اتنا سازوسامان بھی نہیں تھا۔‘

’میں کیزوئل لیو لے کر دہلی گیا۔ میرا بھائی ہمیں ایک میٹنگ میں لے جایا گیا۔ یہ کمیونسٹوں کی ایک میٹنگ تھی اور وہاں ایسا محسوس کیا کہ اپنے لوگ کتنی مشکلات میں جی رہے ہیں اور میں کچھ کرنے کے قابل نہیں ہوں۔ پھر یہ محسوس کیا کہ اب استعفی دے کر اپنے ملک کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔‘

فوج کی نوکری چھوڑنے کے بعد ٹیک بہادر پاٹھک نیپال چلے گئے تو انھوں نے سوچا کہ اب گزر بسر کیے ہوگی؟ پیسے نہیں ہیں۔ پھر انھوں نے تعلیم حاصل کرنا شروع کیا اور جالندھر میں انڈین اوورسیز بینک میں نوکری لی۔ لیکن نوجوان ٹیک بہادر کا دل نیپال کے شاہی نظام کے خلاف جنگ میں لگا ہوا تھا۔

بینک میں ملازمت کے دوران انھوں نے انڈیا میں کام کرنے والے نیپالیوں کو متحد کرنا شروع کیا۔ اس کے لیے نیپال ایکتا سماج پریشد کے نام سے ایک تنظیم تشکیل دی گئی اور اس کے اجلاس پورے انڈیا میں منعقد ہوئے۔ پاٹھک ملازمتیں اور احتجاج دونوں ایک ساتھ کرتے رہے۔

پاٹھک کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے بینک منیجر سے لے کر عام انڈینز کو بتایا کہ نیپال میں ایک مطلق العنان بادشاہت کا نظام ہے اور وہاں بھی انڈیا کی طرح جمہوریت کی ضرورت ہے۔

ٹیک بہادر پاٹھک کہتے ہیں کہ انڈیا کے عام لوگوں نے نیپال میں جمہوریت کی جنگ میں بہت مدد کی۔ سنہ 1985 میں ٹیک بہادر پاٹھک نے پرچنڈ کو پہلی بار گورکھپور میں نیپال کمیونسٹ پارٹی کے جلسے میں سنا۔ پاٹھک کہتے ہیں کہ پرچنڈ کی پیش کش بہت زبردست تھی۔

ٹیک بہادر کو 1988 میں نیپال بلایا گیا۔ پارٹی کی اعلی قیادت کو پتا چل گیا تھا کہ پاٹھاک انڈین فوج میں خدمت انجام دے چکے ہیں اور وہ ماؤنوازوں کو ہتھیار چلانے کی تربیت دے سکتے ہیں۔

ٹیک بہادور پاٹھک کہتے ہیں: ’نیپال کے موجودہ وزیر داخلہ رام بہادر تھاپا بادل نے گورکھا ضلع پہنچنے میں میری رہنمائی کی۔ رات کوہی جنگل جانا پڑا۔ میں نے پہاڑوں اور جنگلات میں ایک ہفتہ تکف ماؤنوازوں کو ہتھیار چلانے اور دشمنوں سے بچنے کی تربیت دی۔‘

پرچنڈ سمیت اس میں تمام بڑے رہنما شامل تھے۔ دن میں نظریاتی تربیت ہوتی تھی۔ اس تربیت کے بعد بادشاہت کے خلاف مسلح جنگ شروع ہوگئی تھی۔

پاٹھک انڈیا میں کام کرنے والے نیپالیوں سے چندہ لینے کے بعد پارٹی کو رقم بھیجتے تھے۔ پاٹھک کہتے ہیں کہ تربیت کے دوران ہی پرچنڈ اور میں دوست بن گئے۔ پرچنڈ دستی بم اور ٹائم بم بنانے کا طریقہ بھی جانتے تھے۔ ان کا نشانہ بہترین تھا۔ وہ پہلے سے ہی پٹرول بم اور ریڈیو بم بنانا جانتے تھے۔

’رام بہادر تھاپا عوامی جنگ کے ایک سال بعد سنہ 1997 میں شادی کی تجویز کے ساتھ دہلی آئے تھے۔ میں بھی جالندھر سے دہلی گیا تھا۔ میں شادی کے لیے رضامند ہوگیا اور شادی کے بعد دونوں میرے ساتھ جالندھر میں رہے۔ رینو اور ارجن بھی پارٹی کام میں مصروف رہتے تھے۔ رینو نے پارٹی میں تنظیم کی سطح پر خواتین کو متحد کرنا شروع کیا۔‘

نیپال میں بادشاہت کے خاتمے کے بعد یعنی سنہ 2008 میں ٹیک بہادر پاٹھک نے انڈین اوورسیز بینک کی نوکری چھوڑ دی۔ انھیں اب بھی پنشن ملتی ہے۔ ان کا اپنا جالندھر میں مکان تھا جسے انھوں نے سنہ 2015 میں بھی فروخت کر دیا۔

پاٹھک کہتے ہیں کہ یہ مکان نیپال میں انقلاب کا گواہ تھا، لیکن انھیں کھٹمنڈو میں ایک گھر بنانا تھا لہذا اس کے لیے انھیں یہ گھر فروخت کرنا پڑا۔

انڈیا کا کردار

پرچنڈ بادشاہت کے خاتمے کے بعد سنہ 2008 میں نیپال کے وزیر اعظم بنے تھے۔ لیکن ایک سال کے اندر ہی انھوں نے اس وقت کے آرمی چیف روکم مانگڈ کٹوال سے تنازعے کے بعد استعفیٰ دے دیا تھا۔ رینو داہال کا کہنا ہے کہ یہ ان کے والد کا جلد بازی کا فیصلہ تھا۔

رینو نے کہا: ’ایک ملازم سے جھگڑے پر استعفی نہیں دینا چاہیے تھا۔ یہ فیصلہ لوگوں کے لیے متاثر کن تھا، کیونکہ اس کے ذریعے ایک پیغام گیا تھا کہ پرچنڈ کو کسی عہد کا لالچ نہیں ہے بلکہ ان کا مقصد نظام کو تبدیل کرنا ہے۔ لیکن حکمت عملی اور اشتراکی تحریک کے حوالے سے یہ جلد بازی میں کیا جانے والا فیصلہ تھا۔‘

رینو انڈیا کے بارے میں کہتی ہیں کہ نیپال میں انقلاب لانے میں انڈیا کے عوام نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ رینو نے کہا: ’سیاسی سطح پر رشتے خواہ جیسے بھی ہوں، لیکن نیپال اور انڈیا کے عام لوگوں کے درمیان بہت اچھے تعلقات رہے ہیں۔‘

پرچنڈ کو اپنی زندگی میں بہت ساری جدوجہد کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن سنہ 2017 ان کے لیے بہت اذیت ناک تھا۔ ان کے اکلوتے بیٹے پرکاش داہال کا 36 سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔

اس سے قبل پرچنڈ کی بڑی بیٹی گیانو بھی کینسر کی وجہ سے انتقال کر گئیں۔ پرچنڈ کی اہلیہ سیتا بھی بہت سی بیماریوں میں مبتلا ہیں اور ممبئی میں ان کا علاج جاری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32473 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp