سفر استنبول اور مسلم آیاصوفیہ


وبا کے دنوں میں سفر کا لطف ہی سوا ہے۔ آپ وہ سب دیکھتے ہیں جو عام دنوں میں ممکن نہیں ہے۔ یہی دیکھ لیجیے کہ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ کسی شہر اور وہ بھی ڈیڑھ کروڑ کی آبادی والے استنبول جائیں اور وہاں آپ کو مقامی کہیں دکھائی نہ دیں سوائے دکانداروں کے، باقی سب محض آپ ہی کی طرح سیاح ہوں۔

ہم ہفتے کی شام جب استنبول اترے تو اگلے ڈیڑھ دن ہم نے شہر کو کچھ یوں ہی پایا۔ ہفتے کی رات نو بجے سے مقامی لوگوں کے لئے شروع ہونے والا کرفیو پیر کی صبح پانچ بجے جا کر ختم ہوتا ہے۔

شہر کیا ہے، سارے کا سارا میوزیم ہے۔ تاریخ کی کتاب کے اوراق کو گارے سے لیپا جائے تو اس شہر کی گلیاں وجود پاتی ہیں۔ پتھروں سے بنی عمارتیں جا بجا بکھری ہوئی ہیں۔ قدیمی محلوں میں پتھروں سے بنی یک رویہ سڑکوں کا جال سا بنا ہوا ہے۔ ایسے گھر اور سرائے خانے بھی دیکھے جن کی ہر منزل کا دروازہ سڑک پر کھلتا ہے۔ ہم سے کم بیں ہمیشہ شارجہ کو مسجدوں کا شہر جانتے رہے، استنبول پہنچے تو کھلا کہ جہاں بینی جہالت کا درک کرواتی ہے۔ نیلے گنبدوں اور انتہائی مختلف ساخت کے میناروں والی مسجدیں قدم قدم پر موجود ہیں۔ گنبد خضرا سنتے آئے تھے، گنبد زرقا دیکھ آئے۔

ترکی جائیں اور آیا صوفیہ نہ جائیں، یہ کیوں کر ممکن ہے۔ آیا صوفیہ دیکھنے میں کیسا لگتا ہے۔ ہم اس کے بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں۔ ہمیں تو وہ پہلی محبت کی طرح دلنشیں لگا۔ پہلی نظر میں ہی آپ دل ہار بیٹھیں۔ حسن ایسا کہ آپ دیوانہ وار وارفتگی سے بس دیکھتے چلے جائیں۔ جیتے جاگتے انسانوں سے محبت کرنے والوں کو سنگ و خشت سے بنی عمارت سے بھلا عشق کیسے ہو سکتا ہے۔ جی ضرور ہو سکتا ہے، یقین نہ آئے تو ایک مرتبہ آیا صوفیہ ہو آئیں۔ الجبرا کس قدر دلکش ہو سکتا ہے، یہ رمز ہم پر وہاں کھلا۔ زاویوں کی خوشنمائی اور تناسب کا جوبن سبھی کچھ تو تھا اس عمارت میں۔

ہم پہنچے تو قرآن کی تلاوت ہو رہی تھی۔ ایک سماں سا بندھا ہوا تھا۔ اس کافر گرجے کو سیکولر ترکی نے ایک مرتبہ پھر نیا نیا کلمہ پڑھایا تھا۔ در و دیوار پر کندہ ماضی کے نقوش اور چھتوں پر کچھ بچ جانے والی تصاویر بین کرتی دکھائی دیں۔ نماز کا وقت ہو گیا تھا۔ ہم مگر پڑھ نہ پائے کہ مبادا جگہ غضبی نہ ہو۔ ہمیں علم ہے کہ نشاة ثانیہ کی خواہشات میں جھلسے ہوئے لوگوں کو انٹرنیٹ پر موجود ہر پرچہ سلطان محمد کی آیا صوفیا کو خریدنے کی دستاویز دکھائی دیتا ہے۔

مگر بچپنے میں نسیم حجازی کے ناولوں کو تاریخ سمجھ کر ڈسے جانے والے کو احتیاط بہرحال ایک بہتر راستہ لگا۔ نماز تو گھر میں بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ اس عادل کو سجدہ مگر ظلم کی محراب پر تو نہیں کیا جا سکتا۔ مسجد میں تبدیل ہونے کے بعد، پہلی نماز جمعہ میں پیش امام علی ارباس کا تلوار کے سہارے منبر پر چڑھنے کا عمل جہاں ہم جیسے سادہ لوح مسلمانوں کے جذبۂ ایمانی کو گرمانے کا سبب بنا وہیں اس نے مشرکوں کے اس دعوے کو تقویت بھی ضرور بخشی کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا۔

ترکی کے لوگ بہت منکسر مزاج لگے۔ حتیٰ یہ کہ ایئرپورٹ پر ہمارے بیٹے کے دستی سامان سے جب ایک نوکیلی چابی نکلی تو زنانہ سیکورٹی افسر نے پہلے ہمارا حال احوال پوچھا اور پھر معذرت خواہانہ انداز میں وجہ بتاتے ہوئے اس کنجی کو ہم سے لے لیا۔ ہمیں بے اختیار امریکا کے TSA فورس کے خرانٹ افسر زیاد آ گئے۔ کام دونوں کا ایک سا ہے البتہ کام کرنے کا انداز بالکل جداگانہ ہے۔

استنبول میں جو چیز ہمیں بہت عجیب لگی وہ سیاحت کے مقامات پر بلیوں اور کتوں کی بہتات تھی۔ گو کہ ہم نے بذات خود ان کی آوارگی کا مشاہدہ نہیں کیا لیکن ہمارے یہاں سڑکوں پر گھومنے والے کتوں پر کچھ یہی تہمت لگائی جاتی ہے۔ ان کا چلن مگر انتہائی مختلف ہے۔ ان سب کے کان پر شناختی نشانات ہیں۔ یہ بھی ہماری اشرافیہ کی طرح سرکار کا کھاتے ہیں اور انہی کی طرح رج کر کھاتے ہیں لہٰذا ہر ایک کا وزن بقول ہماری عزیزہ کہ سو کلو سے کم نہ ہو گا۔ ہم جو کہ کتوں سے بس اتنا ڈرتے ہیں جتنا کہ ان سے ڈرنے کا حق ہے، اس کے باوجود بھی ہم کو ان سے ذرہ برابر بھی خوف محسوس نہیں ہوا۔

اتنے بھاری بھر کم ہونے کے باوجود ان میں جارحانہ پن عنقا تھا۔ لگ رہا تھا کہ جیسے وہ کسی سحر میں جکڑے ہوئے ہوں۔ ہم نے ان کو بھونکتے ہوئے بھی نہیں دیکھا۔ تھکے تھکے قدموں سے چلتے دیکھا یا پھر نشہ کرنے والوں کی طرح مدہوش پایا۔ سرکار نے ان کے کھانے پینے کا خوب انتظام کیا ہے۔ ان کو چلنے پھرنے کی آزادی بھی دی ہے۔ بس ان سے وہ حق چھین لیا ہے جو کہ ان کا پیدائشی حق ہے۔ یعنی کہ وہ بھونک نہیں سکتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے باوجود ہمیں وہ کافی خوش و خرم لگے۔

ایشیا کے عین درمیان موجود ترقی یافتہ قرار دیے جانے والے کئی ممالک کے شہریوں اور ان کتوں میں یہ مماثلت ہمیں بہت حیران کن لگی۔ شکم سیری کی دیمک آزادیٔ فکر کی شہتیر کو بھربھرا کر دیتی ہے۔ سو افزونی کے کھوکھلے زعم میں زندگی بتائی جا رہی ہے۔

ترکی کے کھانے بہت منفرد اور لذیذ ہیں۔ مگر شاید وہ ہم پاکستانیوں کو پسند نہ آئیں جن کو مرچ مصالحوں کے بغیر نہ کوئی غذا اچھی لگتی ہے نہ کوئی خبر۔ یہ ان کھانوں کا ہی اثر ہے کہ ہم نے وہاں محض چیدہ چیدہ لوگوں کو ہی اتنا تنومند دیکھا جتنی کہ بیشتر ہماری آبادی ہے۔ ترکش قوم خوش شکل، خوش لباس اور خوش مزاج ہے۔ ہمارے لئے خوش کا سابقہ شاید صرف خوراک کے ساتھ استعمال کیا جا سکتا ہے۔

ایک سو ستر سال قبل پینتس ٹن سونے کی مالیت سے تعمیر کردہ دولماباچے میوزیم بھی گئے جو کہ سلطان عبدل مجید نے معاشی زبوں حالی کے دور میں تعمیر کروایا تھا جو بالآخر اٹھارہ سو پچھتر میں سلطنت عثمانیہ کے دیوالیہ ہونے کا سبب بنا۔ وہاں ان بادشاہوں کے حرم میں بھی گئے۔ ان کی شان وشوکت اور شکوہ رفتہ کی یادگاریں دیکھیں۔ واپس پلٹتے وقت ہم یہی سوچ رہے تھے کہ یہ آثار شاید اسی لئے باقی ہیں کہ ہر دور کے مطلق العنان حکمران خواہ وہ بادشاہ ہوں، صدر ہوں، وزیراعظم ہوں یا پھر طاقت کے نشے میں چور کماندار، ان باقیات کو عبرت کی نگاہوں سے دیکھ پائیں اور سبق حاصل کریں کہ خاک سے اٹھا خمیر خاک میں ہی ضم ہونے کے لئے وجود پاتا ہے لہٰذا جب منصب ملے تو ظلم اور عدل کے مابین انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کریں ورنہ اِس دنیا میں بھی ذلیل ہوں گے اور اُس دنیا میں بھی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments