بلوچستان حکومت اور سوال ایک لاکھ بچوں کی تعلیم کا


رخسانہ بی بی تحصیل جھاؤ کے ایک دور افتادہ گاؤں میں درس و تدریس کے نظام سے منسلک ہیں۔ اس نظام سے جڑے لڑکے اور لڑکیاں 142 ہیں جن میں لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہے۔ یہ بچے حصول علم کے لیے اسی سکول کا رخ کرتے ہیں جسے بنیاد ان کی استانی رخسانہ نے فراہم کی ہے۔ گاؤں سے وہ پہلی خاتون ہے جو بطور ٹیچر بھرتی ہوئی ہے اور گزشتہ پانچ سال سے شعبہ تعلیم میں فرائض انجام دے رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شعبہ تعلیم میں قدم رکھنے سے گاؤں کی ان لڑکیوں کو اعتماد ملا ہے جن کے گھر والے انہیں سکول بھیجنے سے کتراتے تھے۔

تدریس کا یہ نظام کسی بھی وقت اپنی بساط لپیٹ سکتا ہے جب رخسانہ بوجہ مجبوری سکول کو خیرباد کہنے پر مجبور ہو جائے۔ وجوہات اپنی جگہ موجود ہیں جنہیں ایڈریس بھی کیا جا چکا ہے۔ وہ یہ کہ رخسانہ ڈیوٹی دینے کے باوجود گزشتہ سات ماہ سے تنخواہ کے حصول سے محروم ہے۔ ان کی تعیناتی گلوبل پارٹنر شپ فار ایجوکیشن کے تحت بطور جے وی ٹی 2015 میں ہوئی تھی۔ مذکورہ منصوبے کے تحت جون 2018 کے بعد سکولوں کا انتظام و انصرام حکومت بلوچستان کے پاس چلا جانا تھا۔

معاہدے کے تحت سکولز محکمہ تعلیم بلوچستان کو سونپ دیے گئے۔ جنہوں نے دو سال کے لیے جی پی ای اساتذہ کے کنٹریکٹ میں توسیع کر کے انہیں تنخواہیں جاری کیں مگر جولائی 2020 سے لے کر اب تک تنخواہوں اور مستقلی کا معاملہ اس لیے لٹک گیا ہے کہ سمری دوبار وزیراعلیٰ بلوچستان کے پاس چلے جانے کے بعد سرد خانے کی نذر ہو گئی ہے۔ اس صورتحال نے نہ صرف رخسانہ کے لیے مالی مشکلات پیدا کر دیں بلکہ ان دو بھائیوں کا تعلیمی سلسلہ بھی متاثر کر دیا جو حصول علم کے لیے اپنی بہن کی ماہانہ تنخواہ پر انحصار کر رہے تھے۔

رخسانہ سمیت اس وقت گلوبل پارٹنر شپ فار ایجوکیشن کے 1493 اساتذہ اسی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔ جنہوں نے اپنی آواز حکام تک پہنچانے کے لیے دسمبر 2020 میں کوئٹہ کا رخ کیا اور کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ لگایا۔ 30 دسمبر 2020 کو بلوچستان اسمبلی کے سامنے اس وقت دھرنا دے دیا جب اسمبلی کا سیشن چل رہا تھا۔

انہی مظاہرین میں الماس قادر بھی شامل تھی جس نے آواز حکام تک پہنچانے کے لیے نال سے کوئٹہ کا طویل سفر طے کیا اور اپنے چار ماہ کے بچے کے ساتھ سخت سردی احتجاجی کیمپ میں گزاری۔ وہ کہتی ہیں ”جب ہمارا مسئلہ کئی ماہ گزر جانے کے باوجود حل نہیں کیا گیا تو احتجاج کا راستہ مجبوراً اختیار کرنا پڑا۔ کئی ماہ سے تنخواہیں نہیں ملیں مگر ہم نے سکول بند نہیں کیا کیونکہ بچے ہمارے اپنے ہیں لیکن گھر بھی تو چلانا ہے“ ۔

گلوبل اساتذہ کی جانب سے دھرنے کا آغاز 28 دسمبر 2020 کو ہوا تھا جس کی قیادت فضل الیاس کر رہے تھے۔ متاثرین میں ان کی بیوی شامل ہے۔ احتجاج کے پہلے روز انہیں دیگر دو ساتھیوں کے ہمراہ گرفتار کر کے تھانہ بجلی گھر منتقل کیا گیا ، بعد میں انہیں رہا کیا گیا۔ کہتے ہیں ”صوبائی وزیر تعلیم سردار یار محمد رند اور ڈپٹی اسپیکر بلوچستان بابر موسیٰ خیل 7 جنوری کی شام ہمارے پاس آئے ، ہمیں یقین دہانی کرائی کہ سمری بنا کر وزیر اعلیٰ کو بھیج دیں گے ، مسئلہ حل ہو جائے گا۔ اگر نہیں ہوا تو وہ حکومت سے علیحدہ ہو جائیں گے۔ جس پر ہمیں احتجاج ختم کرنا پڑا۔“

یہ مظاہرہ دس دن تک جاری رہا ، مظاہرے میں خواتین اساتذہ کے علاوہ ان کے خاندان کے دیگر افراد جن میں ان کے بچے شامل تھے، شریک رہے۔ حکومت کی جانب سے اس مسئلے پر ایک کمیٹی بنائی گئی جس نے سفارشات مرتب کر کے وزیر اعلیٰ کو رپورٹ دینی تھی۔ تاہم کمیٹی کسی پیش رفت کے بغیر اپنی موت آپ مر گئی۔ آخری اطلاعات آنے تک سمری چیف سیکرٹری کے ٹیبل پر چلا گئی ہے۔

عالمی سطح پر ورلڈ بنک نے یورپین یونین کے تعاون سے جی پی ای تعلیمی منصوبے پر کام کا آغاز 2015۔ 16 میں کیا تھا۔ جس پر 76 ممالک نے اتفاق کیا جس میں پاکستان شامل تھا۔ اس منصوبے کا بنیادی مقصد ملکوں کے اندر جینڈر فری ایجوکیشن سسٹم متعارف کر کے گاؤں گاؤں تعلیم پہنچانا تھا۔ بلوچستان بھر میں اس منصوبے کے تحت 709 نئے سکولوں کا جال بچھایا گیا۔ معاہدے کے تحت مزید 95 سرکاری مڈل سکولز اور 20 سرکاری ہائی سکولز اس منصوبے میں شامل کیے گئے۔

اساتذہ کو تنخواہوں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ سکولوں کو جدید خطوط پر استوار کرنا تھا۔ اس نئے منصوبے کا مثبت اثر لڑکیوں کی تعلیم پر پڑا۔ لڑکوں کی تعلیمی شرح میں اضافہ ہوا۔ جی پی ای منصوبے سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق جون 2018 کو جب یہ منصوبہ حکومت بلوچستان کے حوالے کیا جا رہا تھا، اس وقت 709 پرائمری سکولوں میں داخل لڑکوں کی تعداد 25404 تھی جبکہ ان کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعداد 65578 تھی۔

حکومت بلوچستان نے شعبہ تعلیم میں اساتذہ کی کمی سے پیدا ہونے والے خلاء کو پر کرنے کے لیے 2019 میں سی ٹی ایس پی کے ذریعے 9433 آسامیوں کا اعلان کیا تھا۔ مگر سی ٹی ایس پی کے پیٹرن پر امیدوار پورا اترنے میں کامیاب نہیں ہوئے جس سے بلوچستان کا نظام تعلیم ابتری کی جانب گامزن ہے۔

دوسری جانب حکومت وقت کی عدم دلچسپی گلوبل اساتذہ کو مشکلات میں ڈال کر تعلیمی بحران میں مزید اضافہ کر سکتی ہے۔ حکومت وقت کو اس پر سوچنا چاہیے کہ اس بحرانی کیفیت سے ایک لاکھ بچوں کی تعلیم کا سلسلہ متاثر ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments