جامعہ پنجاب میں کشمیر اور ابلاغیات پر ایک نشست


ہر سال 5 فروری کو ہم یوم یکجہتی کشمیر مناتے ہیں۔ اس دن مسئلہ کشمیر کے تناظر میں مختلف تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔ بھارتی افواج کے مظالم اور بربریت کا تذکرہ ہوتا ہے۔ مظلو م کشمیریوں کے حق میں تقاریر ہوتی ہیں۔ بیانات اور پیغامات جاری کیے جاتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں مذاکرے اور مباحثے ہوتے ہیں۔ ٹیلی ویژن چینلوں پر خصوصی ٹاک شوز کا اہتمام ہوتا ہے۔ اخبارات میں اداریے اور کالم لکھے جاتے ہیں۔

5 فروری کا دن گزرنے کے بعد ، ہم مسئلہ کشمیر کو یاد تو رکھتے ہیں، مگر وہ گرم جوش سرگرمیاں دیکھنے کو نہیں ملتیں جو یوم کشمیر کے ساتھ مخصوص ہیں۔ یہ صورتحال دیکھ کر اکثرخیال آتا ہے کہ کیا ہی اچھا ہو کہ مسئلہ کشمیر کے ضمن میں ہونے والی سرگرمیاں سارا سال جاری رہیں۔ تاکہ یہ معاملہ ہم پاکستانیوں، خاص طور پر نوجوان نسل کے ذہنوں میں تازہ رہے۔

چند روز قبل جامعہ پنجاب کے ادارہ علوم ابلاغیات کے زیر اہتمام مسئلہ کشمیر پر ایک نشست منعقد ہوئی۔ ( ادارۂ علوم ابلاغیات کو اپ گریڈ کر کے اسکول کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ انفارمیشن اینڈ میڈیا اسٹڈیز کے نام سے باقاعدہ ایک فیکلٹی کی منظوری دی گئی ہے۔ اس کا تفصیلی ذکر پھر سہی) ۔ اس ادارے میں استاد محترم پروفیسر مغیث الدین شیخ مرحوم باقاعدگی سے سقوط ڈھاکہ اور یوم یکجہتی کشمیر پر تقریبات کا اہتمام کیا کرتے تھے۔

ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد رفتہ رفتہ یہ روایت معدوم ہوتی چلی گئی۔ اس مرتبہ یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ جامعہ پنجاب نے مسئلہ کشمیر کا تذکرہ فقط 5 فروری تک محدود نہیں رکھا۔ بلکہ فروری کے پورے مہینے میں کشمیر کے حوالے سے مختلف سرگرمیاں ہوتی رہیں۔ جامعہ پنجاب نے الحمراء آرٹس کونسل کے تعاون سے باقاعدہ تین دن مسئلہ کشمیر کے لئے مخصوص کیے ۔ تصویری نمائش، تقاریر اور مذاکروں کے ذریعے بھارتی مظالم اور نہتے کشمیریوں کی بے بسی کو اجاگر کیا۔

جامعہ میں ڈاکٹر عابدہ اعجاز کی سربراہی میں قائم ہیومن رائٹس چیئر کے زیر اہتمام ایک عمدہ ویب سیمینار کا انتظام کیا گیا، جس میں نہایت پر مغز گفتگو ہوئی۔ کشمیر پر دستاویزی فلم اور ڈرامے بنائے گئے۔ جامعہ کے ایک پروفیسر سے میں نے عرض کیا کہ پنجاب یونیورسٹی میں تواتر سے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سرگرمیاں دیکھ کر بہت اچھا لگ رہا ہے۔ کہنے لگے کہ مسئلہ کشمیر وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز اختر کے دل کے بہت قریب ہے۔ وہ ان سرگرمیوں کے انعقاد میں ذاتی دلچسپی رکھتے ہیں۔ کشمیر پر ہونے والا یہ سیمینار بھی اس سلسلے کی ایک کڑی تھا۔

آزاد جموں و کشمیر کے صدر، سردارمسعود خان اس تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔ سردار صاحب نہایت منجھے ہوئے سفارت کار ہیں۔ آپ بہت اچھے سپیکر ہیں۔ انگریزی اور اردو زبان میں نہایت روانی اور عمدگی سے گفتگو کرتے ہیں۔ مجھے کئی بار بطور صدر ان کا ٹی وی انٹرویو کرنے کا موقع ملا۔ اندازہ ہوا کہ مسئلہ کشمیر سے وہ نہ صرف بخوبی آگاہ ہیں، بلکہ اس مسئلے کو اجاگر کرنے کے لئے عملی طور پر متحرک بھی رہتے ہیں۔ آزاد کشمیر کا صدر بننے کے بعد انہوں نے دنیا کے اہم ممالک کے دورے کیے ۔ ان ممالک کی با اثر سرکاری وغیر سرکاری تنظیموں اور شخصیات کے ساتھ مباحثے کیے ۔ ان کے سامنے نہتے کشمیریوں کا مقدمہ پیش کیا۔ کورونا کے ہنگام بھی صدر صاحب نے آن لائن ملاقاتوں اور مباحثوں کا سلسلہ جاری رکھا۔

جامعہ پنجاب میں ہونے والے کشمیر سیمینار کے لئے وہ آزاد کشمیر سے خصوصی طور پر تشریف لائے تھے۔ حاضرین میڈیا اور ابلاغیات کے طالب علموں پر مشتمل تھے۔ سردار صاحب نے مسئلہ کشمیر اور میڈیا کے حوالے سے خصوصی گفتگو کی۔ نوجوانوں کو مسئلہ کشمیر کی اہمیت سے آگاہ کیا۔ بتایا کہ کس مشقت سے قائداعظم نے پاکستان حاصل کیا تھا۔ بصورت دیگر آج ہم بھی بھارتی مظالم کا نشانہ بن رہے ہوتے۔ انہوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والی کشمیری رہنما آسیہ اندرابی کا ذکر کیا۔

اس ساٹھ سالہ خاتون کا جرم فقط یہ کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے۔ اس نعرے پر اسے غدار قرار دے دیا گیا۔ بزرگ حریت رہنما سید علی گیلانی کا تذکرہ کیا۔ جو بلٹ اور پیلٹ کے سامنے سینہ تان کر پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں۔ کشمیری رہنما شبیر شاہ کا ذکر کیا جنہوں نے تحریک آزادی کشمیر کے لئے تقریباً تیس برس جیل کاٹی۔ صدر صاحب نے نوجوانوں کو نصیحت کی کہ انہیں مظلوم کشمیریوں پر بیتنے والے ان مظالم کا ادراک ہونا چاہیے۔ کہا کہ پاکستان کی ترقی اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے خاص طور پر پڑھے لکھے نوجوانوں کو اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔

جامعہ پنجاب کے وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز اختر نے اپنی گفتگو میں یہ پیغام دیا کہ نئی نسل سے ہم سب کو بہت امیدیں ہیں۔ طالب علموں کو نصیحت کی کہ آج کا دور میڈیا اور خاص طور پر ڈیجیٹل میڈیا کا ہے۔ کہنے لگے کہ میڈیا اور ابلاغیات کے طالب علموں کو خصوصی کردار اپنانا چاہیے۔ میڈیا کے توسط سے کشمیریوں کی آواز دنیا تک پہنچانا آپ نوجوانوں کا فرض ہے۔ فرمایا کہ یہ جو ہم پاکستان میں بیٹھ کر مسئلہ کشمیر کا معاملہ زیر بحث لاتے ہیں۔

یہ آواز دنیا تک پہنچتی ہے۔ کشمیری ہماری اس کاوش سے خوش ہوتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کے حق میں آواز اٹھانا ہمارا قومی، اخلاقی اورسفارتی فریضہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارا دینی فریضہ بھی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ کشمیر میں فقط انسانی حقوق کی پامالی نہیں ہو رہی، بلکہ باقاعدہ ریاستی دہشت گردی کا ارتکاب ہو رہا ہے۔ اعلان کیا کہ آئندہ جامعہ پنجاب میں ہونے والی ہر تقریب میں ہم کشمیری عوام پر ہونے والے مظالم کو بھار ت کی ”ریاستی دہشت گردی“ کے عنوان سے زیر بحث لائیں گے۔

جامعہ پنجاب کے پرو وائس چانسلر ڈاکٹر سلیم مظہر نے اپنی تقریر میں بھارتی مظالم اور اقوام عالم کی بے حسی کا ذکر کیا۔ کہا کہ یوں تو آج کی دنیا حقوق کے معاملے میں بہت حساس ہے۔ جنگی قیدیوں تک کو حقوق حاصل ہیں۔ جانوروں کے حقوق کے لئے بھی تحریکیں چلتی ہیں۔ مگر کشمیریوں کے حقوق کی پامالی پر دنیا نے جان بوجھ کر آنکھیں موند رکھی ہیں۔ طالب علموں کو نصیحت کی کہ آپ میڈیا سے وابستہ ہیں۔ اپنی زبان اور قلم سے اس ظلم کے خلاف احتجاج کریں۔

پروفیسر ڈاکٹر عنبرین نے اپنی گفتگو میں کشمیریوں کی پاکستان سے محبت کا ایک واقعہ بیان کیا۔ بتایا کہ وہ بھارت میں ایک کانفرنس میں تھیں۔ وہاں زیر تعلیم کشمیری نوجوان بطور خاص انہیں آ کر ملے۔ پاکستان سے اظہار محبت کرتے رہے۔ انہوں نے بتایا کہ جب پاکستان بھارت کرکٹ میچ ہوتا ہے۔ ہمارے علاقوں میں بھارتی افواج کو تعینات کر دیا جاتا ہے۔ جب پاکستانی کرکٹرز چھکا چوکا لگاتے ہیں تو ہر گھر سے پاکستان زندہ باد کے نعرے بلند ہوتے ہیں۔

سینئیر صحافی مجیب الرحمن شامی نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سیاست دانوں کے مثبت کردار کی اہمیت پر زور دیا۔ فرمایا کہ کشمیر کے معاملے پر ملک میں سیاسی یکجہتی کی فضاء ہونی چاہیے۔ حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں پر لازم ہے کہ جب کشمیر کا معاملہ ہو، اپنے اپنے جماعتی اور سیاسی ختلافات بالائے طاق رکھ کر اکٹھے ہو جائیں۔ معروف کالم نگار اور استاد ڈاکٹر مجاہد منصوری نے زور دیا کہ روایتی سفارت کاری اور روایتی ابلاغ کے بجائے غیر روایتی طریقے اختیار کرنا ہوں گے۔

کہنے لگے کہ یہ ڈیجیٹل میڈیا کا زمانہ ہے۔ ہمیں اس کا استعمال کرنا ہو گا۔ انفو لیب اور ہیومن رائٹس واچ نے حال ہی میں جو رپورٹیں شائع کی ہیں، وہ بھارت کے منہ پر کالک ملنے کو کافی ہیں۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ایسا تمام مواد اکٹھا کریں اور دنیا کے سامنے رکھیں۔ کشمیر کمیشن پاکستان کے چیئرمین رائے نواز کھرل نے مختصر لیکن جامع تقریر کی۔ انتہائی جذباتی انداز میں بھارت کو للکارا۔ کہنے لگے کہ بھارت مذاکرات کی زبان سمجھنے سے قاصر ہے۔ اسے طاقت کی زبان سمجھ آتی ہے۔ سینئر صحافی ظفر سندھو نے پاکستان کے لئے کشمیریوں کی محبت کا تذکرہ کیا۔

ان انتہائی فکر انگیز تقاریر کے ساتھ یہ سیمینار اختتام پذیر ہوا۔ نشست کے دوران طالبعلم ”کشمیر بنے گا پاکستان“ کے پرجوش نعرے بلند کرتے رہے۔ اس مثبت سرگرمی کے انعقاد پر جامعہ پنجاب، اسکول آف کمیونیکیشن سٹیڈیز، ادارے کی ڈائریکٹر اور سٹاف مبارکباد کا مستحق ہے۔ لازم ہے کہ تعلیمی اداروں میں وقتاً فوقتاً ایسی سرگرمیاں ہوتی رہیں تاکہ ہر پڑھے لکھے نوجوان کے دل اور ذہن میں کشمیر کا مسئلہ سارا سال زندہ رہے۔ اس طرح ہم نوجوانوں کو روایتی اور جدید میڈیا کے ذریعے مظلوم کشمیریوں کی آواز دنیا بھر میں پہنچانے کے لئے اپنا کردار ادا کر نے کی طرف راغب کر سکتے ہیں۔

بشکریہ روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments