اے زمانے بتا! کیوں ہوئی خودکشی؟



”میں اپنے حصے کی زندگی گزار چکی ہوں۔ اب وہ مجھ سے آزادی چاہتا ہے تو میں زندہ رہ کر کیا کروں؟ میں اس زندگی سے چھٹکارا چاہتی ہوں یہاں میرے دکھ سننے اوربانٹنے والا کوئی نہیں ہے۔ میں اپنے اللہ کے پاس جا کر اسے اپنا دکھ سنانا چاہتی ہوں۔“

نہیں! آپ غلط سمجھ رہے ہیں۔ میں یہاں احمدآباد (بھارت) کی رہائشی تئیس سالہ زندگی سے بھرپور عائشہ کی بات نہیں کر رہی کہ جس کی خودکشی کرنے سے پہلے کی ویڈیو کل سے سوشل میڈیا میں گردش کر رہی ہے۔ یہ سب باتیں تو ایک سولہ سالہ بچی میرے سامنے سرخ انگارہ آنکھیں لیے مطمئن نظر آنے کی کوشش کرتی کہہ رہی تھی۔ ( زندگی کے ہلکورے لیتی یہ وہی شوخ آنکھیں تھیں، جن میں وہ ڈانٹ کھانے کے باوجود بڑے اہتمام سے کاجل لگایا کرتی تھی ) جو کلاس کی سب سے ذہین طالبہ تھی۔ چلیں ہم اس کا نام بھی ”عائشہ“ ہی فرض کر لیتے ہیں۔

”اس نے مجھے چھوڑ دیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ مجھے تمھاری محبت سے گھٹن ہوتی ہے۔ اس ایک جملے میں کس قدر کاٹ کتنی اذیت ہے۔ اس جملے کی بے آواز گونج ہر لمحہ مجھے سنائی دیتی رہتی ہے، صبح آنکھ کھلنے سے کچھ سیکنڈز پہلے سے لے کر رات دیر گئے نیند کی وادی میں پاؤں دھرنے کے بعد بھی یہ دلخراش گونج میرے کان میں سیسہ پگھلاتی ہوئی آنکھوں کے رستے وقت بے وقت باہر نکلتی رہتی ہے۔ سوچتی ہوں کیا کمی تھی مجھ میں؟ کہ وہ میرا نہ ہو سکا۔

گھٹی گھٹی سسکیاں لیتے جب مجھے کسی بیرونی جملے پر قہقہے لگانے پڑتے ہیں تو دل کا دھواں آنکھوں میں بھر آتا ہے، سانس بھاری ہو جاتی ہے لیکن کمال بات یہ کہ سانسیں رکتی نہیں۔ میں نے ان گنت لمحوں میں شدت سے خواہش کی ہے کہ اب ان سانسوں کو رک جانا چاہیے۔ میرا یہ دکھ مجھے لمحہ لمحہ مار رہا ہے، میں یہ اذیت اور نہیں سہہ سکتی لہذا اب میں اس زندگی کو ختم کرنا چاہتی ہوں۔“

یہ سطریں ایک خودمختار بائیس سالہ لڑکی کے آخری خط کی ہیں۔ سہولت کے لیے ہم اسے بھی ”عائشہ“ ہی کہے لیتے ہیں۔

”میں مرنا چاہتی ہوں! وہ مجھے اور میرے تین بچوں کو چھوڑ کر اپنی محبوبہ سے شادی کر رہا ہے۔ کہتا ہے کہ یہ تعلق اس کے لیے محض ایک بوجھ ہے۔ اسے مجھ سے کوئی خوشی نہیں ملی۔ گزشتہ بارہ سال سے میں اس کے خالی وجود اور خالی گھر کو اپنی بے لوث محبت اور محنت سے بھر رہی ہوں۔ سب کہتے کہ میں خوبصورت ہوں، خوش مزاج ہوں، اعلی تعلیم یافتہ اس کے باوجود میرے شوہر کو مجھ سے محبت نہ ہوئی۔ اسے مجھ سے محبت نہیں، میں اس کے بنا جی کر کیا کروں گی؟“

یہ آخری الفاظ بھی ایک پینتیس سالہ ”عائشہ“ ہی کے ہیں۔

ہمارے ہاں آپ کو محبتوں میں گندھی کتنی ہی ”عائشہ“ ملیں گی۔ جو عشق مجازی میں پڑ کر رل جاتی ہیں۔ محبوب /شوہر کی بے وفائی سے دلبرداشتہ ہو کر کئی لڑکیوں کا حسن قبر کی آگ پربوجھ بن جاتا ہے۔ کہیں سمندر برد ہوجاتا ہے۔ کہیں چھت پر لگے پنکھے سے جھولتا ہے تو کہیں آگ میں جھلستا ہے اور کہیں سربفلک عمارت سے زمین بوس ہوتا ہے۔ خودکشیوں کا یہ سلسلہ جانے کب سے چلا آ رہا ہے اور ہم ہرعائشہ کو ڈوبتا دیکھ کر اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھے انھیں ڈھانپے رکھتے ہیں۔

مگر کب تک؟ کب تک ہم ان آنکھوں کو ڈھانپیں رکھیں گے۔ جب ہم آنکھیں نہیں کھولیں گے تو وہ سب کیسے جان سکیں گے جو ان کی خودکشی کا سبب بنا۔ اور اس طرح تو خاکم بدہن ایسا ہوتا ہی رہے گا جب تک کہ کچھ سوال نہ اٹھائے گئے اور پھر ان کے جواب نہ تلاش کیے گئے۔ تو پہلا سوال یہ ہے کہ زندگی سے بھرپور یہ ”عائشہ“ خودکشیاں کیوں کرتی ہیں؟ اور ہم بحیثیت والدین اپنی بیٹیوں کو خوکشیاں کرنے سے کیسے روکیں؟ کیا ہم خودکشی میں کام آنے والا سامان ختم کر دیں؟

تو آئیں پھر اس دھرتی کے سب دریاؤں، نہروں کا پانی نچوڑ کر وہ ساری آگ بجھا دیں جس کا ایندھن ٹوٹے دلوں والے جسم بنتے ہیں۔ زمین پر بچھائی گئیں ان گنت ریل کی پٹڑیوں کو اکھاڑ ڈالیں۔ دنیا کی تمام خواب آور گولیوں کو خوابوں کی وادیوں میں بہت دور پھینک آئیں۔ ہر قسم کے زہر کو برمودا ٹرائی اینگل میں بہا آئیں۔ جہاں کہیں پر کوئی اونچی عمارت نظر آئے تو اسے ڈھا کر مسمار کر دیں۔ ان ساری رسیوں کو جہنم کی آگ میں جلا آئیں۔

ہر وہ سامان جو خودکشی کے کام آ سکتا ہے ان سب کو ختم کردیں، مسمار کر دیں، مٹا دیں، جلا دیں، چھپادیں۔ لیکن ایک منٹ ذرا ٹھہریں! پریکٹیکلی یہ سب کرنا تو میرے اور آپ کے لیے ممکن ہی نہیں۔ اور پھر اتنا کشٹ کرنے کی ضرورت بھی نہیں۔ اس سے بہتر اور پریکٹیکل یہ ہے کہ ہم وہ رویے، وہ لہجے، وہ ہر اک سبب جن سے ان کا معصوم دل اپنی موت آپ مرنے لگا ہے بس ان کو مٹائیں۔

ہمارا معاشرہ عجب ہے کہ یہاں افسوس کرنے والے کسی موت پر، سامان چوری ہونے، لٹنے پر، مکان گرنے، اور خوراک بہہ جانے پر شدید دکھ کا اظہار کرتے ہیں۔ مگر ان خوابوں کے بارے میں کوئی بھی پرسہ نہیں جو اجڑ جاتے ہیں۔ جو ان خودکشیوں کی وجہ بنتے ہیں۔ وہی خواب جو ”شادی اور محبت“ کی صورت میں ان بیٹیوں کے والدین ننھی سی عمر میں ہی ان کی آنکھوں کی پتلیوں میں اگاتے ہیں۔ جنھیں سنہری امیدوں کے پانی سے سینچا جاتا ہے۔ آپ کہیں گے کیسے؟

جب ہم اپنی بیٹیوں کو بات بات پر کہتے کہ ”اوں ہوں! یوں نہیں بیٹھو، یوں نہ ہنسو کل کو تیری شادی ہونی ہے“ ۔ تو کیا ہم انھیں ہم خود ہی ان پگڈنڈیوں پر نہیں اتارتے ہیں؟ جی ضرور! اپنی بچیوں کو بتائیں کہ تیری شادی ہونی ہے، ویاہ ہونا ہے۔ یہ بات سچ ہے، مگر بیٹیوں کی زندگی کرنے کا صرف یہی مقصد تو نہیں ناں۔ پھر ہمارا معاشرہ، میڈیا سب اس خودکشی کے اسباب بننے میں شریک ہے۔ ٹی وی کھول کر صبح سے رات تک بیٹھ جائیں۔

مارننگ شوز کی ہوسٹس ہر روز واحد کام یعنی شادیاں کرواتی نظر آئیں گی۔ ہر داستان، کہانی، ناول ڈرامہ، ڈیلی سوپ یہاں تک کہ اشتہارات میں ”کوئی انوکھی لازوال، اخیر قسم کی محبت اور شادی“ کے علاوہ آپ کو کوئی اورموضوع نہ نظر آئے گا۔ آئیں ایک صحت مندانہ رویہ اپنائیں کہ محبت اور شادی زندگی کا حصہ تو ہیں مگر زندگی ہرگز نہیں ہیں۔ بیٹیوں کو مضبوط اور پراعتماد بنائیں ان کو بتائیں کہ ”

Love is not art of life ,but a part of life ”

والدین اپنے بیٹیوں کو باور کروائیں کہ محبت ایک فطری جذبہ ہے اور تمھیں یہ ہو گی۔ اپنے لیے اسے ماورائی جذبہ مت بنانا۔ جیسے بھوک اور پیاس لگتی ہے، نیند آتی ہے ویسے ہی محبت بھی انسانی جبلت ہے۔ اس کی بے جا نفی کر کے، اظہار نہ کر کے، خود کو روک کر ہم اسے مزید پیچیدہ کرتے جاتے ہیں۔ اپنے بچوں سے کہیں کہ بچو! ایزی رہیں۔

اپنی بیٹیوں کو ضرور سمجھائیں کہ اگرتمہارے لئے محبت اس ایک منڈے کا نام ہے تو پھر یقین کرلو ہر مرد ہی محبت ہے۔ اور اگر تم خود محبت ہو تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ سامنے کون ہے۔

انھیں بتائیں کہ اس کائنات کا نظام محبت سے نہیں توازن سے قائم ہے۔ یہی توازن رشتوں میں، جذبات میں بھی ہونا چاہیے۔ اگر برابری کی سطح پر محبت نہیں مل رہی تو یہ غیرمتوازن رشتہ تمھیں تھکانے اور نڈھال کرنے کے علاوہ کچھ نہ دے سکے گا۔ ہاں انیس بیس کا فرق ہو تو ٹھیک ہے مگر اگر اس وزنی محبت کے بار کو اپنے تنہا ناتواں وجود سے ہی ڈھونا ہے تو میری بیٹی اسے اتار پھینکنا۔ میں تمھارے ساتھ ہوں۔

اپنی بیٹیوں کو بتائیں کہ محبت کو کسی ”مخصوص شکل“ کی بجائے ایک جذبے کی شکل میں دیکھیں تو خودکشی کرنے کی نوبت نہیں آئے گی۔ ضروری نہیں کہ سامنے والا بندہ باوفا ہو، پر یہ طے ہے کہ وہ بندہ آخری بندہ نہیں ہے۔ ہم ساری زندگی محبت کرتے ہیں۔ تم بھی محبت کرنا مگر اس محبت کو یہ اجازت قطعاً نہ دینا کہ وہ تمھیں ہی خرچ کر ڈالے۔ اگر پہلے اس سے گھنٹوں بات ہوتی تھی اور اب وہ کال یا میسیج نہیں کرتا تو ڈپریشن میں جانے کی بجائے اپنا فون بند کر کے سو جاؤ یا پھروہ کام کرو جوتمھیں کرنا اچھا لگتا۔ کوئی بھی شخص بھلے محبوب ہی ہو وہ تمھاری زندگی کا ثانوی کردار ہے۔ میری بیٹیو واحد مرکزی کردار صرف تم ہی ہو۔

اپنی بیٹیوں کو یہ کہیں کہ میری بیٹیو! دل ٹوٹنے پر، محبت روٹھنے پر چھپ کر رو لو، ہمارے گلے لگ کر بے تحاشا رو لو۔ مگر خود کشی تو نہ کرنا یارو! اور یاد رکھنا کہ اس کے چھوڑ جانے پر چلے جانے پر جس قدر رو چکی ہو گی اتنے آنسو کافی ہوں گے۔ کیونکہ اتنے ہی آنسو کسی بھی عزیز ہستی کی ناگہانی موت کی اذیت سہنے کو بہانے کے لیے بھی کافی ہوتے ہیں۔ میری ”عائشہ“ ! تو وہ بھاری پتھر جو آپ اور آپ کی خوشیوں کے درمیان اس بے وفا شخص کی محبت کی صورت میں آ گیا تھا اس بھاری پتھر کو بہانے کے لیے اتنا سیلاب بہت تھا۔

میرا ایک سوال اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے کا سوچتی ہر اپنی سہیلی اور بہن یا بیٹی سے بھی ہے۔ ”کیا تم نے کسی سے اتنا پیار کیا ہے کہ اس کے لیے کچھ بھی، کچھ بھی کر سکتی ہو؟ یہاں تک کہ مر بھی سکتی ہو؟“ اگر تمھارا جواب ”ہاں“ میں ہے۔ تو آئینے کے سامنے جا کر کھڑی ہو جاؤ اور اس شخص کی بجائے اس پیاری لڑکی کو اپنا محبوب مانو اور جو کچھ بھی ”اس“ کے لیے کر سکتی تھی وہ سب اپنے لیے کرو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments