کورونا وائرس: انڈیا میں کووڈ کے علاج کی ’دوائی‘ کے گمراہ کن دعوے


کورونل

کورونل کی انڈیا کے باہر بھی فروحت ہو رہی ہے جس میں برطانیہ بھی شامل ہے

انڈیا میں ایک بار پھر جڑی بوٹیوں کے متنازعہ مرکب کی خبریں آرہی ہیں کہ یہ کورونا وائرس کے خلاف بہت مؤثر ہے۔

اس مرکب کو جسے کورونل کہا جا رہا ہے، حال ہی میں ایک تقریب میں لانچ کیا گیا تھا، جس میں انڈین حکومت کے کچھ وزرا نے بھی شرکت کی تھی۔

لیکن اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ یہ ’دوا‘ کام کرتی ہے اور اس کے استعمال کی منظوری کے بارے میں بھی گمراہ کن دعوے کیے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

بابا رام دیو کی تیار کردہ کورونا کی دوا پر وزیر صحت سے جواب طلب

کورونا وائرس: ڈیکسامیتھازون زندگی بچانے والی پہلی دوا ثابت ہوگئی

’کورونیل‘: یوگا گُرو رام دیو کی کمپنی کی ’کورونا دوا‘ کی حقیقت

ہم مرکب کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟

یہ جڑی بوٹیوں کا ایک مرکب ہے جو روایتی انڈین ادویات میں استعمال ہوتا ہے اور اسے انڈیا کی ایک بڑی کمپنی ’پتنجلی‘، کورونل کے نام سے فروخت کر رہی ہے۔

یہ ’دوا‘ پہلی مرتبہ گذشتہ سال جون میں سامنے آئی تھی اور اس کی تشہیر مشہور یوگا گرو بابا رام دیو نے کی تھی۔ انھوں نے اسے بغیر کسی بنیاد کے کووڈ 19 کے ’علاج‘ کے طور پر پیش کیا تھا۔

لیکن بعد میں انڈیا کی حکومت کو مداخلت کر کے اس کی مارکیٹنگ روکنا پڑی۔ حکومت کا کہنا تھا کہ ایسا کوئی ڈیٹا نہیں جو یہ ثابت کرے کہ اس سے کورونا وائرس کا علاج ہو سکتا ہے۔

تاہم حکومت نے اس کی فروخت کی منظوری بطور ایک ’امیونٹی بوسٹر‘ کے دے دی تھی۔

وزیرِ صحت ہرش وردھن بابا رام دیو کے ہمراہ ایک نیوز کانفرنس میں

وزیرِ صحت ہرش وردھن بابا رام دیو کے ہمراہ ایک نیوز کانفرنس میں

اس سال 19 فروری کو کمپنی نے ایک اور پروگرام منعقد کیا تھا جس میں وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن بھی موجود تھے۔ اس پروگرام میں یہ دعوے پھر دہرائے گئے کہ یہ کووڈ 19 کو روک سکتی اور اس کا علاج کر سکتی ہے۔

انڈیا کے ڈاکٹروں کی سب سے بڑی تنظیم ’دی انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن‘ نے ڈاکٹر وردھن کی تقریب میں موجودگی پر تنقید کی تھی۔

انھوں نے وزیر صحت کی موجودگی میں ایک ’غیر سائنسی دوا‘ کی تشہیر کو ’انڈیا کے لوگوں کی توہین‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وزیر کو یہ واضح کرنا چاھیے کہ کیا انھوں نے اس دوا کی حمایت کووڈ 19 کے علاج کی حیثیت سے کی ہے۔

بی بی سی نے اس تقریب میں ڈاکٹر وردھن کی موجودگی کے بارے میں پوچھنے کے لیے وزارت صحت سے رابطہ کیا لیکن اس مضمون کی اشاعت تک ہمیں ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا تھا۔

پتنجلی کمپنی نے وزیر کی موجودگی کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’انھوں نے آیورودا (روایتی انڈین دوا) کی توثیق کی اور نہ ماڈرن دوا کی اہمیت کو کم کیا۔‘

کورونل کے متعلق کیا دعوے کیے گئے ہیں؟

کمپنی کا اس بات پر اصرار جاری ہے کہ اس کی ’دوا‘ کووڈ 19 کے خلاف کام کرتی ہے۔ پتنجلی کے مینیجنگ ڈائریکٹر اچاریا بال کرشنا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس نے لوگوں کا علاج کیا ہے اور انھیں بہتر کیا ہے۔‘

کمپنی نے ہمیں سائنسی تجربات کا حوالہ دیا جن کے نتائج بقول کمپنی کے، کئی جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔

اس نے خاص طور پر نومبر 2020 میں سوئزرلینڈ کے ایک جریدے ایم ڈی پی آئی میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے بارے میں بتایا جو کہ لیبارٹری ٹرائل پر مبنی تھی۔

انڈیا

انڈیا میں دنیا میں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ کورونا وائرس کے کیسز ہیں

تاہم یہ تحقیق مچھلیوں پر کی گئی تھی اور اس میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا تھا کہ ایسی کوئی شہادت موجود ہے کہ کورونل انسانوں میں کورونا وائرس کا علاج کر سکتی ہے۔

اس میں صرف اتنا کہا گیا تھا کہ موجودہ پری کلینیکل مطالعے سے حاصل کردہ نتائج سے یہ سامنے آتا ہے کہ انسانوں میں بھی اس کے تفصیلی کلینیکل ٹرائلز ہونے چاہیے۔

برطانیہ میں ساؤتھیمپٹن ​​یونیورسٹی میں عالمی صحت کے ماہر ڈاکٹر مائیکل ہیڈ نے بی بی سی کو بتایا کہ لیب میں پری کلینیکل ٹرائلز کرنے اور پھر انسانوں پر کام کرنے والی کسی چیز کی باقاعدہ منظوری حاصل کرنے میں بہت فرق ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’بہت سی دوائیں لیبارٹری میں ممکنہ طور پر کچھ امید دکھاتی ہیں لیکن جب ان کا استعمال انسانوں پر کیا جاتا ہے تو وہ مختلف وجوہات کی بنا پر کام نہیں کرتیں۔‘

یہ انسانی ٹرائل گذشتہ سال مئی اور جون کے درمیانی عرصے میں ان 95 مریضوں پر کیا گیا تھا جن میں کورونا وائرس مثبت آیا تھا۔

پتنجلی کمپنی نے کہا کہ ٹرائل کے نتائج سائنس ڈائریکٹ نامی جرنل کے اپریل 2021 کے ایڈیشن میں شائع ہوئے تھے۔

اس نے کہا کہ ان لوگوں میں جنھیں کورونل دی گئی، بحالی کی شرح ان سے بہت زیادہ تھی جنھیں کورونل نہیں دی گئی تھی تاہم یہ ایک پائلٹ سٹڈی تھی جس کے سیمپل کا سائز بہت چھوٹا تھا۔

اس پائلٹ سٹڈی سے پختہ نتائج اخذ کرنا مشکل ہو سکتا ہے کیونکہ بحالی کی شرح میں فرق دوسرے عوامل کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے۔

کیا کورونل کو سرکاری منظوری ملی ہے؟

دسمبر 2020 میں پتنجلی کمپنی نے، جو کہ اتراکھنڈ میں مقیم ہے، ریاستی حکام سے کہا کہ وہ کورونل کا موجودہ لائسنس ’امیونٹی بوسٹر‘ سے تبدیل کر کے ’کووڈ 19 کی دوا‘ کے طور پر کر دیں۔

اس کے بعد رواں سال جنوری میں کمپنی نے کہا تھا کہ ان کی پروڈکٹ کو کووڈ کے خلاف کام کرنے والے ایک ’معاون اقدام‘ کے طور پر منظوری مل گئی ہے۔

مصالحے

روایتی ادویات میں کئی جڑی بوٹیوں اور مصالوں کو استعمال کیا جاتا ہے

روایتی ادویات کی انڈین وزارت (جسے آیوش کے نام سے جانا جاتا ہے) اور اتراکھنڈ کے ریاستی حکام نے بی بی سی کو بتایا کہ نیا لائسنس ضرور جاری کیا گیا ہے لیکن دونوں نے واضح کیا کہ یہ کووڈ کے ’علاج‘ کے لیے نہیں ہے۔

اترا کھنڈ کی روایتی ادویات کے محکمے کے ڈائریکٹر اور ریاستی لائسنسنگ اتھارٹی کے ڈاکٹر وائی ایس راوت کہتے ہیں کہ ’اپ گریڈ کیے گئے لائسنس کا مطلب یہ ہے کہ اسے زنک، وٹامن سی، ملٹی وٹامنز یا کسی بھی اور سپلیمینٹل دوا کی طرح فروخت کیا جا سکتا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ (کورونل) علاج نہیں ہے۔‘

کمپنی نے اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ اس کے پاس ایک اچھی مینوفیکچرنگ پریکٹس (جی ایم پی) کی سند بھی ہے، جو بقول اس کے عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی سرٹیفیکیشن کی سکیموں کے مطابق ہے۔

کمپنی کے ایک سینیئر ایگزیکٹیو راکیش متل نے ایک ٹویٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا کہ کورونل کو ڈبلیو ایچ او نے تسلیم کر لیا ہے لیکن بعد میں انھوں نے اس بیان کو ڈیلیٹ کر دیا۔

جی ایم پی سرٹیفیکیشن انڈیا کے ایک اعلی ڈرگ ریگولیٹر کی طرف سے ہے، جو کہ عالمی ادارہ صحت کی تسلیم شدہ سکیم کے تحت ہے اور جس کا مقصد برآمد کے مقاصد کے لیے کی گئی پیداوار کے معیار کو یقینی بنانا ہے۔

اتراکھنڈ کی ریاستی حکومت کے ڈاکٹر راوت نے واضح کیا کہ ’جی ایم پی سرٹیفکیٹ کا کسی دوا کی افادیت سے کوئی لینا دینا نہیں، یہ صرف مینوفیکچرنگ کے وقت چیز کے معیار کو برقرار رکھنے کے لیے ہے۔‘

ڈبلیو ایچ او نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ انھوں نے ’کووڈ 19 کے علاج کے لیے کسی روایتی دوا کی افادیت کی تصدیق نہیں کی ہے۔‘

ساؤتھیمپٹن یونیورسٹی کے ڈاکٹر ہیڈ کہتے ہیں کہ ’ابھی تک اس بات کا کوئی واضح ثبوت نہیں کہ یہ پروڈکٹ کووڈ 19 کے علاج یا اس سے تحفظ کے لیے فائدہ مند ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32552 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp