عورت مارچ سے کیا فرق پڑے گا؟


میں اگر عورت مارچ کی حمایت کرنے کی جسارت کر لوں تو ایک ہجوم میرے پیچھے لٹھ لے کر دوڑنے لگے گا۔

عورت مارچ کئی طرح کے بینر ہاتھوں میں لئے کھڑی خواتین اپنے حقوق مانگ رہی ہیں۔ کیا حقوق ایسے مانگنے پہ ملتے ہیں؟

ہر طبقے کے گلی محلہ میں کئی ایسے گھر ہوں گے جہاں عورت پر تشدد ہوتا ہے۔ گھریلو کاموں اور بچوں میں عورت کو مشغول کر دیا جاتا ہے۔ گھر کی بچیاں باپ کی اونچی آواز پہ سہم جاتی ہیں۔ کچھ ہاتھ چھوڑ مرد تو آسرا نہیں کرتے اور بچیوں کی ذرا سی غلطی پہ الٹے ہاتھ کا جڑ دیتے ہیں۔

بہت ہی کم خاندان ایسے ہوں گے جہاں بچیوں کو تعلیم کے علاوہ بھی کسی سرگرمی میں شرکت کی اجازت ہو گی۔

کچھ باہر کا ماحول اور کچھ مالی حالات بچیوں کو بچپن سے ہی اپنی خواہشات کا گلا گھونٹنا سکھا دیتے ہیں۔ وہ تعلیم حاصل کر لیتی ہیں لیکن کسی کھیل کود میں کبھی آگے نہیں بڑھ پاتیں۔

ہمارے معاشرے کا حسن ہے کہ مرد کی سربراہی ہو لیکن بعض اوقات مرد اتنے کٹھور بن جاتے ہیں کہ گھر کی بچیوں کا ہار سنگھار بھی انہیں برا لگتا ہے۔ کپڑے لتے کی تو ایسی پابندی لگا رکھی ہوتی ہے کہ بے چاری بچیاں ٹی وی اور رسالے دیکھ دیکھ کر ارمان سجاتی ہیں کہ اپنے گھر میں جا کر یہ فیشن کریں گے۔

شومئی قسمت کہ اپنے گھر جاتے ہی وہ گھریلو زندگی میں ایسی مشغول ہوتی ہیں کہ جوانی کے سپنے سپنے ہی رہ جاتے ہیں۔

عورت مارچ ایسی بچیوں کے لئے کچھ نہیں کر پاتا بلکہ ایک خاموش جنگ چھڑوا دیتا ہے جہاں کئی مقام پر عورت سوچتی ہے کہ مجھے اپنے حق کے لئے آواز اٹھانی چاہیے لیکن اپنے خاندان کی عزت کا سوچ کر چپ رہتی ہے۔

مرد حضرات اس طرح کے مارچ جس میں بے جا نعرے لئے خواتین اپنا حق مانگتی نظر آتی ہیں، کے سخت خلاف ہوتے ہیں۔ وہ شاید اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کرنے لگتے ہیں۔

اس مَردوں کے معاشرے میں عورت مارچ سے قطع نظر کیا مرد اپنے آس پاس موجود ایسی خواتین جو مرد کے ظلم و ستم کا شکار ہو رہی ہیں ، ان کے لئے آواز اٹھاتا ہے؟

کیا کسی عورت کے ساتھ جنسی ہراسانی کے علاوہ ہونے والے مظالم مرد کو اپنی طرف راغب کرتے ہیں؟

اسی معاشرے میں بہت سی ایسی عورتیں ہیں،  جو مرد کی بے روزگاری یا اپاہج ہونے کے باعث گھر سے باہر نکل کر کمانے پر مجبور ہیں۔ اس وقت معاشرہ اس عورت کو تر نوالہ سمجھنے لگتا ہے۔

کہیں کہیں مرد ایسے حالات پیدا کرتا ہے کہ چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال ہو جائے۔ ایسا کرنا بہت آسان ہے ، آپ کسی بھی ہنستے بستے گھر کے مرد کو کسی انتقام کی نذر کر دیں ، کسی جھوٹے کیس میں اندر کروا دیں اور پھر اس گھر کی عورتوں کا تماشا دیکھیں۔ کیونکہ کمانے والا جب نہ ہو تو عورت ہی کو گھرہستی چلانے کے لئے ہاتھ پاؤں چلانا پڑتے ہیں۔

ایک طرف اگر چولہا چکی کی فکر رہتی ہے تو دوسری طرف وکیل ، عدالت ، تھانہ ، کچہری بھگتنے کے لئے اسے اپنی دہلیز سے قدم باہر نکالنا پڑتا ہے۔ ایسے میں اس عورت کے حقوق کچھ الگ نوعیت کے ہوتے ہیں لیکن وہ بھی عورت ہے ، اس معاشرے کا مرد اپنی انا کے آگے نہیں سوچتا، اسے اگر نظر آتا ہے تو صرف عورت مارچ۔

جب بھی مرد عورت کی بات ہوتی ہے پہلا دھیان میاں بیوی کی جانب جاتا ہے لیکن میں یہاں ان دو ناموں کے علاوہ جو دنیا میں مرد کے کردار ہیں ، ان کی بات کر رہی ہوں۔ عورت پہ ظلم ہمیشہ شوہر نہیں کرتا۔ کہیں باپ ، بھائی اور بیٹا یا پھر معاشرے کے صاحب اقتدار و طاقت ور مرد اس کا سبب بنتے ہیں۔

سال میں کتنے ہی دن عورت مارچ کے لئے رکھ لیے جائیں ، ان کا کوئی فائدہ نہیں ہونے والا جب تک کہ اس معاشرے کے گھٹن زدہ ماحول میں خود مرد باہر نہیں آ جاتا  اور معاشرے کی ان بے انصافیوں اور حق تلفیوں کے خلاف آواز نہیں اٹھاتا۔

کہتے ہیں لوہا لوہے کو کاٹتا ہے۔ یقیناً اس معاشرے میں ناسور بنی برائیوں کی وہ جڑیں جو زیادہ تر مرد نے پھیلا رکھی ہیں ، انہیں یہ مرد ہی کاٹیں گے تو نکھار آئے گا ، ورنہ مناتے رہیے عورت کا دن اور کرتے رہیے عورت مارچ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments