بامیان: ملا عمر کو بدھا کے مجسموں سے کیا اختلاف تھا اور ان کی مسماری روکنے کے لیے پاکستان نے کیا کردار ادا کیا؟


 

بامیان

کیا افغانستان کے مسلمان حکمران محمود غزنوی، احمد شاہ ابدالی اور شہاب الدین غوری نے بامیان میں بدھ مت مذہب کے بانی گوتم بدھ کے مجسموں کو اس لیے مسمار نہیں کیا کیونکہ ان کے پاس دھماکہ خیز مواد (ڈائنا مائٹ) نہیں تھا؟

افغانستان میں طالبان حکومت کے سربراہ ملا عمر کی یہی رائے تھی کہ یہ مجسمے کافی مضبوط ہیں اور انھیں ڈائنا مائٹ کے بغیر مسمار نہیں کیا جاسکتا تھا، اسی لیے ماضی کے ان مسلمان حکمرانوں نے انھیں بخش دیا تھا۔

افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر سید ابرار حسین نے اپنے تجربات، مشاہدات اور ملاقاتوں پر مشتمل کتاب ’ملا عمر سے اشرف غنی تک‘ میں ملا عمر سے اپنی ملاقات اور اِن خیالات کا ذکر کیا ہے۔

واضح رہے کہ 20 سال قبل مارچ 2001 میں طالبان نے بامیان میں واقع دنیا کے سب سے بلند ترین گوتم بدھ کے مجسموں کو بارود سے اڑا دیا تھا۔

بامیان کے مجسموں کو مسمار کرنے کا سلسلہ 2 مارچ 2001 سے شروع ہوا اور کئی ہفتے تک جاری رہا۔ پہلے ان پر طیارہ شکن بندوق، یعنی اینٹی ایئر کرافٹ گن سے فائر کیے گئے، پھر ان پر ٹینک کے گولے داغے گئے۔

طالبان کے وزیر اطلاعات قدرت اللہ جمال کا کہنا تھا کہ یہ کام اتنا آسان نہیں، ان مجسموں کو صرف گولا باری سے نہیں گرایا جایا سکتا تھا۔

بامیان

افغانستان میں طالبان حکومت کے سربراہ ملا عمر سمجھتے تھے کہ یہ مجسمے کافی مضبوط ہیں اور انھیں دھماکہ خیز کے بغیر مسمار نہیں کیا جاسکتا
بامیان

مارچ 2001 میں اب ان مجسموں کو گرانے کا کام شروع ہوا تو پہلے ان پر طیارہ شکن بندوق، یعنی اینٹی ایئر کرافٹ گن سے فائر کیے گئے، پھر ان پر ٹینک کے گولے داغے گئے

اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ چٹان سے جڑے ہوئے تھے اور طالبان کو ان کے نچلے حصے میں اینٹی ٹینک سرنگھیں رکھ کر انھیں کمزور کرنا پڑا، جس کے بعد اس پر توپیں چلائی گئیں۔

پھر مجسمے کے چہرے میں سوراخ کر کے اس میں بارود بھر دیا گیا۔

بعض اطلاعات کے مطابق طالبان نے بامیان کے رہنے والوں کو قید کر کے انھیں ان مجسموں تک بارود پہنچانے کا کام کرنے پر مجبور کیا گیا۔

ملا عمر کا اعلان اور پاکستان کی کوششیں

افغانستان میں طالبان حکومت کے امیر ملا عمر نے فروری 2001 میں گوتم بدھ کے مجسموں کو مسمار کرنے کا اعلان کیا تھا۔ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے والے پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت او آئی سی کی تمام اراکین نے اس اعلان کی مذمت کی اور پاکستان نے اس حوالے سے طالبان سے مذاکرات بھی کیے۔

افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر سید ابرار حسین اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ 2001 کا موسم بہار تھا اور پاکستان میں جنرل مشرف کی حکومت کو آئے ہوئے ڈیڑہ سال بھی پورا نہیں ہوا تھا۔ طالبان نے بامیان میں گوتم بدھ کے مجمسے توڑنے کا اعلان کیا تھا اور بین الاقوامی طور پر یہ مسئلہ کافی اہمیت اختیار کر گیا تھا۔

قندھار میں وفاقی وزیر داخلہ معین الدین حیدر اور ملا عمر کی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے وہ مزید لکھتے ہیں کہ معین الدین حیدر نے ملا عمر کو اسلامی تاریخ کے حوالوں کے ساتھ کہا کہ سلطان محمود غزنوی جیسے بت شکن بادشاہ نے بھی بامیان کے مجسموں کو چھوڑ دیا۔ اسی طرح غوری، ابدالی وغیرہ نے بھی ان مجسموں کو کچھ نہ کہا۔ تو یقینا کوئی نہ کوئی حکمت عملی تھی جس نے 1400 سال تک مسلمان حکمرانوں کو بامیان کے مجسمے توڑنے سے باز رکھا۔

ملا عمر

ملا عمر کے مطابق اگرچہ افغانستان میں بودھ مذہب کے ماننے والوں کی تعداد میں بہت کم تھی مگر انھیں یہ ڈر تھا کہ مستقبل میں ان میں سے کچھ لوگ بتوں کی پرستش شروع کر دیں گے

مصنف کے مطابق ملا عمر نے معین الدین حیدر کو جواب دیا کہ محمود غزنوی یا دوسرے مسلمان حکمرانوں کے ان مجسموں کو مسمار نہ کرنے کی کوئی خاص وجہ نہیں سوائے اس کہ یہ بہت مضبوط ہیں اور انھیں ڈائنا مائٹ کے بغیر زمین بوس کرنا مشکل ہوتا۔

معین الدین حیدر ملا عمر کو راضی نہ کر سکے

معین الدین حیدر نے ملا عمر کو بین الاقوامی دباؤ سے آگاہ کیا اور کہا کہ طالبان کے حالیہ فتویٰ سے مسلم ملکوں سمیت بہت سی اقوام کا رد عمل سامنے آیا ہے اور سب کا یہ خیال ہے کہ موجودہ وقت میں ایسا فتویٰ آنا نہیں چاہیے تھا۔ ایسے وقت میں جب اسلامی امارات (طالبان حکومت) کو دوسرے ممالک کی اشد ضرورت ہے ایسا اقدام مناسب نہیں تھا۔

انھوں نے کہا کہ بدھا کے مجسمے توڑنے کا فیصلہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کے اثرات افغانستان تک محدود نہیں رہیں گے اور یہ ساری دنیا کو متاثر کرے گا خاص طور پر جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں۔

واضح رہے کہ دنیا میں کروڑوں بودھ چین، جاپان، سری لنکا، تھائی لینڈ برما اور دوسرے ملکوں میں آباد ہیں۔

سید ابرار حسین لکھتے ہیں کہ معین الدین حیدر نے ملا عمر کو یہ بھی بتایا کہ یونیسکو کی تجویز ہے کہ وہ ان مجسموں کو باہر منتقل کر لیں گے اور بصورت دیگر ان کے سامنے دیوار کھڑی کر دی جائیگی۔ ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرار داد منظور کی ہے کہ ان مجسموں کو توڑنے کا فیصلہ ملتوی کر دیا جائے۔

تاہم ملا عمر نے اپنی مختصر گفتگو میں معین الدین حیدر کو آگاہ کیا کہ مجسمے توڑنے کا فتویٰ قومی سطح کے افغان قاضیوں اور مفتیوں نے دیا ہے اور ایسے فتوے پر نظر ثانی نہیں کی جاتی۔ بودھ مذہب کے ماننے والے افغانستان تعداد میں بہت زیادہ نہیں ہیں مگر یہ امکان ہے کہ مستقبل میں ان میں سے کچھ لوگ بتوں کی پرستش شروع کر دیں گے۔

بامیان

(دائیں) بامیان کے بدھا اپنی اصل حالت میں، اور (بائیں) طالبان کی تخریب کاری کے بعد

طالبان کے سربراہ نے کہا کہ یہ بت ان کی کمزوری بن سکتے ہیں اور روز آخر ان سے پوچھا جائیگا کہ جب تم روسیوں کو شکست دے سکتے تھے تو تم نے بتوں کو کیوں نہیں توڑا؟ ایک مسلمان ملک میں بتوں کی موجودگی کو برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ یوں ملا عمر مجسمے مسمار کرنے سے دستبردار نہ ہوئے۔

جاپان کی کوششیں

پاکستان میں طالبان حکومت کے سفیر ملا عبدالسلام ظریف اپنی کتاب ’طالبان کے ساتھ میری زندگی‘ میں لکھتے ہیں کہ اس حوالے سے جاپان سب سے متحرک ملک تھا جو چاہتا تھا کہ بدھا کے مجسموں کو مسمار نہ کیا جائے۔

جاپان کے ایک سرکاری وفد، جس میں سری لنکا کے بودھ مت بھی شامل تھے، نے پیشکش کی کہ وہ ان مجسموں کو ٹکڑوں میں تقسیم کرکے دنیا کے کسی اور ملک میں لے جاکر جوڑ لیں گے۔ وہ لکھتے ہیں کہ انھوں نے کہا تھا کہ وہ سر سے لیکر پاؤں تک ان ٹکڑوں کو ایسے جوڑ دیں گے کہ محسوس ہی نہیں ہوگا کہ یہ کبھی الگ تھے۔

جاپانیوں نے طالبان کو بتایا کہ ان کے آباؤ اجداد کا بودھ مذہب رہا ہے اور وہ اس ورثے کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں، لیکن اس وقت کی افغان حکومت نے کہا کہ یہ باطل مذہب ہے اور جب انھیں اسلام کی صورت میں ایک سچا مذہب مل چکا ہے وہ ان کی پیروی کیوں نہیں کرتے؟

’مجسمے اسی حالت میں رہنے دیں‘

افغانستان پر اتحادی افواج کے حملے اور طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے سنہ 2003 میں وادی بامیان کو عالمی ورثہ قرار دے دیا، جس کے بعد دنیا بھر سے ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے یہاں کا رخ کرنا شروع کر دیا۔

تاہم یہاں پہنچ کر ماہرین کو صرف دو دیو ہیکل خالی غار ملے جو شکستہ مجسموں کے ٹکڑوں اور ان بارودی سرنگوں سے بھرے پڑے ہیں جو پھٹ نہیں سکی تھیں۔

بامیان

چونکہ مجسمے چٹان سے جڑے ہوئے تھے اور طالبان کو ان کے نچلے حصے میں اینٹی ٹینک سرنگھیں رکھ کر انھیں کمزور کرنا پڑا، جس کے بعد اس پر توپیں چلائی گئیں
بامیان

تقریبا دس سال کے بعد یونیسکو نے اعلان کیا کہ وہ ان مجسموں کو دوبارہ تعمیر کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی، بڑے مجسمے کو تعمیر کرنے کے لیے کافی ٹکڑے دستیاب نہیں، جب کہ چھوٹے مجسمےکی تعمیر ممکن ہے، لیکن یونیسکو کے مطابق ایسا ہونے کا امکان کم ہے۔

حکام نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پہاڑ کے وہ حصے جہاں یہ مجسمے بنائے گئے تھے موجودہ حالت میں ہی رہنے دیے جائیں گے تاکہ طالبان دور میں ہونے والے ظلم و تشدد کی عکاسی ہو سکے۔

بامیان کی وادی

بامیان افغانستان کے وسط میں موجود ایک شاداب وادی ہے جس کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ یہ بدھ مت کا مرکز تھی۔

بامیان کے مجسموں کی تاریخ پر محقق اسحاق محمدی لکھتے ہیں کہ یہ صوبہ بامیان کے دارلحکومت کے ساتھ ساتھ پورے ہزارستان کا مرکز بھی گردانا جاتا تھا۔ دوسری صدی عیسوی کے دوران سلسلہ کوشان کے سب سے مقتدر حکمران کنیشکا نے بودھ مذہب اختیار کیا اور گوتم بدھ کے عظیم مجسموں اور دیگر بودھ خانقاہوں کی تعمیر شروع ہوئی جس کے بعد بامیان کی رونقیں مزید بڑھ گئیں۔

اس وقت یہ پورا خطہ امن کا گہوارہ تھا اور شاہراہ ریشم کے ذریعے چین اور ہند کا باقی دنیا سے تجارتی رابطے کا ایک اہم ذریعہ بھی تھا۔ چنانچہ تجارتی اشیا سے لدے بڑے بڑے کارواں کی شب و روز یہاں سے آمدرفت ہوتی تھی۔

بامیان

18ویں صدی میں ایک اطالوی مصور نے بامیان میں بدھا کے مجسموں کا یہ خاکہ تیار کیا تھا
بامیان

دونوں بڑے مجسموں سے متصل گنبد نما کشادہ کمروں کی دیواروں اور چھتوں پر رنگین نقش نگاری موجود ہے

مجسمے بنے کئی صدیوں میں

ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق پہلا مجسمہ 35 میٹر اونچا جسے مقامی ہزارہ ’شاہ مامہ‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اس کی تعمیر کا آغاز دوسری صدی عیسوی یعنی کنیشکا کے دور میں ہوا اور تکمیل تیسری صدی کے دوران ہوئی جبکہ سب سے بڑے 53 میٹر اونچے مجسمے جسے ’صلصال‘ کہا جاتا ہے، کی تعمیر چوتھی اور پانچویں صدی کے دوران ہوئی۔

بامیان کے مجسموں کی تاریخ پر محقق اسحاق محمدی اپنی تحقیق میں فرانسیسی آرکیالوجیکل مِشن (1922-1924) کا حوالہ دیتے ہوتے لکھتے ہیں ’یہ حقیقت پیش نظر رہنی چاہیے کہ یہ چند مہینوں، سالوں یا ایک صدی کے دوران نہیں بلکہ صدیوں تک ہزاروں ماہر سنگ تراشوں نے شب و روز پہاڑ کاٹ کر یہ مجسمے بنائے ہیں۔‘

بدھا کے مجسموں کے آس پاس بودھ بھگشووں کے لیے سینکڑوں غار بھی کھودے گئے جن میں سے کئی ایک نہایت کشادہ اور بودھ تعلیمات کی خوبصورت تصاویر سے آراستہ تھیں۔ ان کی باقیات بعض غاروں میں اب بھی موجود ہیں، خاص طور پر دونوں بڑے مجسموں سے متصل گنبد نما کشادہ کمروں کی دیواروں اور چھتوں پر رنگین نقش نگاری موجود ہے۔

نیشنل ریسرچ انسٹیٹوٹ فار کلچرل پراپرٹیز جاپان، سینٹر آف ریسرچ اینڈ ریسٹوریشن آف فرینچ میوزیم اور گیٹی کنزرویشن انسٹیٹوٹ آف امریکہ کی مشترکہ تحقیق کے مطابق بامیان کی غاروں سے حاصل کیے گئے نمونوں سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کو رنگ کرنے کے لیے آئل پینٹ کا استعمال کیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ یورپی مصوری کی تاریخ میں پندرہویں صدی سے آئل پینٹ کے استعمال کا معلوم ہوتا ہے۔ مشترکہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اُس زمانے میں اخروٹ اور پوست کے بیجوں کا تیل مجسموں کو رنگ کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32473 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp