ہمارا نقاد اور موضوع کی اہمیت


’دی روڈز ٹو فریڈم‘ سارتر نے 1940 میں تحریر کیا۔ ان کا ارادہ ان ناول کو چار حصوں میں مکمل کرنے کا تھا۔ مگر تیسرے حصے آئرن ان دی سول کے بعد چوتھے حصے کا خیال سارتر نے چھوڑ دیا۔ جبکہ چوتھے حصے کا کچھ حصہ وہ تحریر کر چکے تھے۔ منصوبہ بند چار جلدوں میں سے صرف تین اشاعت کی گئیں۔ اس کے بعد سارتر زیادہ دنوں تک زندہ بھی نہیں رہے۔ اس تثلیث کے بعد چوتھے ناول لا ڈیرنیئر پر ساتر کام تو کرتے رہے تاہم، سارتر نے اسے کبھی ختم نہیں کیا۔اس کے دو باب ہی شائع ہو سکے۔

یہ سلسلہ وجودیت کی زمین نے فراہم کیا تھا۔ تین نہیں بلکہ چاروں ناول دوسری جنگ عظیم اور فرانس کے نازی قبضے کے واقعات کے جواب میں تحریر کیے گئے تھے۔ جنگ اور جنگی مناظر نے سارتر کی زندگی میں ہلچل مچا دی تھی۔ یہ ہلچل برصغیر کا حصہ نہیں ہے۔ سارتر کی فلسفیانہ تھیوری زندگی اور ادب دونوں میں ، کچھ خاص تبدیلیوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ انھوں نے توسیع شدہ مضمون میں ان کی قرارداد تلاش کرتے ہوئے وجودیت کی سمت قدم بڑھایا۔

سارتر نے اپنے ناول میں جنگی ڈائریوں، اور دوستوں کے خطوط پر کام کیا جس میں وافر مواد موجود تھے۔ کمال کی بات یہ کہ صرف چند دنوں میں، مسلسل لکھتے ہوئے سارتر نے پہلا ڈرافٹ مکمل کر لیا۔ اس نے سیمون کو ایک خط لکھا جس میں بتایا کہ اسے لکھنے کے لئے ایک بہترین موضوع مل گیا ہے، اور یہ موضوع ہے آزادی۔ ان ناولوں کو خود نوشت بھی کہا گیا۔ اس میں سیمون کے دوست بھی کردار تھے اور مرکزی کردار میں سارتر کی جھلک نظر آتی تھی۔

1945 کے بعد جب یہ کتابیں ایک ساتھ شایع ہوئیں تو چاروں طرف سارتر کی فلسفیانہ فکر اور بصیرت کا ڈنکا بج چکا تھا۔ سارتر کی عمر کافی ہو چکی تھی۔ اور سارتر اس وقت تک چاروں حصوں کو کتابی شکل میں دیکھنے کے خواہش مند تھے۔ ان کے بارے میں یہاں تک کہا گیا کہ اگر سارتر کی خواہش ادبی تاریخ کے دروازوں پر دستک دینا ہے، تو وہ کامیاب ہو گئے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ جین پال سارتر نے یقینی طور پر فرانس کے سب سے بڑے ادیبوں میں جگہ بنا لی ہے۔ ان ناولوں میں برطانیہ ہے، فرانس ہے، جرمنی ہے، دوسری جنگ عظیم کی تباہیاں ہیں۔ اور وہ سب کچھ ہے کہ اگر آپ ایسا کوئی ناول اردو میں تحریر کریں تو آپ کو کہا جائے گا کہ یہ موضوعاتی ناول ہے۔

کچھ باتوں کا ذکر ضروری ہے۔ جب ہنگامی ترقی پسندی کا دور تھا، اس وقت بھی یہ کبھی نہیں کہا گیا کہ ترقی پسند موضوعاتی ادب لکھتے ہیں۔ مجھے کئی مقالوں میں یہ پڑھنے کا اتفاق ہوا کہ ذوقی موضوعاتی افسانے یا ناول لکھتے ہیں۔ گویا سارتر، کافکا، میلان کنڈیرا یا مارخیز نے جو لکھا، وہ موضوعاتی ادب نہیں تھا۔ یعنی بغیر کسی موضوع کے یہ لکھتے چلے گئے اور اس کا یہ بھی مطلب سمجھا جا سکتا ہے کہ جدیدیوں کو لفاظی کی ضرورت تو محسوس ہوتی ہے مگر موضوع کے انتخاب کی نہیں۔رہے نام اللہ کا۔

سارتر کا ذکر اس لیے کیا کہ جدیدیت کے امام بھی ان کا نام لیتے ہیں اور جدیدیت فروش بھی جو اتنا بھی نہیں جانتے کہ فکشن تو فکشن، غزل کے ایک مصرعہ کے لئے بھی موضوع کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ میں نے سارتر کا حوالہ اسی لیے دیا۔ جب ہٹلر بم برسا رہا تھا، سارتر انسان کی معنویت کو وجودی فلسفے میں تلاش کر رہا تھا۔ ناول کا چوتھا حصہ اس نے جنگ کی تباہی پر لکھا۔ مگر مشرف عالم ذوقی کو مرگ انبوہ یا مردہ خانے میں عورت لکھنے کا اختیار نہیں کہ یہ موضوعاتی ناول ہیں۔

سارتر نے پہلی اور دوسری عظیم سے سبق لیا۔ آنکھیں بند نہیں کیں۔ اس نے سیمون کو لکھا کہ اسے آزادی کا بہترین موضوع مل گیا ہے۔ سارتر کو ہٹلر، دوسری جنگ عظیم پر لکھنے کا حق حاصل تھا کیونکہ جدید پسند خیمہ اسے اپنے ساتھ لے گیا۔ اور چونکہ سارتر نے لکھا، اس لئے اس کے ادب کو موضوعاتی ادب کے خانے میں نہیں رکھا جا سکتا۔ میں اب بھی سوچتا ہوں کہ کیا دنیا کے کسی بھی زبان کا فکشن موضوعات کے بغیر رقم کیا جا سکتا ہے۔

اردو فکشن کے نقادوں نے کبھی ادب کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ بیشتر جدیدیت کی سرنگ میں چلے گئے۔ ایک نے جو کہا، اس پر ایمان لے آئے۔ ایک نے جو کہا، اسی پر لبیک کہا اور اسی کو دہراتے چلے گئے۔ میں اب بھی کہتا ہوں کہ اگر آپ ان سات برسوں کے ہندوستان کو نہیں دیکھ رہے ہیں، تو آپ ادیب نہیں ہیں۔ اگر آپ کی آنکھیں اب بھی بند ہیں تو آپ کا افسانوی فلسفہ بیکار ہے کیونکہ ہمیں تابوت میں دفن کرنے کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔

مرگ انبوہ لکھتے ہوئے میرے پیش نظر سارتر کے ناول بھی تھے کیوں کہ سارتر وقت سے آنکھیں موند کر زندہ نہیں رہنا چاہتا تھا۔ سارتر نے وجودیت کو ہومینزم سمجھا۔ اس کا ماننا تھا کہ انسان خود اپنا تخلیق کار ہے۔ وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے جو خود بناتا ہے۔ ”وجودیت اور انسانیت پسندی“ میں وہ لکھتے ہیں۔ ”سادہ سی بات یہ ہے کہ ہم انسان ہیں۔“ یہ وہ نہیں ہے جو وہ اپنے بارے میں سوچتا ہے۔ بلکہ یہ اسی طرح ہے جیسے وہ وعدہ کرتا ہے، وہ اپنے پیدا ہونے کے بعد ہی اپنے بارے میں سوچتا ہے۔اسی طرح وہ اپنے وجود کی طرف بڑھنے کے بعد ہی اپنے بارے میں عزم کرتا ہے۔ انسان کچھ بھی نہیں سوائے جس طرح وہ اپنے آپ کو تخلیق کرتا ہے۔ یہ وجودیت کا پہلا اصول ہے۔

سقراط کا ’اپنے آپ کا علم‘ کسی شخص کی اہمیت کو ثابت کرتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وہ وجودیت پسندوں کے قریب ہے۔ ہیگل بھی انسان ہونے کو کو اہمیت دیتا ہے۔ ڈیکارٹ کا مشہور جملہ ’مجھے لگتا ہے اسی لئے میں ہوں‘ کسی شخص سے پہلے سوچنے کو اہم سمجھتا ہے۔ یہ بھی وجودیت کا آغاز سمجھا جاتا ہے، لیکن وجودیت پسندوں کا خیال تھا کہ وجود سب سے پہلے ہے، غور و فکر، فکر یا نظریہ بعد میں ہے۔

مٹی کے جزائر سمندر میں مل رہے ہیں اور سلطنتیں تباہ ہو رہی ہیں۔ راسپوٹین نیا چہرہ لے کر واپس آیا ہے۔ پہلے یہ چہرہ خاموشی سے اپنا کام کر رہا تھا۔ اب اس چہرے نے مشن کے لئے چہرے سے نقاب اتار دیا ہے۔

ایک عریاں سیاسی رقص میں عوام کے جذبات کو سیدھے حب الوطنی سے جوڑ دیا گیا ہے۔ کاروباری اور سیاسی غنڈے، فرقہ پرست دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے ہیرو ہو گئے۔ جو ہندوستان کی دولت لے کر فرار ہو گئے، ان کے بارے میں پوچھنے والا کوئی نہیں۔ معاشی سطح پر ہندوستان کھوکھلا ہو چکا ہے۔ ریلوے تک بک چکا ہے۔ ایئر لائنس ، ایئر پورٹ بک گئے۔ بنکوں کا دیوالیہ نکل گیا۔ آر بی آئی کا خدا ہی حافظ ہے۔ گجرات کے معصوم مسلمانوں کے قتل کو بھی ہندوستان بھول گیا۔

شاہین باغ بھول گیا۔ حکومت کو مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ آہستہ آہستہ حکومت تمام ریاستوں پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ ایک ایسی شاطر حکومت ہمارے درمیان ہے جس نے بغیر اعلان کیے ہندوستان کو ہندو راشٹر بنا دیا۔ مسلمان کہاں ہیں؟ کہیں ہیں بھی یا نہیں؟ دیکھنے کے لیے دوربین یا خوردبین کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ کیونکہ انصاف کی عمارتوں سے خفیہ ایجنسی، پولیس سے فوج اور تمام بڑے شعبوں میں، آنے والے وقت میں مسلمان کہیں نہیں ملیں گے۔اردو کلاس میں نہیں ملیں گے۔ ممکن ہے اردو کو پاکستانی زبان قرار دے کر اردو کا وجود ہی ختم کر دیا جائے۔ کشمیر سے بھی اردو چلی گئی۔ ہم اس وقت سیاست کی بساط پر اندھے بھی ہیں، گونگے بھی، بہرے بھی۔ اور اسی لئے ہمارا خاتمہ طے ہے۔ 2002 کا گجرات دیکھیے۔ سات برسوں کا ہندوستان دیکھیے۔ پہلو خان اور اخلاق جیسوں کی ہلاکت کو یاد کیجیے۔ ڈاکٹر کفیل کے جرم کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔

پیارے نازی! تم ہمیشہ سے تھے اور ہم سمجھتے تھے کہ تم تباہ ہو گئے۔ لوگوں کو مارنے سے پہلے نازی فوجیوں نے یہودی ذہنی مریضوں اور ان کی نرسوں کو پہلے ٹیسٹ کے طور پر ہلاک کیا۔ تین سال کے بعد ، انہوں نے ان گیس چیمبروں میں لاکھوں یہودیوں کو ہلاک کر دیا۔ اس کام کو انجام دینے کا کام نازی جرمنی میں نیم فوجی تنظیم، شوالسٹل (ایس ایس) کو دیا گیا تھا۔ اس تنظیم کے لوگوں نے پہلے نفسیاتی ماہروں کو اغوا کیا اور حراستی کیمپ میں رکھا۔

1940 تک ان لوگوں نے 5 ہزار سے زیادہ مریضوں اور سینکڑوں پولش نرسوں کو ہلاک کر دیا۔ پولینڈ پر قبضہ کے بعد ، نازیوں نے پہلے قتل عام کے لئے گیس چیمبروں کا استعمال کیا۔ 10 اکتوبر، 1939 کو 19 ویں صدی کے فورٹ کولمب نے پوزنن سٹی میں پہلا حراستی کیمپ بنایا۔ اس جگہ کو نازی حکمرانی کے قیدیوں کو رکھنے کی جگہ کے بجائے منظم انداز میں نفسیاتی ماہرین کے قتل کا مرکز بنایا گیا تھا۔ نازی طاقت کے خلاف جو بھی بولتا تھا اسے یہاں ختم کر دیا جاتا تھا۔ یہودیوں کو بہت پرانے گیس چیمبروں میں پھینک دیا جاتا تھا۔

ایک دلچسپ بات اور۔ جب تمام مردوں کی موت ہو گئی، خواتین کو بیماروں کے پاس لایا گیا اور آخر کار بچوں کی باری تھی۔ 30 نومبر تک یہاں تمام مریض ہلاک ہو گئے تھے۔ آخر کار، اسپتال کے کارکنوں کو بھی گیس چیمبر میں لا کر ہلاک کر دیا گیا۔ اس کیمپ میں آنے پر، مریضوں کو نیچے لے جایا جاتا تھا جہاں سے انہیں کیمپ کے عقب میں دو گیس چیمبروں میں ڈال دیا جاتا تھا۔

مجھے راسپوٹین کی یاد آتی ہے۔ اس نے کہا تھا، عقیدہ، مشن اور مذہب کے لیے ہمیشہ طاقتوں کا استعمال ہوتا ہے۔ اور طاقتیں اس بات کی پروا نہیں کرتیں کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ طاقتوں کا سارا زور مشن اور عقیدے پر ہو رہا تھا۔ طاقتور لوگ گالیاں سنتے ہیں اور خوش رہتے ہیں۔

مگر مجھے یہ سب لکھنے کا حق نہیں۔

ہمارا نقاد ہر زمانے میں ادبی تنقید کو گمراہ کرنے کا کام کرتا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments