72 منٹ کی فون کال کا ہینگ اوور


کہتے ہیں کہ ایک لہر ہوتی ہے، چودہویں شب کے چاند کو چومنے کے ہیجان میں مبتلا سمندر کی لہروں میں ایسی لہر اور ایک لمحہ کلائمکس کا، جو انسان کو اپنے ہاتھوں اپنی جان لینے ایسے بظاہر ناممکن فعل پر عمل درآمد کروا دیتا ہے۔ اگر وہ لمحہ گزر جائے اور جوار پر آئی لہر بھاٹے کو لوٹ جائے تو خود کی جان لینا ممکن نہیں رہ جاتا۔ کسی بھی جان دار کی جبلت اپنی جان کی حفاظت کے اصول پر استوار ہوتی ہے نہ کہ جان لینے کے۔

میں سوچتا ہوں پڑوسی ملک کے شہر احمد آباد کی تئیس سالہ عائشہ بانو کے لئے کلائمکس کا وہ لمحہ کس قدر طویل ہو گیا ہو گا کہ اس نے لب دریا ویڈیو بنائی اور پھر گھر میں والدین کو کال بھی کی جس میں والد اسے کلام پاک کا واسطہ دے کر باز رہنے کی التجا کرتا ہے اور بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نام پر رکھے گئے اس کے نام کی لاج رکھنے کی تلقین کرتا ہے۔ ماں منت و زاری کرتی رہی مگر عائشہ بانو اس لمحے کی قید سے خود کو آزاد نہ کر سکی اور دریا میں کود کے جان دے دی۔

شاید یہ اس بہتر منٹ کی کال کا ہینگ اوور تھا جو عائشہ کی جان لے گیا۔ ان بہتر منٹوں کی گفتگو نے اس کو اس حد تک تو مایوس و ملول کیا ہو گا کہ اس نے اپنی جان لینے کا جو فیصلہ کیا، ماں کی زاریاں اور باپ کی منت بھی اسے نہ بدلوا سکی۔

مختصر تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ جولائی 2018ء کو احمد آباد کی اکیس سالہ عائشہ بانو کی شادی جلور راجستھان کے عارف خان غفور جی سے ہوئی۔ جولائی میں بابل گھر سے وداع ہونے والی عائشہ پانچ ماہ بعد ہی، دسمبر میں واپس بھیج دی گئی۔ مطالبہ تھا کہ کچھ لے کر آؤ والد سے۔ والد نے جیسے تیسے مطالبہ پورا کیا تو عارف اپنی بیوی کو واپس لے گیا۔ جس منہ کو حرام لگ جائے وہ کہاں رہ پاتا ہے بھلا۔

جولائی 2019ء کو عائشہ نئے مطالبے کے ساتھ پھر میکے بھجوا دی گئی۔ اب کے عائشہ کے والد لیاقت نے کچھ سٹینڈ لیا مگر پھر بیٹی کی حالت دیکھ کر 26 جنوری 2020ء کو عارف کو اڑھائی لاکھ روپے دیے اور وہ عائشہ کو گھر لے گیا۔ تاہم عائشہ پر شوہر اور اس کے والدین کی طرف سے تشدد کا سلسلہ جاری رہا اور مارچ 2020ء میں عائشہ کو پھر سسرال سے نکال دیا گیا۔

مارچ 2020ء میں عائشہ کے والد نے پولیس میں تشدد کی رپورٹ لکھوائی جس کا کیس عدالت میں زیر سماعت ہے۔

اب 20 مارچ 2020ء سے عائشہ والد کے گھر بیٹھی تھی۔ وہ ایک بنک میں ملازمت بھی کر رہی تھی۔ بیٹی پر تشدد اور بار بار کے مالی مطالبات کی بنا پر عائشہ کا والد اب مصالحت کو تیار نہ تھا جبکہ عائشہ اپنے بے غیرت شوہر کے عشق میں ڈوبی ہوئی تھی۔ خود کشی سے قبل کی جانے والی کال میں والد، عائشہ سے کہہ رہا ہے ”اچھا تم خود کشی کے ارادے سے باز آ جاؤ، مجھے بتاؤ کہاں ہو میں مونتو کو بھیجتا ہوں تمہیں لے جائے۔ اور میں کل ہی جلور بھی جاتا ہوں“ مجبور باپ بیٹی کا ہر مطالبہ ماننے کو تیار ہو گیا مگر عائشہ نے کہا عارف مجھ سے آزادی چاہتا ہے۔ میں اب اپنی وجہ سے سب کو پریشان نہیں کرنا چاہتی۔ عارف کو آزاد کر کے جا رہی ہوں، اس کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرنا۔

عجب دل ہوتے ہیں بیٹیوں کے۔ عائشہ شوہر سے محبت کے معاملے میں بھی خود کو مجبور پاتی ہے اور والدین کے لئے پریشانی کا سبب بننے کی بنا پر احساس جرم کا بھی شکار ہے۔ اس کا حل تئیس برس کے ناپختہ ذہن نے خود کشی کی صورت میں ڈھونڈا۔ پچیس فروری کو وہ بنک جانے کے لئے معمول کے مطابق گھر سے نکلی۔ ساڑھے چار بجے اس نے والدین کو کال کی۔ کال کی ریکارڈنگ سن کر دل بھاری پتھر تلے آیا محسوس ہوتا ہے۔

لاش ملی تو پولیس نے پہلی رپورٹ حادثے کی درج کی۔ پھر عائشہ کی آخری دو منٹ کی ویڈیو سامنے آئی تو پولیس نے تعزیرات ہند کی دفع 306 کے تحت عارف کے خلاف خودکشی پر مجبور کرنے کا کیس رجسٹرڈ کیا۔ عارف گھر سے فرار تھا مگر اب پکڑا گیا ہے۔ پولیس نے عائشہ کے فون کا ریکارڈ نکلوایا ہے تو والدین کو کی جانے والی کال سے قبل بہتر ( 72 ) منٹ کی کال عارف کو کی گئی ہے۔ خدا جانے کیا کیا منتیں، ترلے کیے ہوں گے۔ کیا کیا یقین دہانیاں کروائی ہوں گی مگر اس کٹھور دل پر اثر نہ ہوا ہوگا تو عائشہ نے جان دینے کا قصد کر لیا اور پھر دے بھی دی۔

ہم نے مر کر ہجر میں پائی شفا
ایسے اچھوں کا وہ ماتم کیا کریں

ویڈیو میں وہ بے حد مایوس نظر آتی ہے اور ٹھکرائے خانے کی ذلت کے احساس میں شرابور۔ ایسے میں زندگی بے معنی لگا کرتی ہے۔

اب یہ بھی خبریں آ رہی ہیں کہ عارف اپنی بیوی عائشہ کے سامنے گرل فرینڈ سے باتیں کیا کرتا تھا۔ میں سوچتا ہوں کہ ایک جذبہ نسائی انا کا ہوا کرتا تھا، وہ کیا ہوا؟ ہماری بیٹیاں کب یہ جانیں گی کہ اگر قدر نہیں کی جا رہی تو کسی بے غیرت قسم کے ہرجائی کا دم چھلا اپنے نام کے ساتھ لگا کر رکھنا ضروری نہیں۔ کامرس میں ماسٹرز کرتی ہوئی بنک میں آن جاب عائشہ کو آخر کس ضرورت کے تحت عارف جیسے بے حیا کے ساتھ جڑے رہنے کی ضرورت تھی؟ کیوں برصغیر کی بیٹیاں اپنی پسند، سوچ، فہم، خواہشات کچل کر ایک مشٹنڈے کے ساتھ لگے رہنے کو جان گھلایا کرتی ہیں۔

کاش! یہ عورت مارچ والیاں نعرے لگانے کے ساتھ ساتھ کسی طور اس زمین کی بیٹیوں کی فکری تربیت بھی کر سکیں کہ عورت خود مختار ہو سکتی ہے۔ وہ پیراسائیٹ بنے رہنے کو پیدا نہیں کی گئی۔ والدین اگر پڑھا لکھا کر نوکریوں پر لگواتے ہیں تو اس لئے نہیں کہ کسی حرام خور کے ناروا رعب میں رہیں اور اپنا خون دے کر بھی پیراسائیٹ بنی رہیں۔ ایک بیٹی اتنی مضبوط ہو کہ کوئی ایسا کم زور لمحہ قریب نہ پھٹک پائے جو عائشہ بانو جیسا قدم اٹھانے پر مجبور کرے۔

عائشہ بھی شاید اس کم زور لمحے سے گزر جاتی مگر یہ اس بہتر منٹ کی کال کا ہینگ اوور تھا جو عائشہ کی جان لے گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments