کیا ہر اینکر صحافی ہوتا ہے؟



گزشتہ شب ایک ٹاک شو دیکھ رہی تھی اور اینکر پرسن کے نام کے ساتھ لفظ صحافی لکھا ہوا پڑھا جو تھوڑا ناگوار گزرا۔ کیونکہ وہ حضرت تو زرد صحافت سے وابستہ تھے۔ میرے مطابق ہر اینکر صحافی تو نہیں ہوتا اور اگر وہ اپنے نام کے ساتھ صحافی لکھوا بھی دے تو کیا وہ صحافی بن جائے گا؟ خبریں پڑھتے پڑھتے ان کو اچانک اینکر بنا دیا جاتا ہے، پھر صحافی بن جاتے ہیں اور بڑے ہی قلیل عرصہ میں ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے تجزیہ کار کی حیثیت سے کسی پینل میں بیٹھ جاتے ہیں۔

صحیح معنوں میں صحافی سوچ سمجھ کے لکھنے والا ہوتا ہے، جبکہ اینکر بنا سوچے سمجھے شور شرابا کرتے ہیں۔ یہ اینکر ریٹینگ کے لیے کسی بھی شرمناک حد تک جا سکتے ہیں۔ ان کا کام آگ لگانا ، چنگاری لگانا ہے، جبکہ صحافی مسئلے کا کامل حل چاہتا ہے۔ مسئلہ منظر عام پر لانا چاہتا ہے۔ کوئی خبر عوام تک اصل حالت میں پہنچانا اس کا کام ہوتا ہے۔

سچے اور کھرے صحافی کو خریدنا ممکن نہیں ہوتا تھا، ایسی مثال آج ملنا تو مشکل ہے لیکن اینکر کو خریدنا بڑا آسان ہے، اینکر کے پروگرامز بکتے ہیں۔ دونوں کے درمیان تنخواہ اور مراعات کا واضح فرق پایا جاتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ سچ لکھنے والے کی حق حلال کی روٹی بھی چھین لی جاتی تھی۔

لفافہ صحافی کی بات کریں تو وہ بھی اسی دوڑ میں ہیں شامل ہیں۔ ٹی وی پہ دکھنے اور بکنے والے اینکرز کو کون نہیں جانتا، پر اصل ہیرو اصل صحافی جنہوں نے پوری زندگی صرف کر دی کو چند ہم عصر لوگ ہی صحیح معنوں میں جانتے ہیں۔

آج کل فنکار اور ڈرامہ رائٹر بھی سیاسی پروگرام کر لیتے ہیں اور ان کو اچھا سلاٹ بھی مل جاتا ہے۔ کیونکہ ان کا چہرہ بکتا ہے۔ حالانکہ یہ تو اینکر کہلانے کے بھی قابل نہیں۔ صحافت یا سیاسیات کی ڈگری کسی کے پاس نہیں، بعض خواتین اور حضرات کی دلچسپی پروگرام اور سوال جواب سے زیادہ اسکرین پر بہتر اینگل اور بال وغیرہ دیکھنے میں ہوتی ہے۔ کافی لوگوں کو سوال اسکرپٹ کی صورت میں چینل مالکان کی طرف سے ملتے ہیں۔ ان کا کام صرف اپنی خوبصورتی اسکرین پر دیکھنا اور گرج دار آواز نکالنا رہ جاتا ہے۔اسی کے لیے انہیں بٹھایا جاتا ہے اور یہ بات ہم سب جانتے بھی ہیں۔ ایسے چہروں کو کم از کم صحافی کہنا صحافت کی توہین ہے۔ یون لگتا ہے کہ دور رواں بیشتر چینل بکے ہوئے ہیں، سب اپنے اپنے ’رازق‘ کا راگ الاپتے ہیں۔ اکثر اینکر یا لفافہ صحافی سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ کہتے ہیں، اسی کے ہی تو پیسے ملتے ہیں۔

پرنٹ میڈیا کا ایک تاریخی دور بھی تھا جب آمریت عروج پر تھی۔ سچ بولنے اور لکھنے والوں کو پابند سلاسل کیا گیا، ان کا جرم یہ تھا کہ وہ بکے نہیں تھے، انہوں نے بہت سی بڑی بڑی پیشکشیں ٹھکرا دی تھیں۔ کیونکہ وہ اپنے پیشے اپنے قلم سے دیانت دار تھے۔ سچ اور حق کی لڑائی میں بہت سی قربانیاں دی گئیں۔ طویل جلاوطنی اور گرفتاریاں جھیلیں۔ ان پر جھوٹے مقدمات بنائے گئے۔ انہوں نے کوڑے کھائے ، قید و بند کی صوبعتیں برداشت کیں مگر آمر کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکے اور آزادی صحافت کے لیے لڑتے رہے۔ اب بائیں بازو کی سوچ اور ترقی پسند خیالات رکھنے والے نظریاتی فصیح و بلیغ صحافی ایسے نایاب نگینے دور دور تک نظر نہیں آتے، جو حاکم وقت کے خلاف لب کشائی کر سکیں اور ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار ہوں۔

صحافت در حقیقت بے لوث جذبے کے تحت ایک خدمت اور جدوجہد کا نام ہے، پہلے وقتوں میں نوجوان روزمرہ کے مسائل کے حل کے لیے اس پیشے سے منسلک ہوتے تھے۔ ماضی کے تقاضے بھی الگ تھے اور نوجوانوں کے جذبے اور توانائی بھی جدا تھی۔ وسیع النظر نوجوان بیرونی اقتدار کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے مشن کے تحت اپنے فرائض سر انجام دیتے، مگر کوئی ذاتی فائدہ اٹھانے کی غرض نہ تھی۔ مقصد محض پریس یا میڈیا کا کارڈ حاصل کرنا بھی نہ تھا۔ وہ اپنے طرز عمل سے دیانت داری، اپنی راست بازی ثابت کرتے رہے۔

پرانے صحافی ہمیشہ معاشی طور پر پریشان رہے، تنخواہ کا ملنا نہ ملنا یا دیر سے ملنا عام سی بات تھی۔ ماضی کے قلم کار جانتے تھے کہ ان کی ہلکی سی بھی لغزش سماج میں انتشار کا سبب بن سکتی ہے۔ گزشتہ برسوں کے صحافی اور کالم نگار کو ملکی غیر ملکی حالات کے بارے میں مکمل آگہی ہوتی تھی۔ سیاست پہ مکمل عبور حاصل ہوتا تھا اور وہ معیاری کام کو ترجیح دیتے تھے ۔ وہ پرو ایکٹو طرز کی سوچ کے حامل اور صورت حال کو پہلے سے بھانپ جانے والے ہوتے تھے۔

صحافت کا پہلا اصول ہی سچائی ہے۔ صحافی کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ معروضیت کی بنیاد پر خبر کا انتخاب کرے اور خبر کی اشاعت سے قبل تمام حقائق اور اعداد و شمار کی مصدقہ ذرائع سے تصدیق کر لے۔ اعداد و شمار کا حوالہ ضرور دینا چاہیے۔

آج کی بات کریں تو اب وہ مشن، مشین میں تبدیل ہو گیا، معیار کے بجائے تعداد کو فوقیت دی جاتی ہے۔ لہجے بدل گئے انداز بدل گئے۔ بنیادی رواداری، انصاف پسندی مجروح ہو گئی ہے۔ مانا کہ اب معاشرے کا تقاضا بدل گیا ہے، ہر چیز ہی بدل گئی۔ مگر اپنی قومی زبان، تہذیب و تمدن سے واقف ہونا ضروری ہے، الفاظ سے کھیلنا نازک کام ہے، اکثر لوگ اپنے تیر کا نشانہ خود بن جاتے ہیں۔ اینکر ہو تجزیہ کار ہو یا کالم نویس، ان کا ذہنی کینوس وسیع ہونا چاہیے۔

صحافیوں کو چاہیے کہ وہ  ثبوت اور شواہد کی بنیاد پر تجزیہ کریں تو بہتر ہے نہ کہ ہوا میں تیر چلائیں جیسے بڑے بڑے ’تہلکہ خیز انکشافات‘ صابر شاکر، مبشر لقمان، ڈاکٹر دانش، کامران خان، کاشف عباسی اور شاہد مسعود جیسے لوگ برسوں سے کرتے آ رہے ہیں۔ ان کو ٹاکنگ پوائنٹس ملتے ہیں اور بگ باس کی خوشی کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہوتا ہے، مولوی حضرات مقتدر شخصیات، چینل مالکان کو بھی ساتھ لے کرچلنا ہوتا ہے، کچھ حضرات کا صحافت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا، بس سرمایہ لگا کر چینل کھولا اور بن گیا نمبر ون چینل۔

کوئی ضابطہ کوئی دستور نہیں ، بس ایک دوڑ ہے کہ ہم کسی سے کیوں پیچھے رہیں، دوسرے چینل سے سبقت لے جانے کے لیے دوسرے کی نقل اورایک ہی ٹائم پر ایک جیسا مواد تمام چینلز پر نشر ہوتا ہے۔ میری عرض بس اتنی ہے کہ اب جانب دارانہ تجزیوں اور جھوٹی رپورٹنگ سے گریز کریں اور خبروں کی پیشکش میں تبصرے یا اقتداری حلقوں کی خواہشات شامل کرنے سے بھی پرہیز کریں، سوال پوچھیں تو جواب سنیں۔ اپنا جواب اس میں شامل نہ کریں اور پلیز غیرجانب دار رہیں، کیونکہ یہ آپ کی سماجی ذمہ داری ہے۔

آج کے صحافی اپنے پیشے کی حرمت کا خیال رکھتے ہوئے ایک متفقہ ضابطہ اخلاق ترتیب دیں تو کیا ہی اچھا ہو، لیکن جب تک غلط معلومات دینے پر سول سوسائٹی اور عام لوگ متعلقہ ادارے اور افراد کے خلاف آواز نہیں اٹھائیں گے تب تک یہ مسئلہ بھی حل نہیں ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments