عائشہ کا مرثیہ،’زندہ‘ دلہنوں کے نام


بابا آپ سنایا کرتے تھے، اندھیری راتوں میں، جب مجھے خوف آتا تھا اور آپ کی باہوں میں سمٹ کر لیٹ جاتی تھی، آپ مجھے پیاری پیاری کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ اچھی اچھی کہانیاں۔ مجھے آپ کی سنائی ہوئی کہانیوں کا حرف حرف یاد ہے۔ فرعون کی کہانیاں، موسیٰ کی، دریائے نیل کی۔ وہ دلہن والی کہانی آپ کی پسندیدہ تھی اور میری بھی۔ آپ بہت مزے سے سناتے تھے۔ ان دنوں کی بات ہے جب دنیا ایک جنگل تھی۔ انسان چوپائیوں کی طرح جھنڈ کی شکل میں چھپتا پھرتا تھا۔

انسان تھے، انسانیت کہیں نہیں ملتی تھی۔ پھر دریاؤں کے کنارے تہذیبیں پیدا ہونا شروع ہوئیں۔ دریا کا پانی زندگی دیتا تھا۔ اس کا اتار چڑھاؤ رونق بخشتا تھا، ہریالی لاتا تھا۔ لیکن ہر سال دریا سوکھ جاتا۔ پروہت کہتے نیل دیوتا قربانی مانگتا ہے۔ اس عظیم دیوتا حابی کو ایک دلہن چاہیے، نئی نویلی، سجی سنوری، ہر سال۔ گھاٹ پر پورا مصر امڈ آتا۔ حابی دیوتا کی مدح ہوتی۔ اس سے درخواست کی جاتی کہ وہ نئی دلہن کو قبول کر لے اور پھر سے مصر پر مہربان ہو جائے۔

زرق برق لباس پہنے، زیورات سے لدی پھندی دلہن، گھاٹ پر لا کر دیوتا کے حوالے کر دی جاتی۔ جب روتا بلکتا جوان سالہ دلہن کا باپ پروہت کے قدموں سے لپٹ کر پوچھتا کہ میری بیٹی؟ پروہت اشلوک پڑھتا جاتا ”یہ دلہن پورا سال نیل دیوتا حابی کو گود میں کھیلے گی۔ دریا کا نیلا پانی خوشی سے اچھل اچھل کرنیلے آسمان کے دیوتا ہورس سے باتیں کرے گا۔ ندی بپھرے گی۔ زمینیں سیراب ہوں گیں۔ اس نیل کے مچلتے پانی اور پر سکون نیلے آسمان کی صدیوں پرانی دوستی ہے۔ حابی کی ساری دلہنیں ہورس کے محلات کو روشنی بخشتی ہیں۔ اگلے سال تیری یہ بیٹی بھی ہورس کی کشتی میں سوار ہو کر پھر سے ہمارے سامنے جگمگائے گی۔“

پھر میں آسمانوں کی طرف دیکھنا شروع کر دیتی اور آپ سے پوچھتی ”بابا یہ جو تارے ہیں یہ وہی دلہنیں ہیں۔ آپ کہتے، نہیں میری بھولی بیٹی وہ تو دریا برد ہو گئیں۔ وہ جاہل لوگ تھے۔ ہر طاقتور چیز کو خدا بنا لیتے تھے۔ ہر سودمند چیز کے سامنے سر جھکا دیتے تھے۔ جب خدائے واحد کے ماننے والے مصر پہنچے تو حضرت عمرؓ نے ایک رقعہ لکھ کر دریا میں ڈال دیا جس پر لکھا تھا:

“ اے دریا! اگر تو اللہ کے حکم سے بہتا تھا تو ہم بھی اللہ ہی سے تیرا جاری ہونا مانگتے ہیں اور تو اللہ کے حکم سے جاری ہو جا اور اگر تو خود اپنی مرضی سے بہتا ہے اور اپنی ہی مرضی سے رک جاتا ہے تو پھر تیری کوئی پروا اور ضرورت نہیں ہے۔”

اس دن سے اب تک دریائے نیل اسی طرح جاری و ساری ہے ایک لمحے کے لیے بھی اس کا پانی خشک نہیں ہوا۔

بابا! وہ دریا تھا، جھوٹا خدا بنا پھرتا تھا۔ اللہ کے ایک بندے کا حکم سن کر صحرا پر اپنی جبیں قیامت تک بلا چوں چرا رگڑتا رہے گا۔ بابا! میرے بھولے، پیارے بابا، موجودہ دنیا کے جھوٹے خدا جن کے پلے آپ نے مجھے باندھ دیا یہ کسی آسمانی خدا کو نہیں مانتے۔ یہ بھی ہر سود مند چیز کی پوجا کرتے ہیں۔ یہ دولت کے پجاری ہیں۔ پیسہ ان کا خدا ہے۔

بابا! کاش میں فرعونوں کے دور میں پیدا ہوتی اور آپ مجھے دریائے نیل کی دلہن بنا کر اس کے حوالے کر دیتے، کم از کم پروہت کے لارا لیری لگانے سے آپ بہل تو جاتے۔ آپ آسمانوں کے جگمگاتے تاروں میں مجھے ڈھونڈھتے ڈھونڈتے کبھی تو پر سکون ہو کر سو جاتے۔ بابا، مصر کی دلہنوں کے باپ اپنی بیٹیوں کو دیوتاؤں کی بھینٹ چڑھنے سے بچا سک نہ وہ ان سے ٹکرا سکے،

بابا! آپ بھی اس دنیا کے خداؤں سے نہیں لڑ سکو گے۔ دیکھو! کیس واپس لے لو۔ کب تک اپنوں سے، ان فرعونوں سے لڑتے رہو گے۔

میں خود کو سبرمتی ندی کے حوالے کر رہی ہوں۔ پیاری سی ندی مجھے خود میں سما لے، میں ہواؤں کی طرح ہوں، بہنا چاہتی ہوں۔ آج سے میں آزاد ہوں۔ آج کے دن میں بہت خوش ہوں۔ میں خدا کے پاس جاؤں گی، اسے ڈھونڈوں گی، اگر وہ مجھے کہیں ملا تو اسے کہوں گی، مجھے دنیا میں دوزخ ملی، مجھے آسمانوں کی جنت بھی نہیں چاہیے۔ تیری جنت میں انسانوں کا جمگھٹا ہو گا، مجھے ایسی جنت نہیں چاہیے۔ میں دوبارہ انسانوں کی شکل نہیں دیکھنا چاہتی۔ مجھے ادھر ستاروں میں کہیں جھلسنے دے۔ مجھے سورج کے دوزخ میں پھینک دے ، اس کی حدت سسرال کے دکھوں کی تپش سے کم ہی ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments