کرونا اور ہمارا رویہ: ’اس سال کے حساب کو برق آفتاب ہے‘


جیسا کہ آپ لوگ جانتے ہیں مجھ میں دو غیر معمولی خصوصیات ہیں، ایک تو میری یاد داشت بہت اچھی ہے اور دوسری۔ مجھے اس وقت یاد نہیں۔ اپنی اسی حیرت انگیز صلاحیت کا استعمال کرتے ہوئے آج میں نے ذہن پر زور دیا تو یاد آیا کہ پاکستان میں کرونا وائرس کا پہلا مریض ایک سال پہلے 26 فروری 2020 کو سامنے آیا تھا۔ اس وقت سے لے کر اب تک جو واقعات ہوئے، ان میں سے بعض بہت عجیب و غریب تھے، آج ان باتوں کو سوچیں تو لگتا ہے جیسے وہ کسی اور ہی دنیا کی کہانی ہو۔ مگر کیا وہ سب ہماری یاد داشت میں ہے جو گزشتہ ایک برس میں ہوا؟

کرونا کے پہلے مریض کی خبر پاکستانی اخبارات میں شہ سرخیوں کے ساتھ لگی، میڈیا میں اس مریض کا انٹرویو چلایا گیا اور لوگ اسپتال کے باہر کرونا کا مریض دیکھنے کے لیے یوں اکٹھے ہو گئے جیسے وہ کوئی عجوبہ ہو۔ اس کے بعد اکا دکا مریضوں کی خبریں آنا شروع ہوئیں جس کے ساتھ ہی کچھ عجیب و غریب کہانیاں بھی سوشل میڈیا پر سننے کو ملیں، جیسے ایک خاتون کا صوتی پیغام مجھے یاد ہے جس میں انہوں نے واویلا کیا تھا کہ ان کی بیٹی کو کرونا کی علامات ظاہر ہونے پر زبردستی گھر سے اسپتال کیوں منتقل کیا گیا۔

یہ کرونا کے ابتدائی دنوں کی بات ہے، اس پیغام نے خاصا ارتعاش پیدا کیا تھا۔ پھر ایک اور خبر نے سوشل میڈیا پر طوفان برپا کر دیا جب پتا چلا کہ خواتین کے ملبوسات بنانے والی ایک ڈیزائنر نے اپنے گھریلو ملازم کا کرونا ٹیسٹ مثبت آنے پر بس کا کرایہ دے کر گھر بھیج دیا اور محکمہ صحت کو اطلاع دینے کی زحمت نہیں کی، کرونا پھیلانے کے جرم میں اس خاتون کے شوہر کو پولیس پکڑ کر لے گئی۔ اپنے شوہر کے دفاع میں مذکورہ خاتون نے ایک ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر پھینکی جس کے رد عمل میں الٹا لوگوں نے اس کے شاہانہ طرز زندگی کو تنقید کا نشانہ بنایا اور یوں جو ہمدردی وہ سمیٹنا چاہتی تھی، نہ مل سکی۔

اس کے بعد پیش گوئیاں کرنے والوں نے ’دام گفتن‘ بچھایا اور اپنی سمجھ بوجھ اور علم کے مطابق وائرس ختم ہونے کی تاریخیں دیں، سب کی سب غلط ثابت ہوئیں۔ اسی دوران کچھ ویڈیوز منظر عام پر آئیں جن میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ یہ وائرس موسمی ہے اور جب ہمارے ہاں گرمی کی لہر آئے گی اور سورج خط استوا سے فلاں زاویے پر ہوگا تو یہ وائرس دم توڑ جائے گا۔ بظاہر یہ ویڈیوز بہت سائنسی نوعیت کی لگتی تھیں مگر یہ بھی غلط نکلیں۔

ایک صاحب وہ بھی تھے جنہوں نے رجسٹر نما کتابیں سامنے رکھ کر کہا کہ یہ وائرس امریکہ اور یورپ کی ملی بھگت سے مصنوعی طور پر لیبارٹری میں تیار گیا ہے، آج کل ان کا بھی کچھ پتا نہیں چل رہا کہ کہاں گئے، اپنی بات پر قائم ہیں یا پینسٹھ سال سے زائد عمر کے کھاتے میں ویکسین لگوا نے کی قطار میں لگے ہیں۔ گزشتہ برس مختلف قسم کی ادویات کا غلغلہ بھی اٹھا تھا کہ فلاں دوا کرونا وائرس کے خلاف موثر ثابت ہوتی ہے، ان تمام ادویات کی بازار میں قلت ہو گئی، آج وہ تمام دوائیوں آسانی سے مل جاتی ہیں۔ اور ہاں یاد آیا، ایک شے پلازما بھی تھی جس کے بارے میں ہمیں بتایا گیا تھا کہ جو مریض کرونا سے صحت یاب ہو جاتا ہے اس میں اینٹی باڈیز بن جاتی ہیں جنہیں پلازمے کی شکل میں استعمال کر کے کسی دوسرے مریض کا علاج کیا جا سکتا ہے۔ سو، پلازما حاصل کرنے کی دوڑ شروع ہوئی اور اس کی قیمت لاکھوں روپوں تک پہنچ گئی تاہم یہ طریقہ علاج کامیاب ثابت نہیں ہو سکا۔ جو ’ماہرین‘ اس کی کامیابی کا دعوی کر رہے تھے اب کہیں دکھائی نہیں دیتے۔

اوائل کرونا میں پہلی قفل بندی کے حالات بھی یاد کرنے ضروری ہیں۔ شروع شروع میں یہ خبریں بھی سننے کو ملیں کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے یکایک غربت اور بے روزگاری میں اتنا اضافہ ہو گیا ہے کہ ’دیہاڑی دار مزدور‘ متمول لوگوں کی گاڑیاں روک کر ان سے نقدی چھیننے لگے ہیں، اندیشہ ہوا کہ کہیں ملک میں انارکی نہ پھیل جائے۔ اس بارے میں چند لوگوں نے اپنے تجربات سوشل میڈیا پر بیان کیے اور بتایا کہ وہ کسی جگہ اپنی گاڑی میں بیٹھے تھے کہ اچانک کچھ لوگوں نے، جو حلیے سے مزدور نظر آتے تھے، امداد مانگنے کے لیے گاڑی کا شیشہ زور زور سے کھٹکھٹایا اور پھر پیسے نہ ملنے پر یک دم غصے میں شیشہ توڑنے کی کوشش کی اور یہ تاثر دیا کہ وہ اس کھیت کے دہقان ہیں جن کو روزی نہیں ملی سو وہ خوشہ گندم کو جلانے آئے ہیں۔

تاہم جلد ہی پتا چل گیا کہ یہ علامہ اقبال والے غریب نہیں تھے۔ یہ خبریں جس تیزی سے پھیلیں اسی تیزی کے ساتھ ختم بھی ہو گئیں، آج یہ واقعات کسی کو یاد نہیں۔ اور پھر چھوٹی عید آ گئی۔ تاجروں نے قفل بندی ماننے سے انکار کر دیا اور ’دلیل‘ یہ دی کہ ہمارے کاروبار تباہ ہو جائیں گے۔ کاروبار تو بچ گئے مگر کئی گھرانے اجڑ گئے۔ عید کے بعد مئی جون میں کرونا وائرس کی ایسی لہر آئی کہ اسپتالوں میں جگہ ختم ہو گئی، آکسیجن کے سیلنڈر ’بلیک‘ میں فروخت ہونے لگے اور ہر گھر سے کرونا کا مریض نکلنے لگا۔

اموات یوں ہونے لگیں کہ لگتا تھا جیسے گلیاں لاشوں سے اٹ جائیں گی اور کوئی دفنانے والا نہیں ہوگا۔ جنوبی امریکہ کے کسی ملک کی ایسی ہی ویڈیو ان دنوں وائرل ہوئی جس میں لاشوں کو مشین کے ذریعے اکٹھا کیا جا رہا تھا۔ باہر کی دنیا کے بعض اسپتالوں سے بھی ایسی ویڈیوز آئیں جن میں لوگ اپنے پیاروں کو بغیر دیکھے دفنانے پر مجبور نظر آئے۔ اپنے ہاں دوبارہ لاک ڈاؤن کر دیا گیا۔ گلیاں سنسان ہو گئیں، سڑکیں ویران ہو گئیں۔ بڑے شہروں کی جن شاہراؤں پر پہلے کھوے سے کھوا چھلتا تھا، وہاں ہو کا عالم طاری ہو گیا۔ یوں لگتا تھا جیسے ہم کبھی پرانی زندگی میں واپس میں نہیں آ سکیں گے، نارمل انداز میں نہیں جی سکیں گے، گہما گہمی اور رونق کو اب ہمیشہ کے لیے خدا حافظ کہنا پڑے گا۔

یہ ساری رام کتھا سنانے کا مقصد اپنی اور آپ کی یادداشت کو تازہ کرنا تھا۔ ان میں سے بہت سی باتیں ہمارے ذہنوں سے محو ہو چکی ہیں حالانکہ یہ تمام واقعات گزشتہ ایک سال میں ہماری آنکھوں کے سامنے رونما ہوئے، آج انہیں ریوائنڈ کر کے یاد کریں تو حیرت ہوتی ہے کہ ہم کیا کچھ بھگت کر یہاں تک پہنچے ہیں۔ بقول غالب ’رفتار عمر قطع رہ اضطراب ہے، اس سال کے حساب کو برق آفتاب ہے۔‘ اس ایک برس کے اندر یہ حال ہو چکا ہے کہ کسی کو کرونا وائرس ہو تو جواب میں ’اچھا‘ کہہ کر بات ختم کر دی جاتی ہے۔

جس ’جرم‘ کی پاداش میں ملبوسات بنانے والی خاتون کے شوہر کو پولیس پکڑ کر لے گئی تھی وہ جرم اب سب کر رہے ہیں۔ اب کرونا مثبت والے کو کوئی نہیں پوچھتا کہ میاں تم کہاں گھومتے پھر رہے ہو، کوئی حکومتی اہلکار کسی مریض کو گھر میں پابند نہیں رکھتا۔ اب کسی گاڑی والے پر ’مزدور‘ حملہ آور نہیں ہوتے۔ اب کوئی پلازما کی بات نہیں کرتا اور کوئی جوتشی کرونا وائرس کے خاتمے کی پیش گوئی بھی نہیں کر رہا حالانکہ یہ وائرس اسی طرح پاٹھا ہے جیسے 26 فروری 2020 کو تھا۔

آج کا دور اس قدر تلاطم خیز ہو چکا ہے کہ کوئی بھی واقعہ زیادہ دیر تک اپنا اثر قائم نہیں رکھ پاتا اور ہر گزرتے دن کے ساتھ نیا تجربہ پرانے واقعے پر سیاہی پھیر دیتا ہے۔ اس رجحان کی وجہ سے ہماری یاد داشت بے حد مختصر ہو چکی ہے اور ہم ہر پل بدلتے ہوئے مناظر، واقعات اور تبدیلیوں کا احساس نہیں کر پاتے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم کچھ دیر رک کر سانس لیں اور دیکھیں کہ زندگی کے ریلے میں کیا کچھ بیت گیا، اس عمل سے اپنے احمقانہ اور دانشمندانہ فیصلوں کی بیلنس شیٹ بنانے میں مدد ملے گی۔ یہ کام اگر پہلے نہیں کیا تو اب کر لینا چاہیے، شاید زندگی کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کا موقع مل جائے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 495 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments