زلزلے کیوں آتے ہیں؟


بچپن میں سنتے تھے کہ زمین ایک گائے کے سینگوں پر کھڑی ہے۔ جب وہ تھک کر سینگ بدلتی ہے تو زلزلہ آتا ہے۔ گائے نظروں سے چھپی یہ سب بوجھ خاموشی سے اٹھائے کھڑی ہے۔ زمین پر ہنستے بستے لوگ اسے نا انصافی یا ظلم نہیں قدرت کا لکھا سمجھ کر اس پر ‍بوجھ در بوجھ ڈالنے میں کوئی تأمل نہیں کرتے۔

پھر بڑے ہوئے تو یہی حقیقت کینیڈا میں انگلش لٹریچر کے کورس کے دوران اسی موضوع سے ملتی جلتی ایک اور کہانی میں پڑھی۔

Ursula.L. Guin ایک امریکی مصنف ہیں۔ ان کی ایک بہت ہی خوبصورت اور بیشتر ایوارڈ یافتہ کہانی ہے

The Ones Who Walk Away from Omelas

اس کہانی میں اومیلا ایک یوٹوپیائی شہر ہے۔ ہر لحاظ سے خوبصورت، پر لطف اور پر امن۔ مگر اس خوشی کا دار و مدار ایک بچے ( جو معلوم نہیں لڑکا ہے یا لڑکی) کی ایک اندھیری، کال کوٹھڑی میں مستقل اور تکلیف دہ قید تنہائی ہے۔ وہ اپنے ہی گند میں مڑا تڑا بیٹھا رہتا ہے۔ ہاں کبھی کبھی چیخ پکار کرتا ہے کہ اب میں اچھا بچہ بن کر رہوں گا مجھے اس عذاب سے نکالو۔ مگر سب کو علم ہے کہ اگر اس کو روشنی میں لایا گیا تو یکلخت اومیلا کی تمام آسائشیں اور امن تہ و بالا ہو جائے گا۔

لوگوں کو اس نا انصافی کا علم تو ہے مگر جہاں بہت سے لوگ خاموشی کو ترجیح دیتے کہ اپنے اتنے دلکش شہر کی آسائشوں اور آسانیوں کے لئے اپنے ضمیر کی آواز دبانا ہی بہتر حل ہے، وہیں کچھ ایسے بھی ہیں جو اس نا انصافی پر اتنی وحشت محسوس کرتے ہیں کہ وہ یوٹوپیائی شہر یکلخت ان کے لیے ایک dystopia بن جاتا ہے جس میں ان کے لئے خوش رہنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ اس ظلم پر تکلیف اور بے چینی محسوس کرنے والوں میں زیادہ تر تعداد چھوٹے بچوں یا نوجوانوں کی ہے اور کچھ بڑی عمر کے افراد بھی ہیں۔ پہلا گروپ بچوں اور جوانوں کو مختلف طریقوں سے قائل کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ بچہ ذہنی معذور ہے، ناقص العقل ہے، باہر آ کر بھی کیا کر لے گا، زندہ ہے، کھانے کو بھی مل رہا ہے، یہ قدرت کا لکھا ہے، تو تم پریشان مت ہو اور اپنی زندگی کا لطف اٹھاؤ۔

مگر چونکہ بچے، جوان اور بوڑھے اس اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مزاحمت نہیں کر سکتے تو وہ خاموشی سے ایک ایک کر کے رات کے اندھیرے میں کسی نامعلوم شہر کو روانہ ہو جاتے ہیں کہ بچے کی بے بسی، اور قید تنہائی کی وحشت انھیں کسی پل اس خوبصورت شہر میں سکون سے جینے نہیں دیتی۔

آپ بھی سوچیں کہ آپ کس گروپ کا انتخاب کریں گے۔ تھیوری میں تو سب دوسرے گروپ کا ساتھ دیں گے مگر حقیقت میں ہم سب کا تعلق پہلے گروپ سے ہے۔

کہانی اصل میں ولیم جیمز کی بیان کردہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اگر آپ کو معلوم ہو جائے کہ آپ کو ہر نعمت اور آسائش ملے گی مگر کسی ایک کو مسلسل قربانی اور تکلیف میں رہنا ہو گا تو کیا آپ یہ سودا قبول کریں گے۔ دوسرے لفظوں میں ہماری زندگی کی ہر خوشی اور آسائش کے پیچھے کسی کی تکلیف یا قربانی کار فرما ہے۔ (مجھے یاد ہے کہ جب میں نے کہا کہ یہ بچہ تھرڈ ورلڈ بھی ہو سکتا ہے جس پر فرسٹ ورلڈ کی آسائش کا انحصار ہے تو میری انگریز ٹیچر کے چہرے کا رنگ کچھ لمحوں کے لئے بدلا مگر اس نے میرے اس زاویہ کی تائید کی)

بہرحال اب اس سوال کی طرف آتے ہیں کہ یہ زلزلے کیوں آتے ہیں۔

جب کال کوٹھڑی میں قید بچہ دیوار کے سوراخ سے روشنی میں رواں دواں آزاد گھومتے انسان دیکھتا ہے اور چیختا ہے کہ اسے بھی آزاد زندگی جینے کا حق ہے مگر اس کی آواز کوئی نہیں سنتا مگر فقط زمین اور درو دیوار سنتے ہیں تو کانپ اٹھتے ہیں اصل میں یہی زلزلے کہلاتے ہیں۔

اور پھر کبھی زمین کے اوپر آزادی سے گھومتے دیدۂ بینا کے سامنے جب بنا کپڑوں کے کال کوٹھڑی سے بچہ نکلنے میں کامیاب ہو جائے تو وہ اس ننگے بدن والے بچے یا بچی پر گندگی اور فحاشی کا لیبل لگا کر اسے واپس دھکیلنے کی کوشش کرتے ہیں ، اسی دھکم پیل کی وحشت سے جب زمین کانپتی ہے تو زلزلے آتے ہیں۔

برصغیر کی گائے بھی زمین کا بوجھ خاموشی سے اٹھائے جب تھک جاتی ہے تو روشنی کی تلاش میں باہر نکلنا چاہتی ہے مگر خود پرست اور خود غرض انسان اسے لاعلمی اور مشقت کے گھن چکر سے باندھے رکھنا چاہتا ہے کہ اس کی آسائشوں اور خود غرض آسانیوں کا دار و مدار اسی نظروں سے پوشیدہ سہن کردہ ظلم اور نا انصافی پر ہے۔ جب وہ گائے کو اس مشقت کو خوش اسلوبی سے اٹھانے پر قائل کرنا چاہتا ہے کہ بہرحال یہ قدرت کا لکھا ہے اور قدرت سے لڑنا کم فہمی ہے عقلمندی نہیں، تو وہ گائے جو روشنی دیکھ چکی ہے ، اب وہ لاعلمی کی وجہ سے ناجائز مشقت اور بوجھ اٹھانے پر قائل نہیں ہوتی تو اجارہ دار انسان اسے زبردستی لاعلمی کے پاتال میں دوبارہ دھکیلنا چاہتا ہے۔ اور پھر قیاس ہے کہ اسی دھکم پیل میں زلزلے آتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments