کشمیر کا تنازع: حقائق کی روشنی میں


شیخ عبداللہ کو سری پرتاب ڈگری کالج سری نگر سے 1924ء میں ایف ایس سی کرنے کے بعد، اس کالج میں بی ایس سی کی کلاسیں نہ ہونے کی وجہ سے جموں کا رخ کرنا پڑا۔ وہاں پرنس آف ویلز ڈگری کالج میں انہیں نظر انداز کر کے ایک غیر ریاستی ہندو سرکاری افسر کے بیٹے کو ترجیح دی گئی۔ شیخ عبداللہ آتش چنار میں اس ضمن میں خود کہتے ہیں کہ ”میں کالج میں داخلے کے لئے گیا تو کالج کے پرنسپل سوری بڑی بے رخی سے پیش آئے، میں ان کے سامنے گڑگڑا نہ سکا اور میرے منہ سے ’حق‘ کا لفظ سن کر انہوں نے میرا مقدمہ اپیل اور دلیل کے بغیر خارج کر دیا۔

چنانچہ انہیں اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لینا پڑا۔ یہ حق تلفی ان کے دل پر ثبت ہو گئی۔ لاہور میں ان کی علامہ اقبال کے ساتھ باقاعدگی سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ علی گڑھ میں ایم ایس سی (کیمسٹری) کے دوران محمد علی جناح، کرم چند گاندھی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی اور جواہر لعل نہرو کو سننے کا موقع ملا۔ سری نگر میں 1930ء میں واپس آنے پر جب سول سروس ریکروٹمنٹ بورڈ نے ان پر اعلیٰ سرکاری ملازمت کے دروازے بند کر دیے تو انہیں سکول ماسٹر کی ملازمت کرنا پڑی۔

ریڈنگ روم پارٹی میں ان کے ساتھیوں نے، ڈوگرہ راج کی مسلمان اکثریت کے ساتھ مسلسل روا رکھی گئی نا انصافیوں کو لاہور کے مسلم اخبارات (انقلاب، سیاست وغیرہ) اور لندن میں ’انڈین سٹیٹس‘ کے ذریعے دنیا کے سامنے بے نقاب کرنا شروع کر دیا۔ ’انقلاب‘ کے مالکان و مدیر بقول شیخ عبداللہ (آتش چنار) دو مشہور ادیب اور مسلمانوں کے حقوق کے جری علم بردار مولانا غلام رسول مہرؔ اور عبدالمجید سالکؔ تھے، جب کہ لندن میں ’انڈین سٹیٹس، کے ایڈیٹر، سر ایل این بینرجی اور رجنی پام دت تھے۔

ان اخبارات میں کشمیر کے بارے میں حقائق کا شائع ہونا، ڈوگرہ راج کے لئے خجالت کا باعث بنا۔ ایک تو مسلمانوں کے حقوق کی پامالی دنیا کے سامنے آشکار ہوئی اور دوسرے کچھ نوجوان، لوگوں کی نگاہوں میں آ کر، ریاست کے سیاسی افق پر ابھرنے لگے۔ اسی دوران ریڈنگ روم پارٹی سری نگر اور ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن جموں کا آپس میں رابطہ ہوا اور دونوں نے مل کر ریاست کے حالات کو باقاعدگی سے اخبارات کی زینت بنانا شروع کر دیا۔ اس سے ریاست کے راج کو دھچکا لگا جیسے کہ مطلق العنان طرز حکومت میں ہوتا ہے۔ مہاراجہ نے انقلاب اور دوسرے اخباروں کا ریاست میں داخلہ بند کر دیا (جسٹس (ر) یوسف صراف) ۔

مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت اور قرآن کی بے حرمتی پر اپریل 931اء سے احتجاج کا سلسلہ جاری تھا کہ 25 جون کو عبدالقدیر نامی، ایک غیر ریاستی شخص کو ڈوگرہ راج کے خلاف تقریر کرنے اور لوگوں کو بغاوت پر اکسانے کے جرم میں گرفتار کر کے بعد ازاں نقص امن کے خطرہ کے تحت سری نگر کی سنٹرل جیل میں ڈال دیا گیا۔ 13 جولائی کو لوگ ہزاروں کی تعداد میں جیل کے باہر جمع ہو گئے۔ وہ قدیر کے حق میں نعرے لگاتے ہوئے اس کی رہائی کا اور جیل کے اندر جا کر اس کے مقدمے کی کارروائی دیکھنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔

کچھ لوگوں نے جیل کے اندر جانے کی کوشش بھی کی تھی۔ ایک بجے کے قریب سب لوگ ظہر کی نماز ادا کرنے کے لئے صفیں باندھنے لگے۔ اس دوران گورنر ترلوک چند نے آ کر پولیس کو ان لوگوں کو گرفتار کرنے کا حکم دیا، جنہوں نے جیل کے اندر جانے کی کوشش کی تھی۔ پولیس نے پانچ افراد کو گرفتار کر لیا۔ جس سے لوگوں کے جذبات میں مزید اشتعال پیدا ہوا اور انہوں نے جیل کے گیٹ پر چڑھائی کر دی اور اپنے گرفتار ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ گورنر اپنے حواس برقرار نہ رکھ سکا اور پولیس کو فائرنگ کا حکم دے دیا۔

پولیس نے پندرہ منٹ میں ایک سو اسی راؤنڈ فائر کیے گئے (بحوالہ دلال انکوائری کمیشن۔ برجور دلال، چیف جسٹس ہائی کورٹ سری نگر) ۔ پولیس کی فائرنگ سے 17 افراد موقعہ پر اور 5 زخمی ہونے کے بعد، جامعہ مسجد میں شہید ہو گئے (یوسف صراف) اور چالیس افراد شدید زخمی ہوئے۔ میں یہاں یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ کچھ لوگوں نے محض داستان طرازی کے لئے اس واقعہ میں مبالغہ آمیزی کا عنصر شامل کر کے یہ کہانی گھڑ لی کہ 22 مسلمانوں کو جیل کے دروازے پر محض اس لئے یکے بعد دیگرے گولی مار دی گئی کہ وہ نماز سے قبل اذان دینے کی کوشش کر رہے تھے۔ یعنی جب اذان دیتے ہوئے ایک شخص کو گولی مار دی جاتی تو دوسرا اس کی جگہ پر کھڑا ہو جاتا۔

میں اس بے سرو پا بیان کی تائید، کسی بھی حوالے سے کرنے سے قاصر ہوں۔ کسی کو پر امن احتجاج کرنے پر جان سے مار دینا انتہائی گھناؤنا جرم ہے۔ مسلمانوں کا یہ قتل عام بہیمانہ اقدام تھا جو قابل مذمت ہے۔ لیکن یہ بات مدنظر رہنی چاہیے کہ سچ میں جھوٹ کی ملاوٹ سے مذہبی جذبات کو تو ابھارا جا سکتا ہے لیکن اس سے اصل مقدمہ مضبوط نہیں، کمزور ہو جاتا ہے۔ سنٹرل جیل کے واقعے کے بعد صرف سری نگر میں ہی نہیں، جموں میں بھی مسلمانوں کے جلسے جلوس روزانہ کا معمول بن گئے۔

چوہدری غلام عباس جو ان دنوں سری نگر آئے ہوئے تھے اور شیخ عبداللہ اور ان کے ساتھیوں کی میزبانی میں ایک ہاؤس بوٹ میں مقیم تھے، کو 13 اور 14 جولائی کی درمیانی شب گرفتار کر لیا گیا۔ شیخ عبداللہ بھی 14 جولائی کو گرفتار ہوئے۔ ان حالات میں یہ دو شخصیات سیاسی قیادت کے طور پر سامنے آئیں۔ شیخ محمد عبداللہ، جو سال بھر سے، بد حال و بے زبان کشمیریوں کے حقوق کے لئے سینہ تانے ڈوگرہ حکومت کے سامنے ڈٹے ہوئے تھے، کو خوش الحانی، شعلہ بیانی اور گفتگو میں روانی اور بے خوف قیادت کی وجہ سے ’شیر کشمیر‘ کا لقب دے دیا گیا۔

شیخ عبداللہ کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے تھا۔ وہ قرآن کی تلاوت ایسی خوش الحانی اور موثر انداز میں کرتے تھے کہ سننے والے مسحور ہو کر اشک بار ہو جاتے تھے۔ اس وقت کے بڑوں، خواجہ سعد الدین شال، مولوی محمد عبداللہ ایڈووکیٹ اور منشی شہاب الدین وغیرہ نے جو انہیں جلسوں میں خطاب کرتے دیکھ چکے تھے، شیخ عبداللہ کو کشمیری قوم کے ایک ایسے مسیحا کے روپ میں دیکھا جو روحانی قوتوں اور معجزاتی شخصیت کے مالک تھے (یوسف صراف) ۔

میر واعظ یوسف شاہ مذہبی پیشوا کے طور پر کشمیر میں ہر دل عزیز شخصیت جانے اور مانے جاتے تھے۔ لوگ ان کا تہہ دل سے احترام کرتے تھے۔ شروع میں تو انہوں نے شیخ عبداللہ کے ساتھ جلسوں میں شرکت کی اور شیخ عبداللہ کی ابھرتی ہوئی قیادت کو سراہا لیکن جب ان کی اپنی شہرت کا چراغ، اس نئی چکا چوند میں قدرے گہنا گیا تو انہوں نے شیخ عبداللہ کی مخالفت شروع کر دی۔ وہ لمحۂ موجود کی حقیقت اور ضرورت کا ادراک نہ کر سکے اور اپنی ذات سے بلند ہو کر وقت کے گزرتے دھارے کا ساتھ نہ دے سکے، چنانچہ وہی ہوا جو ایسے لمحات میں غلط فیصلوں پر کسی کو ہیرو سے زیرو بنا دیتا ہے اور لمحوں کی خطا صدیوں کی سزا پر منتج ہوتی ہے۔

اگرچہ انہوں نے مسلم کانفرنس کے اجراء کے بعد اپنی پارٹی آزاد مسلم کانفرنس کے نام سے بنائی مگر بات بن نہ سکی۔ چوہدری غلام عباس کا تعلق جموں سے تھا۔ وہ بھی شیخ عبداللہ کی طرح حکومتی نا انصافیوں کا شکار ہوئے اور وہ بھی تحصیل علم کے بعد جموں صوبہ کے مسلمانوں کی آواز بن چکے تھے۔ یکم اگست کو مسلسل مظاہروں سے عاجز آ کر حکومت نے گرفتار رہنماؤں کو رہا کر دیا۔ جب کشمیر کے حالات بد سے بد تر ہو گئے تو مہاراجہ ہری سنگھ نے برطانوی حکومت کے دباؤ میں آ کر گلینسی کمیشن مقرر کیا۔ اس کمیشن نے اپنی سفارشات 22 مارچ 1932ء پیش کیں۔ اس سے حالات کچھ بہتر ہوئے۔ اس دوران شیخ عبداللہ نے پوری وادی کا دورہ کیا۔ اب وہ ہر جگہ مقبول ہو چکے تھے۔

ریاست میں لوگوں کے من حیث القوم جذبات کے اظہار کے لئے ایک مشترکہ پلیٹ فارم کا ہونا لازمی امر تھا۔ اگرچہ ریاست میں ایک سیاسی جماعت کی ضرورت تو عرصے سے محسوس کی جا رہی تھی لیکن ڈوگرہ راج کے خود ساختہ قوانین میں اس کی گنجائش موجود نہیں تھی۔ اپریل 1931ء اور مابعد کے سانحات و واقعات کے رد عمل میں ہونے والے جلسے، جلوسوں اور مظاہروں کے دوران اس ضرورت کو اور شدت سے محسوس کیا گیا۔ گلینسی کمیشن اور بالخصوص گلینسی کی ہی سربراہی میں فرنچائز کمیٹی کی سفارشات نے ایک سیاسی جماعت کے قیام کی راہ ہموار کر دی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments