سنیٹ انتخابات: 1985ء کے بعد پارلیمانی تاریخ کا سب سے بڑا اپ سیٹ


پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما اور پی ڈی ایم کے متفقہ امیدوار سید یوسف رضا گیلانی نے 169 ووٹ لے کر اسلام آباد سے سینیٹ الیکشن میں حکومتی امیدوار عبدالحفیظ شیخ کو شکست دے دی۔ انہوں نے 340 ووٹوں میں سے 169 جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار عبدالحفیظ شیخ نے 164 ووٹ حاصل کیے۔ ریٹرننگ افسر نے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ سات ووٹ مسترد ہوئے۔ ایوان بالا کے انتخاب میں جنرل نشست پر یہ سب سے بڑا مقابلہ تصور کیا جا رہا تھا اور حکومتی جماعت پرامید تھی کہ اس کا امیدوار جیت جائے گا۔

حکومت کے ایوان میں سید یوسف رضا گیلانی نے اپنی ”محیرالعقول“ کامیابی سے 36 سال پہلے کی تاریخ دہرا دی ہے جب مورخہ 22 مارچ 1985ء کو صدر جنرل محمد ضیاء الحق کے ”زیر سایہ“ غیر جماعتی قومی اسمبلی کی اسپیکر شپ کے انتخاب میں سید فخر امام نے (خواجہ آصف کے والد) خواجہ صفدر کو شکست دے کر پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں سب سے بڑا اپ سیٹ کیا تھا۔ واضح رہے کہ پارلیمانی تاریخ میں فخر امام ہی وہ واحد سپیکر تھے جن کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی کامیاب ہوئی تھی۔

تاریخی حقائق کے مطابق جنرل ضیاء الحق نے 25 فروری 1985 کو غیر جماعتی بنیادوں پر عام انتخابات کرائے۔ جنرل ضیاء کو یقین تھا کہ پارلیمنٹ کو ریمورٹ کنٹرول کے ذریعے چلانے کے لئے وہ اپنا منظور نظر سپیکر آسانی سے منتخب کرا لیں گے۔ قومی اسمبلی کے سپیکر کے لئے انتخاب 22 مارچ 1985 کو ہوا۔ جنرل ضیاء الحق نے اپنی مجلس شوریٰ کے سابق چیئرمین اور موجودہ رکن قومی اسمبلی خواجہ آصف کے والد محترم خواجہ صفدر کو سپیکر شپ کے لئے امیدوار نامزد کیا جس کے تجویز اور تائید کنندگان میں شیخ رشید احمد، حامد ناصر چٹھہ، ڈاکٹر شیر افگن، الٰہی بخش سومرو، حاجی حنیف طیب، گوہر ایوب خان، ایم پی بھنڈارا اور شیخ روحیل اصغر سمیت 53 اراکین اسمبلی شامل تھے۔

دوسری طرف چند نئے اراکین اسمبلی نے سید فخر امام کو سپیکر کا الیکشن لڑنے پر تیار کر لیا۔ مگر جب خفیہ رائے شماری کا نتیجہ سامنے آیا تو سید فخر امام 119 ووٹ لے کر کامیاب ہو گئے جبکہ خواجہ صفدر نے 111 ووٹ حاصل کیے۔ جنرل ضیاء الحق اور حکومتی پنجوں کے لئے یہ بہت بڑا دھچکا تھا۔ پاکستانی پارلیمانی تاریخ کے مطابق سید فخر امام ہی قومی اسمبلی کے وہ واحد سپیکر تھے جن کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی کامیاب ہوئی تھی۔

تحریک عدم اعتماد 26 مئی 1986 کو رانا نذیر احمد خان نے پیش کی جس کے حق میں 152 ووٹ جبکہ مخالفت میں 72 ووٹ پڑے اور سید فخر امام فارغ ہو گئے۔ بعد ازاں 29 مئی 1986 کو سپیکر کا انتخاب ہوا جس میں حکومتی امیدوار حامد ناصر چٹھہ 176 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے جبکہ سردار آصف احمد علی اور شیخ رشید احمد نے دو دو ووٹ حاصل کیے تھے۔

گزشتہ روز ایوان بالا کی 37 سیٹیوں پر نئے اراکین کے انتخابات کے بعد 2024 تک سینیٹ کی رکنیت مکمل ہو گئی ہے۔ حالیہ سینیٹ انتخابات زبردست تنازعات کا شکار رہے اور اس دوران حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان شدید کشیدگی رہی۔ اراکین کی خرید و فروخت کے بارے میں بھی روزانہ کوئی نہ کوئی انکشاف ہوتا رہا۔ پنجاب میں سینیٹ کے انتخابات نہیں ہوئے کیوں کہ پہلے ہی تمام امیدوار بلامقابلہ منتخب ہو چکے تھے۔

اسلام آباد سے ہی خواتین کی نشست پر پی ٹی آئی کی فوزیہ ارشد 174 ووٹ لے کر کامیاب رہیں۔ ان کی مقابل پاکستان مسلم لیگ (ن) کی فرزانہ کوثر 161 ووٹ لے سکیں۔ ریٹرننگ افسر کے مطابق اس نشست پر پانچ ووٹ مسترد ہوئے۔ سندھ سے فیصل واؤڈا، سیف اللہ ابڑو، تاج حیدر، سلیم مانڈوی والا، فیصل سبزواری، شیری رحمان، پلوشہ خان، خالدہ اطیب، شہادت اعوان اور فاروق ایچ نائیک جبکہ خیبر پختون خوا سے شبلی فراز، محسن عزیز، لیاقت ترکئی، ڈاکٹر ثانیہ نشتر، فلک ناز سنیٹر منتخب ہو گئے، دوست محمد خان اور ہمایوں مہمند ٹیکنوکریٹ جبکہ گردیپ سنگھ اقلیتی نشست پر ایوان بالا کے رکن منتخب ہوئے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سینیٹ انتخابات کے نتیجے پر اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’’جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ جیے بھٹو۔‘‘ پی ٹی آئی کے شہباز گل نے ابتدائی ردعمل میں کہا کہ ان کی پارٹی نتیجے کو چلینج کرے گی۔ وفاقی وزیر اطلاعات سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ اسلام آباد کی جنرل نشست پر ہونے والے سینیٹ الیکشن کے نتیجے نے ہمارے خدشات کو درست ثابت کر دیا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے یوسف رضا گیلانی، پی ڈی ایم اور ارکان قومی اسمبلی کو مبارک باد دیتے ہوئے ٹویٹر پر لکھا کہ ”نواز شریف کے فیصلے اور بیانیے کا مان رکھا اور جھکنے اور بکنے سے انکار کر دیا۔ اللہ تعالی کا شکر جس نے پی ڈی ایم کو فتح دی۔ جعلی مینڈیٹ عوام کے نمائندوں نے واپس چھین لیا۔ اپنے ہی لوگوں نے دباؤ کے باوجود آٹا چور، چینی چور، بجلی چور، ووٹ چور عوام کے مجرم عمران خان کو ووٹ دینے سے انکار کر دیا۔ تمہارے پاس اب وزیر اعظم ہاؤس پر قابض رہنے کا کوئی جواز نہیں۔ ووٹ چور کرسی چھوڑ۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments