روک سکو تو روک لو: 8 مارچ آتا رہے گا


کسی ”زن دشمن“ نے چیلنج دیا ہے کہ خواتین مارچ کا ہر حامی اس مارچ میں اپنی ماں، بیوی، بہن اور بیٹی کو لے کے جائے۔ میری والدہ حیات نہیں، میری بہنیں بہت زیادہ معمر ہیں، میری بیٹی مکہ معظمہ میں مقیم ہے اور میری بیوی ماسکو میں ورنہ میں ان سب سے کہتا کہ عورتوں کے حق بارے جدوجہد میں شریک ہونا نہ صرف ان کا حق ہے بلکہ ان پر فرض بھی ہے۔ میری بات ماننا نہ ماننا ان کی مرضی ہوتی کیونکہ کوئی بھی جمہوری سوچ رکھنے والا اپنی مرضی کسی پر بھی تھوپتا نہیں ہے جیسے اس موصوف نے مجبور کرنے کی کوشش کی کہ ”لے کے جائے“ ۔

واویلا کرنے والوں کو معلوم نہیں کہ ایسے ہی مارچز کے طفیل عورتوں کو حق رائے دہی ملا ہے۔ انٹرنیٹ کی وجہ سے کوئی بھی تھوڑی سی انگریزی پڑھنے سمجھنے والا شخص جان سکتا ہے کہ عورتوں کے حقوق بشمول حق رائے دہی کے حصول کی خاطر سب سے پہلا جلوس یعنی مارچ، سوشلسٹ پارٹی آف امیریکہ کے ایماء پر 28 فروری 1909 کو امریکہ میں نکلا تھا۔ پھر اگست 1910 میں ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں ہوئی سوشلسٹ خواتین کی بین الاقوامی کانفرنس میں 8 مارچ کو عورتوں کے حقوق کے دن کے طور پر منائے جانے کی تجویز منظور کی گئی تھی۔

8 مارچ 1917 کو سلطنت روس کے ان دنوں کے دارالحکومت پیتروگراد یعنی آج کے سینٹ پیٹرز برگ میں، ٹیکسٹائل کی صنعت میں مزدوری کرنے والی خواتین نے اتنا بڑا جلوس نکالا تھا جس سے پورا شہر بھر گیا تھا۔ اسی کی بدولت روس کا اکتوبر انقلاب برپا ہوا تھا۔ دنیا میں سوویت یونین پہلا ملک تھا جہاں عورتوں کو حق رائے دہی کے علاوہ سرکاری دفاتر میں کام کرنے کا اور نکھٹو، شرابی مردوں سے طلاق لینے کا حق ملا تھا۔ کہتے ہیں کہ طلاق لینے کے لیے عورتوں کی قطاریں لگ گئی تھیں کیونکہ اس حق کے تفویض ہونے سے پہلے وہ بھی آج کے کچھ ملکوں میں مرد کے جبر کا شکار عورتوں کی طرح خاموشی سے جیسے کیسے بھی شوہر تھے ان کے ساتھ زندگی بسر کرنے، ان کے ہاتھوں زد و کوب ہونے اور ان کی شراب نوشی سہنے پر مجبور تھیں۔ طلاق لینا اسی طرح Taboo تھا جیسے آج بھی کچھ ملکوں میں ہے۔ عورتیں پڑھی لکھی بھی نہیں تھیں، کام بھی مناسب نہیں ملتا تھا یعنی ویسی ہی صورت احوال تھی جس سے آج بھی پاکستان میں 60 سے 70 فیصد عورتیں دوچار ہیں۔

عورتیں کسی بھی ملک کی آبادی کا نصف ہوتی ہیں، اگر ان میں سے بیشتر کو پیداواری عمل میں شریک ہونے کا موقع ہی میسر نہ آئے تو وہ ملک معاشی طور پر آگے بڑھنے سے رک جاتا ہے۔ صنعتی سماج جو ہر طرح سے ترقی یافتہ معاشرہ کہلاتا ہے، معیار زندگی بہتر ہونے سے بہتر طور پر تعلیم یافتہ اور باروزگار افراد پر مشتمل معاشرہ ہونے تک۔ صفائی ستھرائی سے لے کے حفظان صحت و علاج معالجے کی بہتر سہولتوں کی مفت دستیابی تک، میں عورتیں لامحالہ غیرپیداوری کام کم کرتی ہیں یعنی گھر بار سنبھالنا، بچوں کی دیکھ ریکھ لیکن ایسے سماج میں مرد چاہے وہ شوہر ہو یا اس کا عورت سے کوئی اور رشتہ ہو وہ اس کے ساتھ برابر کا شریک ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر پاکستان میں ہر گھر میں تین وقت بیس تیس روٹیاں توے پر ڈالنا اور سینکنا، تینوں وقت سالن پکانا اور ایسے دیگر غیر پیداواری کام عورتوں کا بہت زیادہ وقت لیتے ہیں۔ برسبیل تذکرہ روٹیاں تو ایران اور مشرق وسطیٰ کے ملکوں میں بھی باہر سے ہی منگوائی جاتی ہیں، گھروں میں بنانے کا تردد کوئی نہیں کرتا چہ جائیکہ مغربی ممالک جن کے ہر عمل سے ایسے مردوں کو نفرت ہے جو بس اینڈنا جانتے ہیں۔

”میرا جسم میری مرضی“ جیسے وضاحت کن نعرے کو نہ جانے کیوں فحش اور گھٹیا نعرہ کہا جاتا ہے جبکہ جسم تو ہر ایک کا اپنا ہی ہوتا ہے اور اس کی دیکھ بھال بھی ہر ایک اپنی مرضی و منشا سے ہی کرتا ہے۔ البتہ جیسے پچھلے دنوں میرے قصبے علی پور میں کسی لڑکی نے اپنی مرضی سے شوہر چنا تھا، نکاح کر کے اکٹھے رہنے لگے تھے یعنی لڑکی نے ”میرا جسم میری مرضی“ پر عمل کیا تھا اور اس لڑکی کے بھائی کو، جو جانا مانا غنڈہ بدمعاش ہے، پسند نہیں آیا تھا پھر وہ اسے ایک سال بعد جب اس لڑکی کی ایک نوزائیدہ بچی بھی تھی، تقریباً اغوا کر کے لے آیا اور بچی سمیت کچھ کہتے ہیں، زندہ دفنا دیا، کچھ نے کہا گولیاں مار کر۔

اگر آپ اپنے گھروں کی عورتوں کے جسموں کو اپنی ملکیت سمجھ کر انہیں بھیڑ بکریوں کی طرح کسی کے کھونٹے سے باندھ دینے یا جب جی چاہے انہیں اور ان کے معصوم بچوں تک کو ذبح کر دینے والے ہیں تو آپ سے ان عورتوں کے ساتھ ہم جیسے انسان دوست، جمہوری رویوں کے حامل مردوں کی بھی جنگ ہے اور تب تک رہے گی جب تک ایسے جلوس نکالنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو گی بلکہ تب مردوں کے جہل، جبر اور بالادستی پر مبنی پدرسری نظام پر فتح پانے کی خوشی میں تہوار منائے جانے لگیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments