میری تقدیر نہ بدلے گی کبھی



کچھ لوگ حکومت کرتے ہیں۔ کچھ لوگ حکومت سہتے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند پر سوسال انگریز حکومت کرتا رہا۔ پورا برصغیر حکومت سہتا رہا۔ انگریز ایک نظام کے تحت حکومت چلاتا تھا۔ اس نظام حکومت کو جس میں باہر سے آ کر چند لوگ، چند سو یا چند ہزار لوگ حکومت کا انتظام سنبھالتے ہوں، حکومتی بندوبست کی پالیسیاں جسے قانون کہا جاتا ہے، بناتے ہوں، ایک مخصوص سوچ اور دائرہ کار کے اندر محکوموں کو زندہ رہنے اور اپنے زندگی کی حد تک ضروری معاملات چلانے کی اجازت دیتے ہوں مگر ان کو سوچنے کی آزادی نہ دیتے ہوں اور کوئی سوچ والے اٹھ کھڑے ہوں تو ان کو باغی قرار دے کر سلانے کا بندوبست کرتے ہوں، نو آبادیاتی نظام کہلاتا ہے۔

اس نظام کی کامیابی کا تمام تر دار و مدار اس نظام کے چلانے والوں کی طاقت پر منحصر ہوتا ہے۔ طاقت جسمانی، عددی، معاشی اور نفسیاتی پہلو لیے ہوتی ہے۔ کوئی ایک پہلو کمزور پڑے تو حکومت کی گرفت ڈھیلی پڑ جاتی ہے۔ دوسری جانب محکوم عام طور سے ظلم برداشت کرتے رہتے ہیں لیکن ظلم کے خاف مزاحمت کی انسانی حس راکھ میں دبی چنگاری کی طرح ہوتی ہے جو سلگتی رہتی ہے۔ اس کے سلگنے کی واحد وجہ راکھ کے اندر ہلکی ہلکی ہوا کی آمد و رفت ہوتی ہے جو مناسب ہوا ملنے پر بھڑک اٹھتی ہے۔ محکوم قوم پر ہونے والے چھوٹے چھوٹے ظلم اور دبی دبی ظلم کے خلاف آوازیں اس چنگاری کو سلگائے رکھتی ہیں حتیٰ کہ ایک مضبوط آواز کسی حریت رہنما کی اٹھتی ہے اور یہ چنگاری بھڑک اٹھتی ہے۔

نوآبادیاتی نظام کے خلاف اندر ہی اندر جو چنگاری سلگ رہی تھی اس کو محمد علی جناح نے پوری طرح بھڑکا دیا تھا تو دوسری طرف دوسری عالمگیر جنگ نے انگریز کی کمر توڑ دی اور وہ معاشی اور نفسیاتی محاذ پر کمزور ہو گیا۔ نتیجہ برصغیر کی ٹوٹی پھوٹی آزادی کی صورت نکلا۔

ہندستان کے پاس آزادی کی جنگ لڑنے والوں کی ایک پوری کھیپ موجود تھی اس لیے وہاں کسی حد تک جمہوریت پنپ گئی۔ پاکستان کے پاس ایک ہی ہیرا تھا۔ وہ ایک سال میں کھو گیا۔ ہم جاگیرداریاں ختم نہ کر سکے۔ نوآبادیاتی نظام حکومت کا کوئی متبادل نہ دے سکے۔ چند لوگ جو کہ پہلے ہی انگریز کی خادم تھے مسلط رہے۔ انگریز کے ان وفاداروں نے کمزور آشیانے پر بنے نازک سے ملک کو مضبوط ہونے ہی نہیں دیا۔ مرشد آباد کے میر جعفر تک کی اولاد ہم پر مسلط رہی۔

ایک فالج زدہ مریض کی غیر ملکی سیکرٹری عملاً پاکستان کی حکمران بنی رہی۔ چنانچہ ایک مضبوط اور مستحکم ادارے نے ملک کو مزید پستی میں دھکیلنے کا ٹھیکہ لے لیا۔ اس وقت سے آج تک پاکستان کی زمین پر جب موسم اچھا ہو، فصل اچھی ہو رہی ہو، فصل کو مارکیٹ میں اچھے دام مل رہے ہوں تو مالک خود کاشت کرتے اور منافع کماتے ہیں۔ جب خشک سالی آ جائے، موسم شدید ہو جائے، مارکیٹ متناسب اور مفاد پر مبنی نہ رہے، زمین اپنے وفاداروں کو، اپنے مستأجروں کو دے دیتے ہیں۔یوں وہ کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتے۔

گزشتہ کئی دہائیوں کے مستاجر کاشتکاری اور مڈل کاری کے اتنے ماہر ہو گئے تھے کہ مالکان کو یہ شک پڑنے لگا تھا، کہیں یہ زمین کی ملکیت کا اعلان ہی نہ کر دیں اسی خوف کے پیش نظر ایک پرانے مستاجر پر پابندی لگائی، اس کو ملک سے باہر نکالا، وہ مگر مالکان کے جبر کے خلاف مارکیٹ کو بھڑکانے تل گیا۔ آج وہی مستاجر محکومیت کی دب چنگاری کو مزید سلگا رہا ہے۔ آج بھی زمین مستاجر استعمال کر رہے ہیں، آج کا مستاجر جو کاشتکاری سے نابلد ہے، جسے ہل چلانا نہیں آتا، جسے زمین کے وٹ کا پتہ نہیں چلتا، اسے یہ پتہ نہیں کہ زمین پر وتر آئے تو ہل چلانا ہوتا ہے۔

بدقسمتی سے یہ زمین اب اتنی بنجر ہو چکی ہے اور کارآمد فصل کا کن ایک تو کم ہو چکا اوپر سے عالمی منڈی میں کساد بازاری کا دور دورہ ہونے کی بناء پر اور مستاجر کی نالائقی کی بنا پر مستاجر سے زیادہ مڈل مین منافع کما رہا ہے۔ جب مڈل مین مارکیٹ پر حاوی ہوتا ہے تو مارکیٹ ریٹ بڑھ جاتا ہے۔ موجودہ صورت حال میں عوام مہنگائی کی جس چکی میں پس رہے ہیں، اس کی واحد وجہ مڈل مین کا مارکیٹ پر حاوی ہونا ہے۔ جس کی وجہ سہ سے مالکان اور مستاجر دونوں پریشان ہیں۔ اور عوام میں حکومت سہنے کی طاقت کم ہوتی جا رہی ہے۔ محکومیت کی دبی چنگاری کچھ زیادہ سلگنے لگی ہے جو بھڑک بھی سکتی ہے۔

پاکستان کے انصاف کے اداروں کی ساخت نیچے سے اوپر تک حکومت اور بار کونسلز کی من پسندی کا شکار ہیں اور میرٹ نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی۔ اسی وجہ سے یہ ادارے بہت بڑے کاروبار بن چکے۔ یہ ادارے اب انصاف سے کہیں دور کھڑے نظر آتے ہیں۔

جھوٹ کی فکر بیچتے ہیں
کاغذی عدل بیچتے ہیں

حیرت ہوتی ہے، سینٹ کے انتخاب میں ووٹ کروڑوں میں بکتا ہے تو وزیر اعظم تک چیخ اٹھتے ہیں۔ میڈیا دہائی دینے لگتا ہے۔ سنا ہے بار کونسلز کے ووٹ بھی کروڑوں میں بکتے ہیں ، تب کوئی شور شرابا نہیں ہوتا۔ ججوں کے انتخاب میں یہی بار کونسلز اپنا حصہ طلب کرتی ہیں۔ حکومت اپنے سیاسی حواری وکلاء کو جسٹس بناتی ہے، نتیجے کے طور پر بابے رحمتے وجود میں آتے ہیں، جو انصاف کرتے ہوئے آئین کا سبز پرچم اونچا کرنے کی بجائے قانون کی کالی ڈکشنری کو سربلند کرتے ہیں۔

حکومت اپنے حامیوں کو رشوت کے طور پر نائب تحصیلدار اور پولیس میں اے ایس آئی بھرتی کرتی ہے یہی ترقی کرتے کرتے آئی جی اور کمشنر بنتے ہیں اور سوائے اپنے فرنچائزرز کے کسی کے سکھ میں شامل نہیں ہو سکتے۔

سیاسی پارٹیوں کے لیڈر پارٹی کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں اور وہ عملاً سیاسی جاگیردار بنے ہوئے ہیں۔ یونین کونسل، محلہ، تاون اور شہر کی سطح پر کسی پارٹی کا وجود نہیں۔ الیکشن میں ٹکٹ بکتے ہیں۔ خریدا ہوا ٹکٹ لے کر سیاست دان گلی محلے اور برادریوں کے سربراہوں کی خرید و فروخت کا مرتکب ہوتا ہے۔ جمہوریت کہاں پر ہے؟

حکومت اور فوج کے جو افراد اس وقت بڑی کرسیوں پر براجمان ہیں، چاہیں تو ملک میں ریفارمز کر سکتے ہیں۔ دو تین سال کے بعد ان کے نیچے کرسی نہیں ہونی۔ اس ملک نے انہیں سالہا سال عزت بخشی ہے ، وہ چاہیں تو ملک کو ایک نئے آرڈر میں لا سکتے ہیں۔

سپریم کورٹ کے ججوں کی عمر 62 سال اور ہائکورٹ کے جج 60 سال کر دیں۔
مقابلے کے امتحان کے بعد 55 سال کے سیشن جج ہائیکورٹ لے جائیں۔

سول جج اور ایڈیشنل سیشن جج سی ایس ایس کے مقابلے میں لیے جائیں۔ اور ان کی پروموشن کا طریق کار مقرر کیا جائے۔

سول افسران اور فوج میں ریٹائرمنٹ 58 سال کر دی جائے۔
اینٹی کرپشن اور احتساب کے ادارے ختم کر دیے جائیں۔

ضلعی اینٹی کرپشن بورڈ بنائے جائیں جو ریٹائرڈ جج، فوجی افسر اور سول افسر پر مشتمل ہوں۔ ضلع کی سطح پر اور اسی طرح صوبے اور مرکز کی سطح پر اینٹی کرپشن بورڈ بنائے جائیں۔

محلے اور گاؤں کی سطح پر سیاسی پارٹیاں منظم کی جائیں۔ عہدے دار منتخب کیے جائیں۔
چیف جسٹس اور آرمی چیف دو سال کے لیے اور وزیراعظم صرف ایک ٹرم کے لئے ہو۔

ریٹائرمنٹ کے بعد کسی کو مراعات نہ دی جائیں۔ پنشن سب کا حق ہے۔
گریڈ دس سے اوپر سرکاری ملازم مقابلے کے امتحان کے بغیر نہ بھرتی کیے جائیں۔

مجھے یقین کامل ہے کہ یہ سب میری خودکلامی ہے۔ کوئی ایسے کام کیوں کرے گا جو اس کے مستقبل کی ضمانت نہ دیتے ہوں۔

میری تقدیر نہ بدلے گی کبھی
ملک یہ چوروں سے بستا رہے گا
ظلم کی چکی میں پستے رہیں گے
سر پہ کوئی تو کفن باندھے گا

وہی پھر اس محکومی کی دبی ہوئی چنگاری کو بھڑکائے گا اور ہیرو قائد کہلائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments