کورونا وائرس: دنیا کو ویکسین فراہم کرنے کی دوڑ میں انڈیا کی ایک دوا ساز کمپنی نے کیسے برتری حاصل کی؟


انڈیا، ویکسین

دنیا کو کووڈ ویکسین فراہم کرنے کی دوڑ میں انڈیا کی ایک دوا ساز کمپنی نے برتری حاصل کر رکھی ہے۔ سیرم انسٹیٹیوٹ آف انڈیا (ایس آئی آئی) ایسا نام نہیں جو شاید گھر گھر مشہور ہو لیکن یہ دنیا میں ویکسین بنانے والا سب سے بڑا ادارہ ہے۔

مغربی انڈین ریاست مہاراشٹرکے پونے میں قائم یہ کمپنی اپنے پلانٹ میں ہر سال ڈیڑھ ارب خوراکیں تیار کرتی ہے۔ اس وقت یہ کمپنی ایسٹرا زینیکا جیسی دوا ساز کمپنیوں کے لائسنس کے تحت کووڈ ویکسن تیار کر رہی ہے۔

کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) ادار پونا والا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا: ’ہم نے 2020 میں متعدد ویکسینز پر کام شروع کر دیا تھا جنھیں اس وقت تک منظوری بھی نہیں ملی تھی۔‘

’یہ ایک بہت بڑا لیکن نپا تلا خطرہ تھا کیونکہ ہمیں اپنے پرانے تجربے کی بنیاد پر آکسفورڈ کے سائنسدانوں کی صلاحیتوں پر پورا بھروسہ تھا۔‘

اس سے قبل آکسفورڈ اور ایس آئی آئی نے مل کر ملیریا کی ویکسین تیار کی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

کووڈ 19: کیا پاکستان انڈیا سے کورونا ویکسین لے گا؟

کوویکسِن: انڈیا نے مقامی ویکسین آزمائش مکمل ہونے سے پہلے ہی کیوں منظور کرلی؟

کووڈ ویکسین سے کس کی چاندی ہونے والی ہے؟

سیرم انسٹیٹیوٹ آف انڈیا ایک نجی کمپنی ہے جس کے سبب پونا والا اور متعدد سائنسدانوں کے درمیان فیصلے جلد کیے جا سکے لیکن فنڈز اکٹھا کرنا ایک چیلنج تھا۔

ایس آئی آئی نے کووڈ ویکسین پراجیکٹ میں تقریباً 26 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی اور باقی فنڈ کمپنی نے بل گیٹس جیسے لوگوں اور کچھ دوسرے ممالک سے حاصل کیا۔

مئی سنہ 2020 تک ایس آئی آئی نے کووڈ ویکسین تیار کرنے کے لیے 80 کروڑ ڈالر جمع کر لیے تھے۔

شیشیاں

کمپنی کو معلوم تھا کہ بڑے پیمانے پر ویکسن بنانے کے لیے سب سے بڑی ژرورت شیشیوں کی پڑے گی۔

ویکسین بنانے کی تیاری

لیکن سوال یہ ہے کہ ایس آئی آئی نے کووڈ ویکسین کی اتنی بڑی مقدار بنانے کی تیاری کیسے کی؟

کمپنی کے مطابق اپریل 2020 میں ہی ادار پونا والا نے اس بات کا اندازہ لگا لیا تھا کہ انھیں ویکسین کے شیشوں سے لے کر فلٹرز تک کن کن چیزوں کی ضرورت ہو گی۔

پونے والا نے کہا: ’ہم نے وقت کے ساتھ ہی 60 کروڑ شیشیاں خرید لی تھیں اور ستمبر کے مہینے میں اپنے گوداموں میں محفوظ کر لیں۔ یہ ہماری حکمت عملی کا سب سے اہم حصہ تھا جس کی وجہ سے ہم نے جنوری میں سات سے آٹھ کروڑ خوراکیں تیار کیں۔ یہ اس لیے بھی ممکن ہو سکا کیونکہ ہم نے خطرہ مول لے کر اگست میں ہی ویکسین بنانی شروع کر دی تھی۔

انھوں نے کہا کہ ’کاش باقی کمپنیوں نے بھی اس طرح کا خطرہ مول لیا ہوتا تو دنیا میں آج ویکسین کی بہت زیادہ خوراکیں دستیاب ہوتیں۔‘

ادار پونا والا نے ویکسین کے ریگولیشن کے عالمی نظام اور ان کے مابین ہم آہنگی کی کمی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے ویکسین میں تاخیر کی ایک وجہ قرار دیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’دنیا کی میڈیسن اینڈ ہیلتھ کیئر پروڈکٹس ریگولیٹری ایجنسی (ایم ایچ آر اے)، یورپی میڈیسن ایجنسی (ای ایم اے) اور امریکہ کے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) کو دنیا کی دیگر ریگولیٹری ایجنسیوں کے ساتھ مل کر اس کے معیار کے کنٹرول پر جلد از جلد اتفاق رائے کرنا چاہیے تھی اور ایسا مل کر کیا جاسکتا تھا۔‘

اس بنیاد پر پونا والا نے انڈیا سے لے کر یورپ تک کی حکومتوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ کسی بھی بین الاقوامی معیار پر اتفاق رائے کے لیے متحد ہو سکتے تھے۔

انھوں نے کہا ’ہم اب بھی اس پر اتفاقِ رائے کیوں نہیں کرتے اور وقت کو بچانے کے بارے میں نہیں سوچتے خاص طور پر نئی ویکسین کے لیے اگر مجھے پھر بھی ان سب چیزوں یا پریشانیوں سے گزرنا پڑا تو میں بہت پریشان ہو جاؤں گا۔‘

کووڈ کی نئی اقسام

پونا والا کووڈ کی نئی اقسام کے بارے میں زیادہ فکر مند نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جس نے بھی آکسفورڈ کی آسٹرا زینیکا ویکسین لی ہے اسے ابھی تک ہسپتال نہیں جانا پڑا۔ ایسا کوئی معاملہ سامنے نہیں آیا کہ کسی کو وینٹی لیٹر پر جانا پڑا ہو یا جان کا خطرہ ہوا ہو۔

کمپنی

آکسفورڈ اور ایس ایس آئی نے ملکر ملیریا کی ویکسین بنائی تھی

انھوں نے کہا کہ ’انفیکشن کسی اور کو منتقل ہونے کی خبریں آئی ہیں جو کہ ایک مثالی صورتحال نہیں لیکن اس سے آپ کی زندگی محفوظ ضرور ہوئی ہے۔‘

انڈیا میں سیرم انسٹیٹیوٹ دنیا کی سب سے بڑی ویکسینیشن مہم کا حصہ ہے جس کا مقصد اگست تک 30 کروڑ افراد کو ویکسین لگانا ہے لیکن بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق کووڈ ویکسین لینے کے اہل فی الحال صرف 56 فیصد افراد ویکسین لینے کے لیے آگے آئے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پونا والا نے کہا کہ ’کچھ مشہور شخصیات اور کچھ ایسے لوگ جو اس شعبے کے ماہر نہیں ہیں، کا یہ کہنا کہ کووڈ ویکسین محفوظ نہیں، جس کے باعث بہت سارے لوگ کووڈ ویکسین کے بارے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔‘

یہی وجہ ہے کہ ’میں مشہور شخصیات اور ایسے دوسرے تمام لوگوں سے جن کا سوشل میڈیا پر خاصا اثر ہے درخواست کرتا ہوں کہ وہ انتہائی ذمہ داری سے بولیں اور حقائق کو جانے بغیر ان موضوعات پر بات نہ کریں۔‘

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32499 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp