گلیشیئر: ہمالیہ کی چوٹیوں سے جنم لینے والے خطرات جن پر کسی کی نظر نہیں


Hindu pilgrims camping outside Amarnath caves

گلیشئر جن کے پگھنے سے ان کے نیچے زمین کمزور پڑ جاتی ہے جو قدرتی آفات کا باعث بنتی ہے

سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے میں گلیشیئروں کے پگھلنے سے نہ صرف ان پہاڑوں میں جھیلوں کی سطح خطرناک حد تک بلند ہو رہی ہے بلکہ اس سے اور بھی خطرات جنم لے رہے ہیں جن پر کسی کی نظر نہیں ہے۔

انڈیا کی ریاست اتراکھنڈ میں برفانی تودوں کے پگھلنے سے آنے والے اچانک تباہ کن سیلاب کی مثال دیتے ہوئے انھوں نے کہا ہے کہ یہ قدرتی آفت اس بات کی واضح نشاندہی کرتی ہے کہ اس بارے میں ہمیں کس قدر کم علم ہے۔

قطبین کے بعد کوہ ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے میں سب سے زیادہ گلیشیئر ہیں۔ کرۂ ارض کا درجہ حرارت تیزی سے بڑھنے کی وجہ سے اربوں ٹن برف پگھل چکی ہے۔

امریکہ میں ماہر ارضیات پروفیسر جیفری کرگل نے بے شمار قدرتی آفت کا تجزیہ کیا ہے اور وہ انڈیا کی ریاست اتراکھنڈ میں آنے والے سیلابی ریلے پر بھی تحقیق کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اتراکھنڈ میں آنے والے سیلابی ریلے جیسی قدرتی آفت کے بعد ہم حرکت میں آتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ اصل میں کیا ہو رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’ہماری گلیشیئروں کے پگھلنے پر کوئی توجہ نہیں ہے جو ان تباہ کن قدرتی آفات کا باعث بن سکتے ہیں۔‘

سکڑتے ہوئے گلیشیئروں سے لاحق خطرات

ماہرین کا کہنا ہے کہ جب گلیشیئر سکڑتے ہیں تو ان میں کچھ خطرات کا سبب بن سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب گلیشیئر سکڑتے ہیں تو باقی بچ جانے والی برف پہاڑیوں کی عمودی چٹانوں پر جمی رہ جاتی ہے۔ یہ برف کسی بھی وقت برفانی تودوں کی شکل میں گر سکتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ گلیشیئروں کے پگھلنے کی وجہ سے ان کے ارد گرد زمین کی مٹی نرم پڑ جائے جو کہ برف کے نیچے جمی رہتی ہے۔

اس عمل کی وجہ سے ‘لینڈ سلائڈ’ یا مٹی کے تودوں کے اپنی جگہ سے کھسکنے، چٹانوں کے ٹوٹ کر گرنے اور برف کے تودوں کے گرنے کے خطرات پیدا ہو جاتے ہیں اور کچھ جگہوں پر تو پہاڑیوں کی ڈہلوانوں کے کچھ حصے ہی اپنی جگہ چھوڑ کر انتہائی خوفناک قدرتی آفت کا باعث بن سکتے ہیں۔

A hydropower dam that was hit by the flash-flood in Chamoli district of Uttarakhand state in India on 7 February

ہمالیہ کے حصوں میں بنائی گئے ڈیم سیلابی ریلوں کے خطرے میں ہیں

سائنسدانوں کا کہنا ہے ٹوٹ پھوٹ کے اس عمل سے دریا اور ندی نالوں کی گزر گاہیں بند ہو کر قدرتی جھیلوں کا رخ اختیار کر سکتی ہیں جن کے اچانک بہہ نکلنے سے سیلابی ریلے آ سکتے ہیں بالکل اسی طرح جو ابتدائی تحقیقات کے مطابق اتراکھنڈ میں ہوا۔

گلیشیئروں پر نظر رکھنے میں مشکل

ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے کے انتہائی دشوار جغرافیے کی وجہ سے وہاں موجود گلیشیئروں پر مستقل نظر رکھنا انتہائی مشکل کام ہے۔

انڈیا کے شہر اندور میں واقع انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ماہر ارضیات محمد فاروق اعظم کا کہنا ہے کہ ہمالیہ اور ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں میں پچاس ہزار سے زیادہ گلیشیئر ہیں جن میں صرف 30 کی مسلسل نگرانی کی جا رہی ہے۔

انھوں نے کہا کہ صرف 15 گلیشیئروں پر ہونی والی تحقیق کو اب تک شائع کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہمیں اپنے گلیشیئروں پر مستقل نظر رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان پر بہت سے چیزیں اثر انداز ہو رہی ہیں۔‘

زلزلے اور موسم

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ہمالیہ کی پہاڑیوں کی عمر دنیا بھر کے پہاڑی سلسلے کے مقابلے میں ابھی بہت کم ہے اور یہ ابھی مزید بلند ہو رہی ہیں جن کی وجہ سے آنے والے زلزلے ڈھلوانی حصوں کو غیر مستحکم کر دیتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے برف باری اور بارشوں کے اوقات اور شدت میں تبدیلی سے یہ پہاڑیاں مزید کمزور ہو جاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عالمی ہدت میں اضافے کی وجہ سے گلیشیئر اس صورت حال کو مزید خطرناک بنا دیتے ہیں۔

تبت کے علاقے میں ارو کے پہاڑوں میں سنہ 2016 میں اچانک ایک گلیشیئر پگھل کر گر گیا تھا۔ اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے برف کے ریلے سے نو افراد ہلاک اور سینکڑوں مویشی ضائع ہو گئے تھے۔

اس پہاڑی سلسلے میں چند ماہ بعد ہی ایک اور گلیشیئر غیر متوقع طور پر پگھل کر گر گیا۔ اس طرح کے ایک واقعے میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں سیاچین گلیشیئر پر سنہ 2012 میں برفانی ریلے کی وجہ سے پاکستان کی فوج کے 140 جوان برف کے نیچے دب کر ہلاک ہو گئے تھے۔

A study has linked larger and frequent landslides in high mountains of Asia to retreat of glaciers

تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ گلیشیئر کے پگھلنے سے پہاڑی تودے گرنے کا خطرہ بھی پیدا ہو جاتا ہے

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ٹھوس برف کا ریلا تھا لیکن اس کے آنے کی وجہ آج تک ثابت نہیں ہو سکی ہے۔

کم گلیشیئر زیادہ لینڈ سلائیڈ

ایشیا کے اونچے پہاڑی سلسلوں پر، جن میں ہمالیہ کے مغربی حصے، مشرقی پامیر، قراقرم اور ہندو کش پہاڑی سلسلے کے جنوبی حصے شامل ہیں، ہونے والی ایک تازہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ سنہ 1999 اور 2018 میں ان علاقوں میں مٹی کے تودے گرنے اور چٹانوں کے کھسکنے کی بڑی وجہ گلیشیئروں کا پگھلنا ہے۔

چین کی اکیڈمی آف سائنس میں کام کرنے والے ماہرین نے امریکی جیولوجیکل سروے کے اشتراک سے سیٹلائٹ کی مدد سے ان علاقوں پر ایک تحقیق کی تھی جس کے مطابق یہاں سنہ 2009 اور سنہ 2018 کے درمیان لینڈ سلائیڈنگ کے 127 واقعات پیش آئے۔

‘ہمارے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ ایک دہائی میں بڑی بڑی لینڈ سلائیڈنگ کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔’

Hindu pilgrims visiting Amarnath

ہمالیہ میں چند ہی گلیشیئروں پر تحقیق ہو رہی ہے

گزشتہ جنوری میں ‘نیچر’ نامی جریدے میں شائع ہونے والی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق سکڑتے ہوئے گلیشیئروں کی وجہ سے لینڈ سلائیڈنگ کے علاقوں میں اضافہ ہوا ہے۔

امریکی خلائی ادارے ناسا میں ہائڈرولوجیکل سائنس لیب کے سربراہ ڈالیا کرشوبوم کا کہنا ہے کہ گلیشیئر کے پگھلنے سے پیدا ہونے والے خطرات واضح ہو رہے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ گلیشیئروں کی وجہ سے پہاڑوں پر بڑی بڑی چٹانیں جمی رہتی ہیں اور گلیشیئروں کے پگھلنے سے یہ چٹانیں کمزور ہو کر اپنی جگہ چھوڑ دیتی ہیں۔

ایک کرائسوسپھیر کے خطے پر ماحولیاتی تبدیلی کے بین الحکومتی ادارے (آئی پی سی سی) کی طرف سے سنہ 2018 میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق گلیشیئر کے پگھلنے اور برفانی علاقوں میں برف کے نرم پڑنے سے پہاڑوں کی چٹانیں غیر مستحکم ہو گئی ہیں۔

کرائسو سپھیر دنیا کو وہ خطہ ہے جہاں پانی گلیشیئروں کی طرح منجمد ہے یا برف کی دبیز چادر ہے اور منجمد سمندر ہیں۔

گلیشیئروں کی جھیلوں پر توجہ

Annapurna base camp in western Nepal

زلزلوں سے بھی گلیشیئروں پر فرق پڑتا ہے

ہمالیہ کے گلیشیئروں پر آج تک جتنی بھی تحقیقات کی گئیں ہیں ان کی توجہ برف کے تیزی سے پگھلنے پر ہی رہی ہے چاہیے یہ پہاڑوں کی جھیلوں میں پانی کی سطح خطرناک حد تک بڑھ جانے سے ان کے بہہ جانے کے خطرے کے متعلق ہی ہوں۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ گلیشیل جھیلوں پر ہی توجہ رہی ہے لیکن اس سے پیدا ہونے والے دیگر خطرات کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔

امریکہ میں یونیورسٹی آف یوٹا کے پروفیسر سمر روپر نے ہمالیہ کے گلیشیئروں میں آنے والی تبدیلیوں پر تحقیق کی ہے ان کا کہنا ہے اس مسئلہ پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی ہے۔

انٹرنیشنل سینٹر آف انٹی گریٹڈ ماونٹین ڈویلپمنٹ کے ماہرین جو ہمالیہ کے خطے میں کئی برسوں سے کام رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ گلیشیئروں کے پگھلنے سے بنی والی جھیلوں کی وجہ سے آنے والے سیلابی ریلوں نے تاریخی طور پر زیادہ مسائل پیدا کیے ہیں۔

سینٹر آف کرئوسپھیر میں اس پروگرام کی رابطہ کار مریم جیکسن نے کہا کہ یہ سیلابی ریلے ان گلیشیئروں سے کافی دور آباد لوگوں کو بغیر کسی پیشگی اطلاع کے اچانک آ لیتے ہیں اور اس ہی وجہ سے یہ زیادہ خطرناک ہو جاتے ہیں۔

منجمد جھیلوں پر تحقیق

انڈیا میں سرکاری ایجنسیوں پر تنقید کی گئی ہے کہ انھوں نے اس خطرے پر مناسب طریقہ سے توجہ نہیں دی۔

انڈیا میں وزارتِ سائنس کے تحت کام کرنے والے ایک آزاد ادارے واڈیا انسٹی ٹیوٹ آف ہمالیئن جیولوجی سے حال ہی میں ریٹائر ہونے والے ماہر ارضیات ڈاکٹر ڈی پی ڈوبھال کا کہنا ہے کہ ’ہم نے سنہ 2009 میں گلیشیئر پر تحقیق کرنے کے لیے ایک مرکز بنایا تھا جس کو بعد میں انڈیا کا نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف گلیشیئر سٹڈی بنایا جانا تھا۔ ‘

انھوں نے کہا ایسا نہیں ہو سکا اور اس کے نتیجے میں گلیشیئروں پر ہونے والی تحقیق بری طرح متاثر ہوئی اور اس کی وجہ سے ایک درجن سے زیادہ ماہرین ارضیات بے روز گار ہو گئے۔

چند ماہرین کا خیال ہے کہ انڈیا کو اپنے ہمسایہ ملکوں چین اور پاکستان سے کشیدگی کی وجہ سے بھی ہمالیہ کی پہاڑیوں پر سرحدوں میں بٹے گلیشیئروں پر تحقیقات میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔

سمندروں اور منجمد خطوں پر ہونے والی تحقیق میں شامل انجل پرکاش کا کہنا ہے کہ ان ملکوں کو تعاون کرنا پڑے گا اور معلومات کا تبادلہ کرنا پڑے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ صرف اسی صورت میں گلیشیئروں کے پگھلنے سے پیدا ہونے والے خطرات کا درست طور پر اندازہ ہو پائے گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp