پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری انڈیا سے دھاگہ کیوں درآمد کرنا چاہتی ہے؟


دھاگہ

پاکستان میں وزیر اعظم کے مشیر تجارت رزاق داؤد نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے ملک میں سوتی دھاگے (کاٹن یارن) کی کمی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل سیکٹر کی برآمدات میں اضافے کے رجحان کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری اقدامات اٹھائے جائیں جن میں سرحد پار سے سوتی دھاگے کی درآمد بھی شامل ہے۔

سرحد پار کس ملک سے سوتی دھاگے کی درآمد کی جائے گی، اس بات کی نشاندہی تو مشیر تجارت نے نہیں کی تاہم ٹیکسٹائل شعبے سے وابستہ افراد اسے انڈیا سے درآمد سے تعبیر کر رہے ہیں۔

کونسل آف آل پاکستان ٹیکسٹائل ایسوسی ایشنز کے چیئرمین زبیر موتی والا کا کہنا ہے کہ ’ہمارے شعبے کی جانب سے سوتی دھاگے کی انڈیا سے درآمد کا مطالبہ کیا گیا تھا اور مشیر تجارت کے ٹویٹ سے یہی مراد ہے۔‘

تاہم انھوں نے کہا کہ انڈیا سے درآمد اس وقت ممکن ہو گی جب باقاعدہ ایک نوٹیفکیشن جاری ہو گا۔

مگر وزارت تجارت کی پارلیمانی سیکرٹری عالیہ حمزہ ملک نے بی بی سی اردو کے رابطہ کرنے پر انڈیا سے سوتی دھاگے کی درآمد کی رپورٹس کو مسترد قرار دیتے ہوئے کہا کہ مشیر تجارت کی سرحد پار سوتی دھاگے کی درآمد سے مراد وسطیٰ ایشیا سے درآمد ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کیا پاکستانی ٹیکسٹائل صنعت عالمی سطح پر انڈیا کی جگہ لے رہی ہے؟

’کشمیر کی تحریک پہلی ترجیح، تجارت دوسرے نمبر پر‘

ہندوستانی ململ جس کی شہرت تجارت کا ذریعہ بھی بنی، غلامی کا طوق بھی

انڈیا سے سوتی دھاگے کی درآمد کے بارے میں پاکستان کے زرعی شعبے کو فی الحال کوئی خدشات لاحق نہیں تاہم اس شعبے کے ماہرین کے مطابق اگر زیادہ دھاگہ درآمد کر لیا گیا تو اگلے سال ملک میں کاٹن کی قیمت کم ہو گی۔

پاکستان میں ٹیکسٹائل کا شعبہ اس وقت بہتر کارکردگی دکھا رہا ہے اور اس کی برآمدات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے تاہم ملک میں کاٹن کی پیداوار میں ریکارڈ کمی اور اس کی وجہ سے اس شعبے کے لیے خام مال کی دستیابی اس وقت بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔

https://twitter.com/razak_dawood/status/1367087485902344196

پاکستان میں ٹیکسٹائل کا شعبہ دھاگے کی درآمد تو کی جا رہی ہے تاہم ان کی جانب سے انڈیا سے اس کی درآمد کی اجازت کا مطالبہ سامنے آیا ہے۔ ملک میں دھاگہ بنانے والی صنعت نے اس مطالبے کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں دھاگے کی دستیابی کوئی مسئلہ نہیں اور اس کو جواز بنا کر انڈیا سے دھاگے کی درآمد کا مطالبہ صحیح نہیں۔

پاکستان میں دھاگے بنانے کی صنعت اور ڈاؤن سٹریم ٹیکسٹائل کی صنعت جس میں ہوم ٹیکسٹائل اور ویلیو ایڈڈ سیکٹر آتا ہے، ان کا اس معاملے پر مؤقف کیوں مختلف ہے اس پر دونوں شعبوں کے افراد انڈیا سے دھاگے کی برآمد کو صرف تجارتی تناظر میں دیکھنے پر زور دیتے ہیں۔

دوسری جانب اسے پاکستان اور انڈیا کے درمیان سیاسی تعلقات میں دیکھنے کا مؤقف اپنایا گیا ہے اور خاص کر انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ہونے والے مظالم کو بھی اس سے جوڑا گیا ہے۔

دھاگہ

ٹیکسٹائل شعبے کے افراد کے مطابق انڈیا سے دھاگہ پاکستان میں ابھی بھی آ رہا ہے تاہم وہ دوسرے ممالک کے ذریعے پہنچ رہا ہے جیسا کہ خلیجی ریاستوں کے ذریعے پہنچنے والا دھاگہ تاہم شپنگ چارجز کے سبب یہ بھی مہنگا پڑتا ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان نے دو سال قبل سفارتی کشیدگی کے بعد انڈیا سے تجارتی تعلقات کو محدود کرتے ہوئے اس کے ساتھ دو طرفہ تجارت کو معطل کر دیا تھا۔

کیا انڈیا سے دھاگہ درآمد ہونا چاہیے؟

پاکستان کی ہوم ٹیکسٹائل صنعت کو دھاگہ فراہم کرنے کے لیے انڈیا سے دھاگے کی درآمد کے سلسلے میں زبیر موتی والا نے کہا کہ موجودہ دور اوپن مارکیٹ کا دور ہے جہاں سے سستا خام مال ملتا ہو وہاں سے خریدنا چاہیے۔

انھوں نے کہ اوپن مارکیٹ میں مسابقت ہوتی ہے اور اس بنیاد پر آپ کی پراڈکٹ کو مسابقتی برتری حاصل ہوتی ہے کہ آپ کی پراڈکٹ کتنی کم قیمت ہے۔

انھوں نے کہ جب انڈیا سے کم قیمت پر دھاگہ دستیاب ہے تو پھر کیوں دنیا کے دوسرے ملکوں سے اس کو درآمد کرنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ واہگہ بارڈر سے سٹرک کے ذریعے جو دھاگہ درآمد ہو گا وہ دوسرے ملکوں سے بحری جہازوں پر آنے والے دھاگے سے بہت زیادہ سستا ہو گا۔

انھوں نے انڈیا سے ٹیکسٹائل کے لیے دھاگے کی صنعت پر اعتراض کرنے والوں کے جواب میں کہا کہ یہ اعتراض ملک میں ادویات بنانے کے لیے انڈیا سے آنے والے خام مال پر کیوں نہیں اٹھایا جاتا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ انڈیا سے تجارتی روابط کے حق میں ہیں۔

’دنیا بدل رہی ہے اور ہمیں بھی اس کے مطابق اپنے آپ کو بدلنا ہو گا۔ انڈیا کو 22 کروڑ پاکستانیوں کی مارکیٹ ملے گی تو پاکستان کو ایک ارب سے زائد کی انڈین کی مارکیٹ بھی ملے گی جس میں مڈل کلاس طبقے کی ایک بڑی تعداد ہے۔‘

دھاگہ

انھوں نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ پاکستان انڈیا سے ٹیکسٹائل کی مصنوعات میں مقابلہ نہیں کر سکتا۔ انھوں نے بتایا کہ بہت سارے شعبوں میں پاکستان کو برتری حاصل ہے۔

انھوں نے ماضی میں انڈیا اور پاکستان کی جانب سے لان کی نمائش میں دونوں ملکوں کی مصنوعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انڈین خواتین ایک بھی پاکستانی لان نہیں چھوڑتی تھیں اور نمائش میں مجسمے پر رکھے گئے لان کا آخری جوڑا بھی اتار کر لے جاتی تھیں جو پاکستانی مصنوعات کی کوالٹی کا ثبوت ہے۔

ہوم ٹیکسٹائل کے شعبے سے وابستہ صنعتکار مرزا اختیار بیگ نے بھی انڈیا سے دھاگہ درآمد کرنے کی حمایت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس شعبے کو ایسا خام مال چاہیے جو سستے نرخوں پر ملے اور اس سے تیار ہونے والی مصنوعات بین الاقوامی مارکیٹ میں مسابقتی سبقت برقرار رکھ سکیں۔

انھوں نے کہا ’پاکستان میں دھاگہ بنانے والی صنعت موٹا دھاگہ بناتی ہے لیکن لان کی تیاری میں پتلا دھاگہ استعمال ہوتا ہے جو باہر سے درآمد کرنا پڑتا ہے اور دوسرے ممالک کے مقابلے میں انڈیا سے یہ سستا مل سکتا ہے۔‘

دھاگہ بنانےوالی صنعت کا مؤقف کیا ہے؟

کراچی میں قائم سپننگ مل کے مالک آصف انعام نے کہا کہ ملک میں اس وقت دھاگے کی کوئی کمی نہیں اور مقامی صنعت کے ساتھ درآمد شدہ دھاگہ ڈاون سٹریم ٹیکسٹائل انڈسٹری کی ضرورت کو پورا کر رہا ہے۔

ان سے جب انڈیا سے دھاگے کی درآدمد متعلق سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ انڈیا سے اس کی درآمد بالکل نہیں ہونی چاہیے۔

انھوں نے کہا ’جو لوگ ایسا مطالبہ کر رہے ہیں انھیں پہلے انڈیا سے پاکستان کی مقامی صنعت کے لیے بھی اپنی مارکیٹ کھولنے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔‘

آصف انعام نے کہا کہ انھیں تو ادویات بنانے والی صنعت کے لیے خام مال کی درآمد پر بھی اعتراض ہے۔ ’جب انڈیا نے ہمارے تجارتی شعبے کے لیے اپنی مارکیٹ بند کر دی تھی تو ہمیں بھی ہر قسم کی تجارت کو بند کر دینا چاہیے۔ ملکی عزت و وقار کو ہر شعبے کی طرح تجارت میں بھی مد نظر رکھنا ہو گا۔‘

دھاگہ

ٹیکسٹائل صنعت کا مؤقف کیا ہے؟

ملک میں ٹیکسٹائل کے شعبے کی سب سے بڑی تجارتی ایسوسی ایشن آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) نے پاکستان ہوزری مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی ایچ ایم اے) اور پاکستان ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن (پی ٹی ای اے) کی جانب سے ان بیانات کو سختی سے مسترد کیا ہے جن میں ملک میں دھاگے کی کمی کا ذکر کیا گیا ہے اور اس کی بنیاد پر انڈیا سے درآمد کی تجویز دی گئی ہے۔

اپنے ایک تحریری بیان میں اپٹما کے سینئیر وائس چیئرمین زاہد مظہر نے کہا کہ یارن استعمال کرنے والے شعبے کو دھاگہ بنانے والی صنعت کی جانب سے اپنی لاگت سے کم نرخ پر یارن کی فراہمی کی توقع نہیں رکھنی چاہیے بلکہ انھیں نئے مواقع ڈھونڈ کر اپنے منافع کو بڑھانے کے لیے کام کرنا چاہیے۔

انھوں نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی کہ یارن کی ذخیرہ اندوزی یا اسے زیادہ قیمت پر بیچا جا رہا ہے۔

زاہد مظہر نے کہا کہ ویلیو ایڈڈ شعبہ ہر سال تین فیصد کے رعایتی شرح سود پر 400 ارب روپے کی ری فنانسنگ کی سہولت سے مستفید ہوتا ہے جسے انھیں اپنی یارن کی ضروریات پورا کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں اور اسے کرنا بھی چاہیے۔

’یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ سستی ری فنانسنگ کی دستیابی کے باوجود یہ شعبہ بر وقت یارن خریدینے میں مشکلات کا شکار رہتا ہے۔ اس کے لیے دھاگہ بنانے والی صنعت کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔‘

زاہد مظہر کے بیان میں انڈیا سے دھاگے کی درآمد کو پاکستان کی مقامی صنعت کے لیے ایک خطرہ قرار دیا گیا۔

’انڈیا سے کاٹن یارن کی درآمد سے ایک جانب پاکستان کی دھاگہ بنانے والی صنعت بحران کا شکار ہو گی جس کا نتیجہ فیکٹریوں کی بندش میں نکلے گا تو دوسری جانب یہ انڈیا کی معیشت اور اس کی دھاگہ بنانے والی صنعت کو مضبوط کرے گا۔‘

انھوں نے کہا ’انڈیا اقوام متحدہ اور دوسرے بین الاقوامی اداروں کی جانب سے پاس کی جانے والی قراردادوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور اپنے زیر انتظام کشمیر پر قبضہ کر کے وہاں رہنے والے کشمیریوں کو ان کا حق آزادی نہیں دے رہا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’انڈیا سے کاٹن یارن کی درآمد کشمیریوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔‘

دھاگہ

کاٹن اور دھاگے کے شعبے کی عمومی صورت حال

ادارہ شماریات پاکستان کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے اپٹما کے سینئر وائس چئیرمین زاہد مظہر نے کہا کہ جولائی 2020 سے دسمبر 2020 تک ملک میں کاٹن یارن کی مجموعی پیداوار 1715665 ٹن تھی جو گذشتہ برس کے اس عرصے میں 1714715 ٹن تھی۔

انھوں نے کہا ’یارن کی اس مجموعی پیداوار میں سے صرف دس فیصد اس مالی سال کی پہلی ششماہی میں برآمد کی گئی جب کہ نوے فیصد ملکی صنعت کے لیے دستیاب تھی، اس میں سے مقامی صنعت سے 70 فیصد یارن استعمال کر لیا ہے جبکہ ابھی بھی 20 فیصد فاضل یارن موجود ہے۔‘

زاہد مظہر نے نشاندہی کی کہ اصل مسئلہ کپاس کی فصل کی سکڑتی پیداوار ہے جس کی پیداوار میں گذشتہ چند برسوں میں بہت زیادہ کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

’اس سیزن میں کاٹن کی کی 55 لاکھ گانٹھوں کی پیداوار کا تخمینہ ہے جو تاریخی طور پر اس کی بدترین پیداوار ہے۔ پاکستان میں کاٹن کی ڈیڑھ کروڑ گانٹھوں کی سالانہ کھپت ہوتی ہے اور سب سے زیادہ آج تک ایک کروڑ پینتالیس لاکھ گانٹھوں کی پیداوار حاصل کی جا سکی ہے۔‘

کاٹن یارن کی قیمتوں میں اضافے پر بات کرتے ہوئے زاہد مظہر نے کہا کہ اس کی وجہ کاٹن کی قیمت ہے جو 12000 فی من تک چلی گئی ہے جب کہ باہر سے درآمد ہونی والی کاٹن میں بھی 95 سینٹ فی پاونڈ کا اضافہ ہوا ہے جو 11500 فی من کے برابر ہے۔

انھوں نے کہا کیونکہ دھاگہ بنانے والی صنعت مقامی اور بیرون ملک مارکیٹ سے اس سال مہنگی کاٹن خرید رہی ہے اس لیے اس صنعت کی کاروباری لاگت بھی گذشتہ سال کے مقابلے میں بڑھ گئی ہے۔

زاہد مظہر نے کہا کہ یارن استعمال کرنے والے شعبے کو دھاگہ بنانے والی صنعت کی جانب سے اپنی لاگت سے کم نرخ پر یارن کی فراہمی کی توقع نہیں رکھنی چاہیے بلکہ انھیں نئے مواقع ڈھونڈ کر اپنے منافع کو بڑھانے کے لیے کام کرنا چاہیے۔

انھوں نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی کہ یارن کی ذخیرہ اندوزی یا اسے زیادہ قیمت پر بیچا جا رہا ہے۔

مرزا اختیار بیگ کا کہنا ہے کہ مقامی مارکیٹ میں کاٹن کی قیمت بڑھنے کی وجہ سے یارن کی قیمت بھی بڑھ چکی ہے جو ان کے اندازے کے مطابق 40 فیصد بڑھ چکی ہے۔ انھوں نے کہا یہ بڑھی ہوئی قیمت پاکستان کے ویلیو ایڈڈ سیکٹر کی کمپیٹیشن کی صلاحیت کو متاثر کر رہا ہے۔

’بنگلہ دیش انڈیا سے کاٹن اور دھاگہ خریدتا ہے اور وہ زمین کے راستے وہاں پہنچ جاتا ہے۔ یہ ہمارے ہاں بھی ہو سکتا ہے جبکہ یہی دھاگہ دوسرے ممالک کے ذریعے ہم تک مہنگے داموں پہنچتا ہے۔‘

کاٹن کے شعبے کے ماہر احسان الحق نے کہا کہ اگر انڈیا سے دھاگے کی درآمد ہوتی ہے تو اس سے کاٹن کے زرعی شعبے کو فی الحال کوئی خطرہ نہیں تاہم اگر یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ پاکستان میں کاٹن کی کاشت کا سیزن شروع ہو چکا ہے اور سندھ کے جنوبی اضلاع میں اس کی کاشت ہو رہی ہے یہ فصل جون میں جننگ فیکٹریوں میں پہنچنا شروع ہو جائے گی۔

ان کے مطابق اگر انڈیا سے بہت بڑی تعداد میں یارن کی درآمد ہوتی ہے تو یہ اگلے سیزن میں کپاس کی فصل کی قیمتوں کو متاثر کر سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32295 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp