مشرقی اقدار، یوم خواتین اور مشرق کی عائشہ


آج کل سوشل میڈیا پر خواتین کے عالمی دن کو لے کر خوب گہما گہمی ہے۔ کہیں مختلف نعروں کے حق میں دلائل دیے جا رہے ہیں تو کہیں ان پر طنز فرما کر اپنی ذہانت اور قابلیت وغیرہ کا ثبوت دیا جا رہا ہے۔ یہ رائے کا اختلاف ہے جو کہ ایک بنیادی انسانی حق ہے۔

راقم کی نظر میں اختلاف کسی بھی گھر یا معاشرے کے لئے بہت اہم ہے۔ یہ تنوع اور خوبصورتی ہے۔ اختلاف رائے کے بغیر زندگی آگے نہیں چل سکتی کیونکہ اختلاف سوالات کو جنم دیتا ہے اور سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کی جستجو ہی دراصل کسی فرد یا معاشرے کو غار سے بنگلوں تک لے جا سکتی ہے۔ اختلاف پر اعتراض ممکن نہیں البتہ اختلاف کرنے کے طریقہ کار پر ضرور بحث ہو سکتی ہے کیونکہ اختلاف ایک نہایت مثبت عمل ہے لہٰذا اس کا اظہار بھی مثبت مدلل اور شائستہ انداز سے کیا جانا لازم ہے۔

اس میں کچھ شک نہیں کہ ہمارے ہاں مذہبی، نصابی اور بہت سی غیر نصابی کتب اور دیگر مطبوعات خواتین کے بلند مرتبے، تکریم اورآزادی کے حوالے سے اقوال زریں اور دعوؤں سے بھری پڑی ہیں۔ ایسی خوبصورت باتیں اور بیانات جو کہ کانوں کو بہت راحت بخشتے ہیں۔ جب کہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ ہم میں سے کتنے لوگ اپنی بہن بیٹی کو اپنی ہی رہائشی آبادی کے بس سٹاپ یا محلے کی دکان یا مارکیٹ تک بے فکر تنہا بھیج سکتے ہیں؟ یہ ایک سوال ہی ان بیانات اور دعوؤں کی طبیعت ہلکی پھلکی کرنے کے لئے کافی ہے۔

آج کل بھارت سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون مسماۃ عائشہ کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ ایک انتہائی کربناک اور تکلیف دہ معاملہ ہے۔ یہ عائشہ صرف بھارت نہیں بلکہ وطن عزیز کی بھی نمائندہ ہے۔ اس نے یہ کام اضافی کیا ہے کہ اس نے اعلان کرنے کے بعد موت کو گلے لگایا ہے۔ لیکن لاکھوں ایسی بیٹیاں روزانہ چپ چاپ یا تو زندگی پر موت کو ترجیح دینے پر مجبور ہوتی ہیں یا پھر زندہ نعشوں میں ڈھل کر اپنے دفن کیے جانے کے وقت تک چلتی پھرتی اور اپنی سانس چلنے کی قیمت ادا کرتی رہتی ہیں۔

ہمارے عمومی رویے کچھ اس طرح کے ہیں کہ ایک دفعہ ناچیز کی ایک رفیق کار جو کہ خود وکیل بھی تھیں ، بڑے فخر سے بتانے لگیں کہ میرے والد صاحب میری بہت حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور ہمیشہ سینہ ٹھونک کر ایک بات کرتے ہیں کہ یہ میری بیٹی نہیں بلکہ بیٹا ہے۔ تو خاکسار نے گزارش کی کہ یہ تعریف سے زیادہ بہت ہی شائستہ انداز میں برتا جانے والا تعصب ہے۔

ہمارے ہاں یہ فقرہ بہت ہی عمومی استعمال میں ہے جو کہ سننے میں بھلا اور راحت افزا ہے لیکن اس کی تشریح یہ ہے کہ اگر بیٹی میں خود اعتمادی، ذہانت، ثابت قدمی، اولوالعزمی اور بہادری جیسے اوصاف ہیں اور وہ آگے بڑھنے اور خود کو ثابت کرنے کی قابلیت اور چاہت رکھتی ہے تو یہ اوصاف ہمیں اس میں بطور بیٹی قبول نہیں کیونکہ ہمارے حساب سے یہ بیٹے کی خصوصیات ہیں ، لہٰذا ہم ان خواص کو بیٹی سے منسوب کرنے کی بجائے ان خصوصیات کی بنیاد پر اسے بیٹا قرار دینا زیادہ مناسب سمجھتے ہیں۔ دوسری وجہ شاید بیٹا کہہ کر بیٹی کا قد ایک درجہ بڑھانے کا احسان بھی کر رہے ہوں۔ لیکن اسی اثنا میں ہم اس سے بطور بیٹی یعنی خاتون کے اسے تسلیم کرنے یا ان خصوصیات کی حامل ہونے کے قابل نہیں سمجھتے۔

انسانی حقوق کی ایک تربیتی نشست کا ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیں کہ سوال کیا کہ ایک قدیم چینی کہاوت کہ تین چیزیں فساد کی جڑ ہیں۔ ”زن، زر، زمین“ ۔ جو کہ چین والے تو شاید بھول بھی چکے ہوں لیکن ہمارے ہاں وہ کسی صحیفے کی طرح آج بھی اشاعت اور تبلیغ کا درخشاں حصہ ہے کیوں؟ تو جواب ملا کہ کیونکہ یہ صداقت پر مبنی ہے۔ گزارش کی کہ زر اور زمین دونوں جائیداد کے زمرے میں آتے ہیں جبکہ تیسرا رکن ایک جیتا جاگتا انسان ہوتا ہے۔

انسان کو جائیداد جیسا کیونکر سمجھا جا سکتا ہے یا جائیداد جیسا سلوک کیسے کیا جاسکتا ہے تو ایک صاحب جو کہ اپنے ہی ایک ذاتی نجی سکول کے صدر مدرسہ بھی تھے قدرے غصے والے انداز میں گویا ہوئے کہ آپ بتائیں کہ زن کس طرح جائیداد نہیں۔ موصوف کے کوائف کے اعتبار سے یہ سوال قدرے چونکا دینے والا تھا ، بہر حال جواب تو دینا ہی تھا تو گزارش کی کہ آپ اپنا گھر، دفتر، سکول یا زرعی اراضی یا دیگر کوئی بھی جائیداد جب چاہیں بیچ سکتے ہیں، کسی کو تحفے میں دے سکتے ہیں، گروی رکھ سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ لیکن کیا ان میں سے کوئی بھی ایک عمل آپ اپنے خاندان کی کسی خاتون کے ساتھ کرنے کا مذہبی، اخلاقی یا قانونی جواز رکھتے ہیں؟ اور دوم یہ کہ فتنے کا تعلق ان ارکان سے نہیں بلکہ ان سے جڑے ہوئے حق ملکیت کے احساس اور ہوس سے ہے۔

ہمارے ہاں اکثریت میں چونکہ معاشی کفالت کی ذمہ داری مرد سر انجام دے رہے ہوتے ہیں اور پسماندہ یا ترقی پذیر ملکوں میں معاش ہی کو بنیادی حیثیت دی جاتی ہے ، لہٰذا معاشی کفالت کرنے والے اور اس پر انحصار کرنے والوں کے مابین اہل خانہ کے علاوہ ایک ”پاکستان“ اور آئی ایم ایف جیسا رشتہ بھی پروان چڑھتا رہتا ہے۔ خاتون خانہ جو بھی کر لے، صبح سب سے پہلے جاگے، شام میں باورچی خانہ سے صبح کی تیاری کرنے کے بعد نکلے اور سب سے آخر میں سونے جائے، گویا آپ کے آٹھ گھنٹے کام کے مقابلے میں وہ بارہ گھنٹے کام کر کے دیواروں کو گھر بنائے رکھے لیکن وہ کون سا کام کرتی ہے اور الحمدللہ ہم کون سا عورتوں کی کمائی کھاتے ہیں۔

اگر گھر کا کام ہماری نظر میں کام نہیں تو پھر باقاعدہ تنخواہ کے عوض گھریلو کام کے لئے ملازمین رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ اور اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ یہ محض امیروں کے چونچلے اور فیشن ہے تو اس حقیقت پسند سے بس اتنی گزارش ہے کہ صرف ایک دن وہ مذکورہ بالا معمول کے مطابق گزار کر دکھائے اور ساتھ ساتھ یہ احساس بھی اوڑھے رکھے کہ وہ خود کسی رائے رکھنے یا کسی فیصلے میں لبیک کہنے سے زیادہ حیثیت بھی نہیں رکھتا تو روشنی ہو جائے گی کہ کس بھاؤ بکتی ہے۔

قیامت کے علاوہ جن چیزوں سے ہم بہت خوف زدہ رہتے ہیں ، ان میں سے ایک مغربی اقدار کی تقلید اور ہماری عظیم مشرقی اقدار میں سرایت بھی ہے۔ ہم اس بات پر اپنے نیک ہونے جتنا ہی یقین رکھتے ہیں کہ مغرب میں عورت کسی نازیبا مخلوق کا نام ہے اور وہاں طلاق کی شرح بہت زیادہ ہے جبکہ ہمارے ہاں خاتون حیا دار ہے لہٰذا ایسا معاملہ نہیں۔ یہ الگ بات کہ یوم حیا بھی ہمیں منانا پڑتا ہے۔ تو گزارش ہے کہ ہمارے ہاں اکثریت ایسے گھروں کی ہے جو صرف ہماری خواتین کے باعث آباد ہیں کیونکہ ہماری عائشائیں معاشرتی دباؤ کی وجہ سے قطع تعلقی کی جگہ نہر میں کودنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ اگر انہیں بھی ”جہاں ڈولی جائے وہاں سے تمہاری نعش ہی آئے“ کی جگہ اپنی عزت اور جان کی حرمت کا درس دے دیا جائے تو لگ پتہ جائے گا کہ ہمارے ہاں خاندانوں کے ٹوٹنے کی شرح کیسے مغرب کا منہ توڑتی ہے۔

اقوال زریں بہت اچھی چیز ہیں لیکن اقوال زریں سوشل میڈیا پر تو شاید پسندیدگی وغیرہ کا درجہ حاصل کر لیں اور ارسال کنندہ کے بارے شاید نیک اور دیگر اعلیٰ اوصاف وغیرہ کا تأثر بھی قائم کر دیں مگر حقائق کو نہیں بدل سکتے۔ یاد رکھیں! ہمارا خاندان کوئی چھوٹی سی رعایا نہیں اور نہ ہی ہم چھوٹے سے مغل اعظم ہیں۔ خواتین اور بچوں کا احترام اگر گھر میں شایان شان طریقے سے ہو گا تو پھر وہ باہر بھی اپنے لئے وہی معیار مرتب کریں گے۔ اور پھر کسی کو مارچ کرنے، نعرے تخلیق کرنے اور پھر مجھ ایسوں کو ان نعروں پر طنز وغیرہ کی زحمت نہیں اٹھانا پڑے گی۔ آخر میں سردار فواد کا ایک شعر کہ

ہم نے حقوق زن کی تو باتیں ہزار کیں
بہنوں کو جائیداد میں حصہ نہیں دیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments