پاکستانی قوم کے لیے لمحہ فکریہ


مشہور انگریزی شاعر ولیم بلیک نے کہا ہے ”عظیم کام اس وقت ہوتے ہیں جب انسان اور پہاڑ ملتے ہیں جبکہ کوئی بھی عظیم کام سڑکوں پر دھکم پیل کرنے سے نہیں ہوتا“ ۔ قومیں اگر ٹھیک وقت پر صحیح اور بر وقت فیصلے کر لیں تو وہ اپنے مستقبل کو محفوظ کر سکتی ہیں۔ یاد رہے کہ اچھے فیصلے کرنے کے لیے زندگی کی حقیقتوں کو جاننا ضروری ہوتا ہے۔ پہاڑوں کو سر کرنا، چوٹیوں کو سرنگوں کرنا اور بلندیوں کو حاصل کرنا ہی زندگی کو بامقصد بناتا ہے جبکہ سڑکوں پر شور و غل کرنے، جلسے جلوسوں میں زبانی جمع خرچ کرنے سے کبھی بھی بڑے مقاصد حاصل نہیں ہوتے بلکہ ایسا کرنے سے صرف اجتماعی کثافت میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔

ابراہام لنکن، امریکہ کا 16 واں صدر اور جدید امریکہ کا بانی و معمار سمجھا جاتا ہے وہ اچانک ہی اتنے اونچے مقام تک نہیں پہنچا تھابلکہ اس کامیابی کے لیے اس کو ناکامیوں کے کئی سمندر عبور کرنے پڑے تھے ۔ اگر ابراہیم لنکن کی زندگی پر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ 1831ء کاروبار میں ناکامی، 1832ء سیاست میں ناکامی، 1834ء تجارت میں پھر ناکامی، 1841ء میں اعصابی بیماری کا شکار ہوا، 1843ء اور 1858ء میں الیکشن میں لگاتار شکست مگر 1860ء میں صدر امریکہ کا عہدہ سنبھال لیا۔ یہ ساری کہانی اس بات کی علامت ہے کہ دنیا میں فتح صرف اس شخص کو ملتی ہے جو شکست کو مان لینے کا حوصلہ رکھتا ہو اور ناکامی کو دوبارہ کامیابی میں بدلنے کے لیے اپنا حوصلہ بیدار رکھتا ہو۔

مگر بد قسمتی سے پاکستان کے عوام کے حصے میں مداری، کھلاڑی، شوباز، ظل سبحانی، ”جیسی قیادت آئی ہے۔“ یہ ہیں میری آمدن کے ذرائع ”اور“ اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا ”جیسی نابغہ روزگار شخصیات اور ان جیسے دوسرے سیاسی و مذہبی سرکسوں کے جعلی لوگ پاکستان کے مقدر میں آئے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مزاج اور خواہشات کے غلام اور اپنی جھوٹی انا کے حصار میں گھرے ہوئے اور پسند و نا پسند کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ یہ نہ تین میں ہیں نہ تیرہ میں، گھن آتی ہے ان آدھے تیتر اور آدھے بٹیر لوگوں کو دیکھ کر۔

بے ضمیر، اقتدار اور پیسے کے بھوکے سیاسی یتیموں کی ٹولی روز ازل سے جس پلیٹ میں کھائیں ، اسی میں چھید کریں۔ اپنی اپنی ذات کے دائرے میں گھومتے اور میوزیکل چیئر کھیلتے یہ لوگ، جن کے سب فیصلے کچے اور گلے سڑے، مصلحتوں اور آرزوؤں کی بھینٹ چڑھے ہوتے ہیں بس ایک ہی بات جانتے اور مانتے ہیں کہ“ دنیا گول مال ہے جہاں صرف مال چلتا ہے ”۔ ان دنوں بھی یہ ذہنی معذور اور سیاسی غلام، شطرنج کی بساط بچھائے بیٹھے ہیں اور بند دوربینوں سے اپنے تاریک مستقبل کے ستاروں کا حال جاننے کے لیے بے چین ہیں مگر ان کو یاد رکھنا ہوگا کہ پاکستانی عوام جان گئے ہیں کہ دولت کا جادو ملکی سطح پر کس طرح کے نتائج سامنے لے آتا ہے۔

بے ضمیر لوگ کس طرح سے ایمان اور اخلاقیات کا جنازہ اپنے ہی کندھوں پر اٹھائے پھرتے ہیں۔ وقت کے اس اہم موڑ پر دو فیصلے اب ہم نے کرنے ہیں۔ جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں درخت کا ایک حصہ تنا ہوتا ہے اور دوسرا حصہ اس کی جڑ ہوتی ہے۔ درخت اپنے وجود کے نصف حصے کو سر سبز و شاداب رکھنے کے لیے اپنے وجود کے آدھے حصے کو زمین کے اندر دفن کر دیتا ہے۔

ایک خدائی اصول کے تحت جڑ نیچے کی طرف اور پھل اوپر کی طرف ہوتا ہے یعنی درخت زمین کے اوپر کھڑا ہوتا ہے مگر زمین کے اندر اپنی جڑیں بناتا ہے ، وہ نیچے سے اوپر کی طرف بڑھتا ہے نہ کہ اوپر سے نیچے کی طرف۔ پس اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ اس دنیا میں داخلی استحکام کے بغیر خارجی ترقی ممکن نہیں ہے، چنانچہ ہمیں سب سے پہلا فیصلہ یہ کرنا ہے کہ ملکی داخلی استحکام میں حائل مشکلات کو ختم کر کے اجتماعی اتحاد کو فروغ دینا ہوگا اور ملک کے ساتھ مخلص قیادت کی حمایت جاری رکھنی ہے۔

دوسرا فیصلہ۔ کبھی ہم نے سوچا کہ ایک درخت ہمیں زندگی گزارنے کا کتنا حسین اور کامیاب سبق دیتا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ درخت کی حقیقت کیا ہے؟ صرف ایک بیج کی قربانی۔ اپنی ذات کی نفی کر کے اور اپنے آپ کو فنا کر کے ہی وہ ایک تناور درخت کو زمین پر کھڑا کر پاتا ہے۔ اسی طرح اگر آپ اینٹ سے پوچھیں گے کہ مکان کیسے بنتا ہے؟ تو وہ سادگی سے کہے گی ”جب کچھ اینٹیں اپنے آپ کو زمین میں دفن کرنے کو تیار ہو جائیں تو مکان وجود میں آ جاتا ہے“ ۔

یہی حال انسانی زندگی کی تعمیر کا ہے ، انسانیت کے مستقبل کی تعمیر اس وقت ہی ممکن ہو پاتی ہے جب کچھ لوگ اپنے آپ کو بے مستقبل کر لیں، اپنے آپ کو بے ترقی کر لیں۔ ملت کی ترقی کے لیے چند لوگوں کو بے توقیر ہونا پڑے گا اور قربانی دینی ہو گی تاکہ بعد کی نسلیں ایک روشن اور ترقی یافتہ ملک میں آنکھیں کھولیں چنانچہ اب ہم نے قربانی دینی ہے اور ہمت سے کام لیتے ہوئے مشکلات کو آسانیوں والے راستے پر ڈالنا ہے یقینا اس وقت ہم فیصلہ کن مرحلے سے گزر رہے ہیں مگر یاد رکھو ہم نے احتساب کے جاری عمل کو رکنے نہیں دینا اور حکومت کا ساتھ دیتے ہوئے چوروں، لٹیروں، ٹھگوں اور چالبازوں کو حتمی انجام تک پہنچانا ہے۔

اب سوچنا نہیں بلکہ ہم نے عمل کرنا ہے اور ثابت کرنا ہے کہ ”ہم اب پہلے سے بہتر دیکھتے ہیں، سوچتے ہیں، سنتے ہیں اور فیصلے کرتے ہیں“ ۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ جو قومیں بروقت فیصلے کرتی ہیں وہ مشکل حالات میں لازمی کامیابی کے نئے رخ تلاش کر کے آگے بڑھ جاتی ہیں جبکہ آہستہ چلنے والی اور آرام طلب قومیں اپنے مقصد حیات کو کبھی بھی نہیں پا سکتی۔

آؤ! آج فیصلہ کریں اورملک کی سلامتی اور روشن مستقبل کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کرنا شروع کریں۔ ورنہ پھر نہ کہنا ”ہمارے حصے میں عذر آئے، جواز آئے، اصول آئے“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments