جب امریکہ کے اصلی باشندوں کو چیچک کا تحفہ دیا گیا


واقعہ: مغربی پنسلوانیا، امریکہ میں اصلی باشندوں نے جنہیں قابض انگریز ریڈ انڈین کہتے تھے فورٹ پٹ کا محاصرہ کر لیا تھا۔ یہ کہانی اس واقعے سے منسوب ہے۔

ناشتے کے بعد دبلا پتلا ولیم نیلسن کپڑے بدل رہا تھا کہ اس کے ملازم نے آ کر اطلاع دی۔ سر! جنرل ایمرہرسٹ کا ایلچی آیا ہے۔
ہوں! ان کو ڈرائنگ روم میں بٹھاؤ اور آتش دان جلاؤ، میں پانچ منٹ میں آتا ہوں۔

صبح بخیر۔ میں بروس فسک ہوں اور مجھے جنرل ایمرہرسٹ نے آپ کے پاس بھیجا ہے۔ جنرل ایمرہرسٹ کے چوڑے خدوخال کے حامل ایلچی نے تعظیم سے کہا۔
صبح بخیر۔ ولیم نیلسن مسکرا کر آہستگی سے بولا۔ آپ سفر کر کے آئے ہیں چائے پئیں اور اس کے کچھ دیر بعد کھانا کھائیں گے۔

شکریہ ضرور۔ ایلچی نے بیٹھتے ہوئے کہا۔ میں کھانا کھاتے ہی یہاں سے نکل جاؤں گا تاکہ اندھیرا ہونے سے پہلی ہی جنرل کے پاس پہنچ کر انہیں رپورٹ دے دوں۔
کوئی نہ کوئی اہم بات ہو گی! جنرل ایمرہرسٹ نے کیا پیغام بھیجا ہے؟

ایلچی نے سگریٹ سلگایا۔ فورٹ پٹ کو ریڈ انڈین نے دس دنوں سے گھیر رکھا ہے ، راشن اور دوسری چیزیں کم ہو گئی ہیں۔ پھر اس نے ایک لمبا کش لے کر دھوئیں کو منہ سے نکالتے ہوئے کہا۔ اس علاقے میں ہمارے پاس کوئی کمک بھی نہیں ہے جو اس محاصرے کو توڑ سکے۔

ولیم نے پائپ سلگا کر ایک ہلکا سا کش لیا۔ یہ وحشی چاہتے کیا ہے؟

جی ان کا مطالبہ ہے کہ ہم انہیں موسم سرما کے لئے اشیائے خوردنی، شراب اور بندوقیں فراہم کریں۔ سر، یہ لوگ ڈاکو بن گئے ہیں۔ ایلچی کے ماتھا بلوں سے سج گیا۔

ہاں مجھے فورٹ پٹ کی اہمیت کا پورا اندازہ ہے ، صورتحال کافی گمبھیر معلوم ہوتی ہے۔ بتاؤ میں کس طرح مدد کر سکتا ہوں؟ ولیم بہت سکون سے بات کر رہا تھا۔

جنرل ایمرہرسٹ کے مطابق ان ریڈ انڈین سے بات کرنے کے لئے سب سے مناسب آدمی آپ ہیں اور آپ تو بہت عرصے سے ان لوگوں سے تجارت کرتے آئے ہیں۔ آپ کو پتہ ہے کہ ان سے کس طرح بات چیت کرنی ہے۔ یہ لوگ آپ کو جانتے ہیں اور آپ کی عزت کرتے ہیں۔ پھر وہ ولیم کا تاثر دیکھنے کے لئے رکا لیکن ولیم کو اپنے رد عمل پہ پورا اختیار تھا۔ ایلچی کوئی تاثر نہ پڑھ سکا تو اس نے بات آگ بڑھائی۔ جنرل نے یہ اشارہ بھی کیا تھا کہ ہم چیچک کو ریڈ انڈین میں پھیلا سکتے ہیں۔

کیا فورٹ میں چیچک کے مریض بھی ہیں؟ ولیم نے رازداری سے پوچھا۔

قلعے کے مکینوں کے علاوہ کئی تاجروں اور دوسرے لوگوں نے بھی اس میں پناہ لی ہوئی ہے۔ کچھ لوگ اس بیماری میں مبتلا ہیں۔ خطرہ ہے کہ یہ بیماری فورٹ کے اندر سب کو نہ لگ جائے کیونکہ قلعے میں اس وقت بہت زیادہ لوگ موجود ہیں۔

ولیم گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ پھر مسکرا کر بولا۔ آج میں تیاری کروں گا اور پھر کل صبح سفر کے لیے نکل جاؤں گا۔ کل ہی فورٹ کے باہر سردارپونٹیک سے بات چیت ہو گی۔

ایلچی نے تعظیم سے کہا۔ میرے لئے یہ عزت کی بات ہے کہ آپ نے محاصرہ ختم کروانے کے لئے ہماری درخواست قبول کر لی ہے۔

ولیم کرسی سے اٹھتا ہوا بولا۔ کل جب میں ان درندوں سے بات چیت کرنے آؤں تو تم چیچک کے مریضوں کے اوڑھے ہوئے دو کمبل اور ایک دو مفلر ایک خوبصورت تھیلے میں ڈال کر لے آنا۔ بہت احتیاط سے تاکہ تم میں سے کسی کو چیچک نہ لگ جائے۔

جی سر۔ آپ کی ہدایات کے مطابق عمل ہو گا۔

کھانے کے کچھ دیر بعد ایلچی نے ولیم نیلسن کو سیلوٹ کیا اور اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر واپسی کی طرف چل پڑا۔

قلعے کے باہر ملاقات کا دن

سہ پہر کے تقریباً دو بج گئے تھے، ہلکی پھوار کے ساتھ ساتھ تیز ہوا بھی چل رہی تھی۔ جب ولیم اپنے سفید چست گھوڑے پہ سوار اور اس کا ایک ملازم ایک عام سے گھوڑے پہ سوار فورٹ پٹ پہنچے تو سردار پونٹیک نے ولیم کو فوراً پہچان لیا۔ اس نے اپنے آدمیوں کو اشارہ کیا کہ ان سفید فام کے آنے سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔

مقامی باشندوں کے سردارپونٹیک نے دور سے آواز لگائی۔ ولیم تمہارا کیسے ادھر آنا ہوا؟

ولیم گھوڑے سے اتر کر بہت عزت سے بولا۔ جنرل ایمرہرسٹ نے مجھے آپ سے بات چیت کرنے کے لئے کہا ہے۔ سردار میں یہ چاہتا ہوں کہ یہ محاصرہ ختم ہو جائے کیونکہ بہت خونریزی ہو سکتی ہے۔

تو تم ہم کو دھمکی دینے آئے ہو؟ تم چاہتے ہو کہ ہم اس محاصرے کو ایسے ہی ختم کر دیں؟

نہیں سردار پونٹیک، میں تو کاروباری آدمی ہوں اور آپ سے بھی میرے دیرینہ تجارتی تعلقات ہیں۔ میں نہیں چاہتا ہوں کہ تم لوگوں کا کوئی نقصان ہو اور مزید خونریزی ہو۔ تین چار دنوں میں ہمارے لئے کمک آنے والی ہے۔ سردار، ویسے بھی آپ کتنے دن اور راتیں یہاں سردی اور بارش میں بیٹھے رہیں گے۔ قلعے کے اندر تو سب لوگ سردی اور بارش سے محفوظ ہیں۔

ہمارے جاسوسوں نے تو ایسی کوئی اطلاع نہیں دی کہ کمک آ رہی ہے۔ سردار پونٹیک نے برجستہ جواب دیا۔

چیف پونٹیک، انہوں نے ایک متبادل راستہ لیا ہے۔ اب یہ تو آپ کی مرضی ہے بندوقوں کی زد میں آئیں یا سردی اور بارش سے بیمار ہو جائیں یا صلح صفائی کر لیں۔

اتنی دور میں دو اور لوگ قلعے سے باہر آ کر بات چیت میں شامل ہو گئے۔ وہ اپنے ساتھ ایک خوبصورت تھیلا بھی لائے تھے۔

سردار نے ان دونوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ولیم کی طرف رخ کیا۔ ولیم ہماری بات سنو۔ یہ زمین ہماری ہے تم لوگوں نے یہ قبضہ کر کے اتنا بڑا فورٹ بنا لیا۔ اس علاقے کے کھو جانے سے ہمارا بہت نقصان ہوا ہے۔ آپ لوگ ہمیں غلہ، شراب اور بندوقیں دیں تو ہم یہ محاصرہ ختم کر دیں گے۔

ولیم نے مسکرا کر کہا۔ ہم آپ لوگوں کو کچھ بندوقیں، کارتوس اور شراب کی بوتلیں دے سکتے ہیں اگر آپ لوگ یہ محاصرہ ختم کر دیں۔

سردار نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔ ہمارا بھی تو بہت نقصان ہو چکا ہے ، ایک ہفتے سے یہاں پر ہیں۔ ہم کتنے دنوں سے باہر نشانے لگائے بیٹھے ہوئے ہیں۔ ولیم تمہیں اندازہ ہے کہ ان چیزوں پر کتنا خرچہ ہوتا ہے۔

ولیم کرسی سے اٹھ کر چیف پونٹیک کے بالکل پاس آ گیا۔ ہم آپ کا نقصان پورا کر سکتے ہیں، آپ سب کو ایک ایک بندوق اور ایک ایک شراب کی بوتل دی جائے گی۔ اور آپ اگلے دو سال تک اس طرف نہیں آئیں گے اور نہ ہی ہمارے مسافر یا فوجی پر کوئی حملہ کریں گے۔

سردار اٹھ کر اپنے نائب کے پاس مشورہ کرنے گیا اور کچھ دیر بعد واپس آ کر بولا۔ آپ ہر ایک کو دو بندوقیں، ہر بندوق کے ساتھ پچاس کارتوس اور دو شراب کی بوتلیں دیں تو ہم محاصرہ ختم کر دیں گے اور اگلے موسم سرما کے ختم ہونے تک اس علاقے میں نہیں آئیں گے۔

ولیم نے آگے بڑھ کر سردار پونٹیک سے ہاتھ ملایا۔ یہ سب سامان تھوڑی دیر میں آپ کو مل جائے گا۔

قلعے سے آنے والے ایک افسر نے سردار سے گرمجوشی سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔ اس کے علاوہ جنرل نے آپ کے لئے نے ایک تحفہ بھی دینے کے لئے کہا تھا۔ اس تھیلے میں دو کمبل اور ایک مفلر ہے۔ راتیں ابھی تک سرد ہیں یہ آپ کے بہت کام آئیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments