اکیسویں صدی میں تکنیکی تباہی کے امکانات


یہ مسئلہ کسی بھی قوم پرست تریاق کو خراب کر سکتا ہے۔ اکیسویں صدی کے اس تیسرے خطرے کا نام تکنیکی تباہی ہے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے ابواب میں دیکھا ہے کہ انفوٹیک اور بائیوٹیک کے ملاپ سے قیامت کے منظرنامے کا دروازہ کھلتا ہے۔ جس میں ڈیجیٹل آمریت سے لے کر عالمی سطح کے بیکار طبقے کی تشکیل تک شامل ہیں۔

اس لعنت کا قوم پرست اقوام کے پاس کیا جواب ہے؟

کسی بھی قوم پرست کے پاس اس کا جواب نہیں ہے۔ جیسا کہ آب و ہوا کی تبدیلی کی صورت میں (اسی طرح تکنیکی خلل کے ساتھ ) قومی ریاست خطرے سے نمٹنے کے لیے ایک بالکل غلط فریم فرک ہے۔ چونکہ تحقیق اور ترقی کسی ایک ملک کی اجارہ داری نہیں ہے، لہٰذا ریاست ہائے متحدہ امریکہ جیسی سپر پاور بھی انہیں خوراک تک محدود نہیں رکھ سکتی ہے۔ اگر امریکی حکومت جینیاتی انجینئرنگ سے منع کرتی ہے تو ان کا یہ قانون چینی سائنس دانوں کو ایسا کرنے سے نہیں روک سکتا اور اگر چین کو نتیجہ خیز پیش رفتوں نے کچھ اہم معاشی یا فوجی فائدہ پہنچایا تو امریکہ اپنی پابندی کو توڑنے کے لیے خود آمادہ ہوگا، کیونکہ اگر ایک ملک بھی اعلیٰ ترین خطرہ کو مول لینے کے لیے تیار ہوتا ہے یا اعلیٰ تکنیکی راہ پر گامزن ہو جاتا ہے تو دوسرے ممالک بھی ایسا کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ ایسا اس لیے ہو گا کہ کوئی بھی پیچھے رہ جانے کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔ ایسی دوڑ سے بچنے کے لیے بنی نوع انسان کو شاید کسی قسم کی عالمی شناخت اور وفاداری کی ضرورت ہو گی۔

مزید یہ کہ جہاں جوہری جنگ اور آب و ہوا کی تبدیلی ہی انسانیت کی جسمانی بقاء کے لیے خطرہ بن جاتی ہے وہاں تباہ کن ٹیکنالوجی انسانیت کی فطرت کو کلی طور پر بدل سکتی ہے اور شاید اسی لیے انسان گہرے اخلاقی اور مذہبی عقائد میں پھنس جاتے ہیں۔ اگرچہ ہر ایک اس بات پر متفق ہے کہ ہمیں جوہری جنگ اور ماحولیاتی خرابی سے گریز کرنا چاہیے، لیکن انسانوں کو اپ گریڈ کرنے اور زندگی کی نئی شکلیں پیدا کرنے کے لیے بائیو انجینئرنگ اور مصنوعی ذہانت کے وسیع پیمانے پر پھیلاؤ کے حوالے سے رائے مختلف ہے۔ اگر انسانیت عالمی سطح پر قبول شدہ اخلاقی رہنما خطوط واضح کرنے اور ان پر عمل کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے تو یہ بھیانک منظر کا پیش خیمہ ہو گا۔

جب ایسے اخلاقی رہنما خطوط مرتب کرنے کی بات آتی ہے تو قوم پرستی سب سے بڑھ کر تخیل کی ناکامی کا شکار ہوتی ہے۔ قوم پرست صدیوں سے جاری علاقائی تنازعات کے بارے میں سوچتے ہیں، جبکہ اکیسویں صدی کے تکنیکی انقلابات کو واقعی کائناتی اعتبار سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔

قدرتی انتخاب کے ذریعے چار ارب سال تک نامیاتی زندگی کے ارتقاء کے بعد ، سائنس ذہین ڈیزائن کے ذریعہ غیر نامیاتی زندگی کے دور کی ابتداء کر رہی ہے۔ امکان ہے کہ اس عمل میں ہومو سیپئنز خود غائب ہو جائیں گے۔ آج بھی ہم ہومومینیڈ فیملی کے بندر ہیں۔ ہم اب بھی اپنے جسمانی ڈھانچے، جسمانی قابلیت اور دماغی صلاحیتوں میں نیندر تھالز اور چمنیریوں کے ساتھ اشتراک کرتے ہیں۔ نہ صرف ہمارے ہاتھ، آنکھیں اور دماغ واضح طور پر ہومینیڈ کی طرح ہیں بلکہ ہماری جیسی ہوس، پیار، غصہ اور سماجی تعلقات بھی انہی جیسے ہیں۔ ایک یا دو صدیوں میں ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے ملاپ سے جسمانی اور ذہنی خصوصیات کلی طور پر ہومو مینیڈ خصوصیات سے آزاد ہو جائیں گی۔

کچھ کا خیال ہے کہ انسانی شعور کسی نامیاتی ڈھانچے سے بھی منقطع ہو سکتا ہے اور سائبر اسپیس کو تمام حیاتیاتی اور جسمانی رکاوٹوں سے پاک کر سکتا ہے۔ دوسری طرف ہم شعور سے ذہانت کی مکمل شکست کا مشاہدہ کر سکتے ہیں اور مصنوعی ذہانت کی نشوونما کے نتیجے کے طور پر دنیا انتہائی ذہین مگر کلی طور پر غیر شعوری ہستیوں کے زیر اثر ہو سکتی ہے۔

اس سیریز کے دیگر حصےیوول نوح حراری اور ماحولیاتی چیلنجتکنیکی تباہی: اکیسویں صدی کے اکیس سبق

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments