اے اشرف المخلوق! چرندوں درندوں ہی سے سیکھ لو


پھولوں کے بوجھ سے لدی بوگن ایلیا کی شاخوں پر بلبل کا جوڑا بہت دیر سے ادھر ادھر پھدک رہا تھا۔ پھدک کیا رہا تھا۔ نر بلبل جیسے ہی اڑان بھر کے مادہ بلبل کے پاس پہنچتا وہ جھپک سے دوسری شاخ پر جا بیٹھتی ، وہ بے چارا چند لمحے اس کی جانب تکنے کے بعد جونہی اڑان بھرنے کی کوشش کرتا ، وہ یا تو اونچی ٹہنی پہ چلی جاتی یا ایک لمبی اڑان بھر کے دوسری شاخ پر آ بیٹھتی۔

لاؤنج کی کھڑکی سے یہ کھیل میں پچھلے آدھے گھنٹے سے دیکھ رہی تھی۔ مجھے ہنسی بھی آ رہی تھی اور ایک گونہ تسکین بھی ہو رہی تھی۔

جب سے موسم بہار کا آغاز ہوا ہے م، ختلف درختوں کی شاخوں پہ صبح تڑکے سے یہ مناظر شروع ہو جاتے ہیں اور شام ڈھلے تک جاری رہتے ہیں۔

بوگن کی بیل کے برابر ایستادہ دوسری منزل کی کھڑکیوں کو چھوتے نیم کے گھنے درخت کی شاخوں پر کوے کویاں بھی یہی کھیل، کھیل رہے ہوتے ہیں۔ اس کے برابر کی دیوار پر چڑھی چنبیلی اور عشق پیچاں کی نازک سی بیل کی دھوپ چھاؤں میں چڑے چڑیاں، بیے اور بلبل کے جوڑے اسی آنکھ مچولی میں مصروف ہوتے ہیں۔

لاؤنج کی کھڑکیوں کی بیرونی جانب بنے فائبر کے چھجے پر کبوتروں کے جوڑے تو شام ڈھلے تک کبوتریوں کے پیچھے گول گول ناچ رہے ہوتے ہیں اور تگنی کا ناچ ناچتے ناچتے اکثر و بیشتر پھسل بھی جاتے ہیں۔ گرنے والا کبوتر اپنی خجالت مٹانے کے لئے تھوڑی دیر کو غائب بھی ہو جاتا ہے تو کبوتری آرام سے پر پھیلا کے دھوپ تاپنے لگتی ہے لیکن جونہی کبوتر چھجے پر قدم رنجہ فرماتا ہے وہ فوراً پر سکیڑ کے دوسرے کنارے پر جا بیٹھتی ہے۔

نیچے سے آنے والی بلی کی بھیانک آواز نے مجھے کھڑے ہونے پر مجبور کر دیا ، میں آگے بڑھ کر نیچے جھانکنے بھی لگی ، ساکت کھڑی گاڑیوں کے علاوہ نیچے کچھ نہ تھا ، یعنی بلی کسی حادثے کا شکار نہیں ہوئی تھی۔

جواں ہی ایک گاڑی کے نیچے سے بلی نکل کر بھاگی اور دوسری گاڑی کے نیچے چلی گئی تو سامنے والی ہائی رؤف کے نیچے چھپا ہوا بلا نکلا اور دبے دبے قدموں سے اس گاڑی کی جانب بڑھنے لگا جہاں چند لمحے قبل بلی غائب ہوئی تھی۔ میں کھڑکی سے ہٹنے ہی لگی تھی کہ پھر بلی کی بھیانک چیخ بلند ہوئی اور وہ مجھے ایک اور گاڑی کی جانب بھاگتی اور بلا سڑک کے بیچوں بیچ کھڑا نظر آیا۔

واپس بیٹھتے ہوئے مجھے سرخ کلغی اور خوبصورت پروں والا وہ اونچا پورا مرغا یاد آ گیا،  جس کی دم کا سب سے اوپر کا گول گھوما ہوا نیلا پر صبح کی نرم دھوپ میں قوس و قزح کے رنگ بکھیر رہا ہوتا ہے اور واک کرنے والا ہر فرد ایک لمحے کو رک کے اس کی جانب ضرور دیکھتا ہے۔ یوں تو وہ پر پھلائے اپنے اردگرد دانہ چگتی مرغیوں کے بیچ روزانہ ہی بڑے استحقاق سے کھڑا ہوتا ہے لیکن روزانہ ہی وہ پر پھیلائے کسی نہ کسی مرغی کے پیچھے پنجے ٹھونک ٹھونک کے گول گول چکرا بھی رہا ہوتا ہے۔

کرسی پر بیٹھتے ہی میرے دماغ کے تھیٹر میں پوری Animal world گھوم گئی۔ جہاں ملنے کی چاہت اور قربت کے لئے ہر مذکر اپنی مؤنث کو رجھانے، بہلانے، پھسلانے اور رام کرنے کے لئے گول گول گھوم رہا ہوتا ہے۔ سریلی آوازیں نکالتا ہے ، اسے ناچ کے دکھاتا ہے ۔ غرض کہ چرند پرند درند سب تگ و دو میں لگے ہوتے ہیں اور وہ ساری مؤنثیں جب تک ناک سے لکیر نہیں کھنچوا لیتیں ، اپنے مذکروں کو محروم ہی رکھتی ہیں۔

سوچتے سوچتے مجھے وہ بہت سارے پرندے یاد آ گئے جو جنگلوں میں اپنی محبوباؤں کو رجھانے کے لئے خوبصورت گھونسلے بناتے ہیں اور اپنے گھروندوے کی جانب آنے والی راہوں کو رنگ برنگے پتھروں پھولوں اور پتوں سے سجاتے ہیں۔

اس کائنات میں آباد چرند پرند سے لے کر وحشی سے وحشی جانور تک اپنی حدود و قیود کا خیال رکھتے ہوئے اپنی مادہ کی رضا و رغبت سے اس کی جانب بڑھتے ہیں۔

جنگلوں میں کبھی یہ منظر نظر نہیں آتا کہ طاقت کے نشے میں چور بڈھا شیر کسی دو سالہ شیرنی کے پیچھے بھاگ رہا ہو یا شیرنی کو چھوڑ کے چیتے کی مادہ کے گرد چکرا رہا ہو یا گدھی کی جانب لپک رہا ہو۔

کسی ہرن کو بکری کے پیچھے جاتے یا بارہ سنگھے کو ہرن کے آس پاس نہیں دیکھا۔ لکڑ بگھا گیدڑ کی طرف لپکتا نظر نہیں آتا۔ بدمست سے بدمست ہاتھی کو گینڈے کے برابر کھڑا نہیں دیکھا۔ بلبل کو چڑیا یا مینا کے آگے نغمہ سرا نہیں سنا۔ سبز طوطوں کو رنگین طوطوں کی جانب اڑتے نہیں دیکھا۔

الو اور اس کے پٹھوں کو بھی کسی اور پرندے کے پیچھے محو پرواز نہیں دیکھا۔

دماغ کے تھیٹر میں چلتی فلم نے جھٹکا کھایا تو منظر نامہ یکسر بدل گیا اور دو پیروں پر چلتا، بالوں میں ہاتھ پھیرتا، مونچھوں کو بل دیتا، سینے کے بالوں سے کھیلتا، پگڑی کے بل سنوارتا، ٹوپی کو آگے پیچھے کرتا، خبیثانہ مسکراہٹ دباتا وہ اشرف المخلوق سامنے آ گیا جس کے لئے یہ کائنات سجائی گئی ہے۔

خدا جس کی شہ رگ سے قریب ہے اور وہ کائنات میں پائے جانے والی تمام مخلوقات میں سب سے اعلیٰ و ارفع ہے۔ لیکن وہی کائنات میں پایا جانے والا سب سے بڑا درندہ بھی ہے۔

اس گول گول گھومتی دھرتی کا وہ واحد مذکر ہے جو اپنی مؤنث کی رضا اور غبت کے بغیر نہ صرف اسے استعمال کرتا ہے عمر اور رشتے کا لحاظ کیے بنا سامنے آ جانے والی اور ہاتھ لگ جانے والی کسی مونث کو نہیں بخشتا۔

اس جیتی جاگتی دنیا کا وہ مذکر ہے جو 80 سال کی عمر میں بھی چودہ سالہ مونث کے خواب دیکھتا ہے۔

اس نے بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑائے ہوں یا نہ دوڑائے ہوں لیکن قبر کی تنگی، قبرستان کی ویرانی، آپریشن تھیٹر کی ٹھنڈک، آئی سی یو کی بے کسی، مسجد کا حجرہ، منبر کی چھاؤں، کھیت کھلیان، دکان مکان، چلتی ٹرین کھڑی بس، نوکر خانہ، زنان خانہ، دفتر اسکول کالج، دن رات صبح شام کی تمیز کے بغیر دھونس دھمکی، جھوٹا پیار، سبز باغ، سنہرے خواب دکھا کے اور بن دکھائے اپنے تن کا بھاڑ بھوکتا رہتا ہے۔

یہی وہ مذکر ہے جو اپنی بھوک مٹانے کے لیے پاکیزہ سے پاکیزہ رشتوں کا بھی لحاظ نہیں کرتا۔

اے اشرف المخلوقات! تو ”ہمارے جسم ہماری مرضی“ کا خیال نہیں کرنا چاہتا نہ کر لیکن ان ”چرند، پرند اور درندوں ہی سے کچھ سیکھ لے“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments