لبرل فیمینزم ناکام ہو چکا


شیرل سینڈ برگ نے 2018 میں اپنی فیس بک وال پہ لکھا ”کیا ہی اچھا ہوتا ا‏گر دنیا کے آدھے ملکوں اور آدھی کمپنیوں کی باگ دو‌‍ڑ عورتوں کے ہاتھ میں ہوتی اور دنیا کے آدھے گھر مرد چلاتے اور ہم اس وقت تک چین سے نہ بیٹھتے جب تک یہ مقصد مکمل طور پہ حاصل نہ ہو جاتا“ ۔ یہ کارپوریٹ فیمینزم کی ایک بڑی داعی سینڈ برگ کا قول ہے جو دنیا میں خواتین مینیجروں کی کمپنیوں کے بورڈ میں شمولیت کی زبردست حامی ہونے کی بنا پر کافی نام (اور پیسہ) بنا چکی ہیں۔ لیری سمرز جو امریکی وزارت خزانہ کے سابقہ چیف آف سٹاف رہ چکے ہیں اور وال سٹریٹ کی ڈیریگولیشن کے روح رواں ہیں، کو یہ کہنے میں کو‏ئی عار نہیں کہ صنفی برابری کا ایک ہی راستہ ہے۔ اور وہ ہے عورت کی کاروباری دنیا میں شمولیت۔

دوسری جانب 2018 کی بہار میں ایک شدت پسند فیمینسٹ تحریک ”چوبیس گھنٹے۔ ہییولگا فیمینسٹا“ نے پورے کا پورا سپین بند کرڈالا، اس مارچ میں موجود پچاس لاکھ افراد اور اس کے منتظمین کے مطالبے تھے، ”صنفی جبرو استحصال اور تشدد سے آزاد معاشرہ“ اور ”سرمایہ دارانہ نظام اور پدر شاہی کے گٹھ جوڑ کے خلاف بغاوت اور جدوجہد“ ۔ سرمایہ دارانہ نظام اور پدرشاہی عورت کو دبانے، خاموش کرانے اور محکوم رکھنے میں ایک دوسرے کے بہترین معاون و مدد گارہیں۔ جب میڈرڈ اور بارسلونا میں سورج غروب ہوا تو تحریک کے شرکاء نے دنیا سے عہد کیا۔ ”آج آٹھ مارچ کے دن ہم اپنے سینوں پہ ہاتھ باندھے پیداواری اور تولیدی سرگرمیاں معطل کرتے ہوئے اعلان کرتے ہیں کہ ہم بد ترین ماحول میں کام کرنے اور مرد اور عورت کی ایک سے کام کی غیر مساوی اجرت سے انکار کرتے ہیں۔

sheryl sandberg

یہ دو آوازیں دو فیمینسٹ تحریکوں کے مختلف راستوں کے چنا‍‎ؤ کا مظہر ہیں۔ ایک طرف سینڈ برگ اوراس کے ہمنوا فیمینزم کو سرمایہ دارانہ نظام کی کنیز سمجھتے ہیں۔ ان کا خواب ایک ایسی دنیا ہے جس میں جبرواستحصال کے نظام کو جاری رکھتے ہوئے اشرافیہ کے مرد و زن میں مساوات قائم کی جا سکے۔ ان کے نزدیک یہ مساوی مواقع کے حصول کا روشن خواب ہے۔ جو ایسے ہی ہے جیسے کہا جائے کہ شکر ہے کہ مالک مرد کے بجائے عورت ہے، جو ان کی یونینوں کو توڑتی، ان کے ماں باپ کو ڈرون حملے میں مار ڈالتی یا پھر ان کے بچوں کو کسی سرحد پر پنجرے میں قید کر دیتی ہے۔ سینڈ برگ کے لبرل فیمینزم کے مقابلے میں ہییولگا فیمینسٹا کے منتظمین ”سرمایہ دارانہ نظام“ کے خاتمے پر اصرارکرتے ہیں : وہ نظام جو مالک پیدا کرتا، قومی سرحدوں کی لکیریں کھینچتا اور ان کی حفاظت کے لیے ڈرون بناتا ہے۔

دو قسم کے فیمینزم کے دو طرح کے خوابوں کے بیچ ہم اپنے آپ کو دوراہے پہ کھڑا پاتے ہیں۔ کیونکہ ان میں سے کسی ایک کے چناؤ کے نتائج دنیا کے تمام لوگوں کے لیے بہت غیرمعمولی ثابت ہو ں گے۔ پہلا راستہ ایک ایسی جلتی، تپتی دنیا کی طرف لے جاتا ہے جہاں زندگی اتنی بے بس ہے کہ زندگی بذات خود پہچانی ہی نہیں جاتی۔ دوسرا راستہ انسان کے اس بلند ترین خواب کی طرف کھیچتا ہے جو آج تک انسان نے دیکھا ہے۔ یعنی انصاف پرمبنی دنیا جس کی تمام دولت اور ذرائع سب لوگ مل بانٹ کر کھائیں اور جہاں برابری اور آزادی ایک بنیادی حقیقت ہو نہ کہ محض ایک آرزو۔

ان دونوں میں سے کوئی ایک را ستہ چننا ہمارے لیے بہت مشکل ہے کیونکہ ان دو انتہاؤں کے علاوہ کوئی قابل عمل متبادل راستہ ہے ہی نہیں۔ اس دقت کا سہرا نیو لبرل ازم کے سر ہے : ایسا سرمایہ دارانہ نظام جس کی بنیاد دولت کا لالچ ہے اور جس نے پچھلے چالیس سے پوری دنیا کو اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔ اس کی ہوس نے نہ صرف کرہ ارض کو ماحولیاتی طور پر زہر آلودہ کیا، بلکہ دنیا میں جمہوری طرز حکومت کا مذاق اڑایا، انسانی معاشرتی صلاحیتوں کواپنے مقاصد کے لیے ٹوٹنے کی حد تک آزمایا، اور بہت بڑی آبادی کو غیرانسانی حالات میں زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا۔

اس پر طرہ یہ کہ سرمایہ دارانہ نظام کی ہوس اورعیاری نے دنیا بھر کی سماجی تحریکوں کی جدوجہد کو بقا کی جنگ لڑنے تک محدود کر دیا جو اقتصاد کی چکی میں پسنے والوں کے لیے چند معمولی اصلاحات حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ ان حالات میں محض کنارے پہ بیٹھ کے دریا کی گہرائی ناپنے کا وتیرہ ترک کر کے فیمینسٹوں کو نئی جدوجہد کے لیے اٹھ کھڑا ہونا ہو گا اور فیصلہ کرنا ہو گا کہ کیا ہمیں اسی طرح جلتی، تپتی دنیا میں ”مساوی مواقع کے حصول“ کی چکی میں پسنا ہے یا پھر سرمایہ دارانہ نظام سے نجات حاصل کر کے نئے معاشرے کی تشکیل کرنا ہے جس میں حقیقی معنوں میں صنفی انصاف کا تصور ممکن ہو؟

یہ منشور اس مشکل راستے کا مختصر تعارف ہے۔ ایسا راستہ جس پر چلنا ضروری ہی نہیں ممکن بھی ہے۔ آج سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف فیمینزم ممکن ہے، کیونکہ دنیا بھر میں سیاسی اشرافیہ کی ساکھ گر رہی ہے۔ ایسی سیاسی پارٹیاں جن کا جھکاؤ سینٹر۔ لیفٹ یا سینٹر۔ رائٹ کی طرف تھا اورجو نیو لبرل ازم کی پرچارک تھیں اب اپنی پرانی ترجیحات کی باقیات ہونے پر شرمندہ ہیں۔ اسی طرح سینڈ برگ سٹائل فیمینزم کے حامیوں کی ترقی پسندی کی چمک بھی ماند پڑتی جا رہی ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments