پی ایس ایل کو اپنوں نے ڈبو دیا


جب ساری دنیا میں کورونا کے کیسز کی وجہ سے سب کچھ بند پڑا تھا تب پی سی بی کی جانب سے پاکستان میں کیسز کی شرح کم ہونے پر ایک بہادرانہ فیصلہ لیتے ہوئے پی ایس ایل کے انعقاد کا اعلان کیا گیا، مگر مقبولیت کی نئی حدوں کو چھوتی ہوئی اس لیگ کو چند ہی میچوں کے بعد ’ملتوی نما‘ منسوخ کرنا پڑا۔ تو پھر ایسا کیا ہوا کہ جب جنرل میچوں میں 50 فیصد اورپلے آفز میں 100 فیصد تماشائیوں کی اجازت دے دی گئی تھی تو اچانک ہی ایسا فیصلہ سامنے آیا اور سات سے 8 کورونا کیسز سامنے آ گئے۔

کیا واقعی حسن علی کے بقول ہماری لیگ کو نظر لگی یا پھر پی سی بی کی کمزوری کھل کر سامنے آئی۔ قصہ تب شروع ہوا جب پشاور زلمی کے کپتان وہاب ریاض اور سابق کپتان ڈیرن سیمی کو آئسولیشن کی مدت پوری کیے بغیر میچ میں شمولیت کی اجازت دی گئی، بظاہر تو پی سی بی کی جانب سے پریس ریلیز میں اس قدم کو ہمدردانہ بنیادوں پر دی گئی اجازت قرار دیا گیا مگر واقفان حال بتاتے ہیں کہ نہ صرف وہاب ریاض اور ڈیرن سیمی پشاور زلمی کے مالک جاوید آفریدی نے بھی آئسولیشن کی مدت پوری نہیں کی تھی اور اجازت نہ ملنے پر میچ نہ کھیلنے کی دھمکی دی تھی، جس پرپی سی بی نے معاملے کو سنبھالنے کے لئے فوری طور پر میچ کھیلنے کی اجازت دی، یوں پی سی بی کی جانب سے بائیوسکیوریبل اور کورونا ایس او پیز پر سختی سے عمل درآمد کی باتیں صرف دعویٰ ہی رہیں۔

بات صرف یہاں تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ آئی سی سی اور خود پی سی بی کے کورونا ایس اوپیز کے مطابق کھلاڑی جشن یا داد دینے کے لئے نہ ہاتھ ملائیں گے نہ گلے ملیں گے ، ایسے میں کراچی کنگز کے مالک سلمان اقبال کھلاڑیوں سے فرط جذبات میں گلے ملتے رہے۔ اور ایسے میں پی سی بی کی جانب سے بڑی فرنچائز کے دولت مند مالک کے خلاف ایکشن تو نہ لیا ، رسمی نوٹس تک نہ لیا گیا، یہ سب واقعات لاہور قلندرز کے کوچ عاقب جاوید کی اس بات کہ بائیو سکیورببل صرف کاغذوں تک محدود تھی کی صدفی صد تصدیق کرتے ہیں۔

عاقب جاوید کے مطابق لاہور قلندرز کی جانب سے بار بار مخالفت کے باوجود باقی فرنچائزز کے ساتھ مل کر پی ایس ایل منعقد کی گئی اور جب اسلام آباد کے کھلاڑی فواد احمد کورونا کا شکار ہوئے اور اسی دن دو اور کھلاڑیوں اور آفیشلز میں کورونا کیسز مثبت آنے کے بعد بھی منگل کو میچ کروایا گیا، جس کے بعد پھر مزید کھلاڑیوں میں بھی کورونا کیسز سامنے آ گئے۔

میرے ذرائع کے مطابق کراچی کنگز کے مالک سلمان اقبال بھی کورونا کا شکار ہو چکے ہیں، ایسی صورتحال میں بھی پی سی بی کی جانب سے ہوش کے ناخن نہ لئے گئے اور میچز کا سلسلہ برقرار رکھا گیا جس کا نقصان یہ ہوا کہ غیر ملکی کھلاڑیوں نے خوف اور بددلی سے پی ایس ایل سے دستبردار ہونے کی دھمکی دے دی جس کی پہل کراچی کنگز کے ڈین کرسٹین نے کی، جس کے بعد پی ایس ایل کی آرگنائزنگ کمیٹی کی ہنگامی میٹنگ بلائی گئی جس میں فرنچائزز کے مالکان یا نمائندوں نے شرکت کی اور پی ایس ایل کے پہلی بار وطن میں ہونے والے سیزن کو ملتوی کرنا پڑا۔

ایسے میں پی ایس ایل میں کورونا ایس اوپیز کا بھونڈا مذاق اڑا کر دنیا بھر میں بدنامی مول لی گئی اور دنیا بھر میں اس کمزوری کو بھی آشکار کیا گیا پی سی بی نظریہ ضرورت کے تحت اپنے ہی بنائے گئے اصولوں کو بالائے طاق رکھنے کی اجازت دے سکتا ہے۔

سب سے بڑی بات یہ کہ سیاست کے گھٹن بھرے ماحول میں کھیلوں کا یہ مقابلہ عوام کے لئے راحت کا باعث بن رہا تھا ، ایسے میں فرنچائزز کی سیاست اور پی سی بی کی جانب سے اس سیاست اور اثر و رسوخ میں دبنے سے عوام اس واحد اور مفت کی تفریح سے محروم ہو گئے ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ سابقہ بگ تھری پاکستان کے ازلی دشمن بھارت اور انگلینڈ کا میڈیا لیگ کے ملتوی ہونے پر کیسا پروپیگنڈا کرتا ہے بہرحال بقول ایک دوست پی سی بی فرنچائز مالکان کے ہاتھوں بدنام ہوا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments