عمران خان اور پاکیٔ داماں کی حکایت


اخلاقیات کا دہرا معیار مقرر کریں گے تو ایسی ہی مضحکہ خیز صورت حال سے دوچار ہوں گے جس کا شکار وزیراعظم پاکستان ہوئے۔ اخلاقی قدروں کے دو پیمانے متعارف کروائیں گے تو یہی مشکل ہو گی جس کا سامنا وزیراعظم کر رہے ہیں۔ دوسروں کی غلطیوں پر جج اور اپنی انہیں غلطیوں کے لیے وکیل بننا شروع کریں گے تو کوئی آپ کی بات تسلیم نہیں کرے گا۔

سیاسی ضرورت کی خاطر خوب کو زشت اور زشت کو خوب بنانے کی روش اپنائیں گے تو رہی سہی ساکھ بھی ختم ہو جائے گی۔ کل جن ”عظیم“ فتوحات پر آپ وکٹری کا نشان بنا کر حق و سچ کی فتح کا علم بلند کر رہے تھے ، آج ویسی ہی صورت حال میں حریف کی کامرانی و شادمانی کو کرپشن، بد دیانتی اور جھوٹ کے مکروہ کاروبار سے تعبیر کر کے اپنی پارسائی کی دہائی دیں گے تو لوگ آپ کے اس دوغلے رویے پر انگلیاں اٹھائیں گے۔

کل کی تقریر ایک ایسے ہارے ہوئے شخص کا اعتراف شکست تھا جس کے اختیار کا سارا دارومدار ”طاقتوروں“ سے مستعار لیا گیا تھا۔ زبان کے علاوہ زبان حال سے بھی شکستگی، بے بسی اور سیاسی ”یتیمی“ کا احساس ہویدا تھا۔ جب ”سہارے“ کھسکنے لگیں اور پتے ہوا دینے لگیں تو جعلی ہیرو اسی طرح کھوکھلی بڑھک بازی اور ڈراما بازی کرتا ہے۔

وزیراعظم نے سینیٹ الیکشن میں شکست کے فوری بعد اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان کر کے بظاہر یہ ثابت کیا ہے کہ وہ بہت کھرے ہیں مگر خود دس سال سے اس کیس میں عدالت میں پیش نہیں ہو رہے جس میں شہباز شریف نے ان پر جھوٹے الزام کی وجہ سے ہتک عزت کا دعویٰ کر رکھا ہے۔ اس کے علاوہ کتنے ہی مقدمات میں عدالتوں سے حکم امتناعی لے رکھا ہے۔

شبلی فراز کہتے ہیں کہ وزیراعظم نے اخلاقی بنیادوں پر اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ صدقے جاؤں اس انوکھے طرز استدلال کے۔ اب جب کہ پی ڈی ایم نے اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا ہے تو وزیراعظم بھی تھوڑی سی اخلاقیات کا مظاہرہ کریں اور کچھ دن بعد آئین کے مطابق صدر کے کہنے پر اعتماد کا ووٹ حاصل کریں۔ مگر وزیراعظم ایسا ہرگز نہیں کریں گے کیونکہ انہیں حریف کو زنجیروں میں جکڑ کر اور امپائر کو ساتھ ملا کر سیاسی میچ کھیلنے کی عادت ہے۔

لوگ پوچھتے ہیں کہ اخلاقیات کا یہ کیسا معیار ہے کہ قومی اسمبلی کے الیکشن تو دھونس، دھاندلی، دھمکی اور اداروں کو ساتھ ملا کر اخلاقی اور آئینی و قانونی قدروں کو پامال کر کے جیتے جائیں۔ حکومت بنانے اور چئیرمین سینیٹ کے انتخاب کے لیے جہانگیر خان ترین کا جہاز ایم این ایز کو خرید کر لائے اور اس کامیابی کو آپ اخلاقی و سیاسی فتح قرار دیں اور جب یہی ایم این ایز آپ کی نا اہلی اور بدترین کارکردگی کی وجہ سے ضمیر کی آواز پر حفیظ شیخ کے بجائے یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دیں تو آپ ان پر پیسے کی چمک کا الزام لگائیں۔

آپ اپوزیشن کی جماعتوں کے بندے توڑیں تو نعرہ لگائیں کہ آج ہم نے اتنی وکٹیں گرا دی ہیں اور جب یہی کام اپوزیشن آپ کے خلاف کرے تو آپ ان پر کرپشن کا الزام لگا دیں۔ جو کام آپ نے اپنے اے ٹی ایم اور فوجی بوٹوں کی محبت میں گرفتار فیصل واؤڈا سے کروایا ہے وہ دنیا کی کون سی اخلاقی اقدار کا آئینہ دار ہے؟ یعنی جو آدمی قومی اسمبلی کے لیے نااہل ہے، اسے آپ پینترا بدل کے سینیٹ کے لیے منتخب کروا کے وکٹری کا نشان بناتے ہیں اور پھر اخلاقیات کا ڈھنڈورا بھی پیٹتے ہیں؟

ڈیڑھ سال قبل چئیرمین سینیٹ کی عدم اعتماد کی تحریک کے دوران کروڑوں روپے دے کر بندے خریدیں تو وہ جمہوریت کی فتح ہے اور اب آپ کے ایم این ایز کسی مخالف سیاست دان کو ووٹ دیں تو آپ فوراً ان پر بکنے کا الزام لگا دیں۔ آپ کی اسی دوغلے پن کا ماتم الیکشن کمیشن نے بھی کیا ہے۔ جو آئینہ الیکشن کمیشن نے آپ کو دکھانے کی کوشش کی ہے ، اس میں اپنا چہرہ دیکھیں تو آپ کی اخلاقیات کی اصلیت ظاہر ہو جائے۔

جھوٹ آپ بولیں، منافقت آپ کریں، یو ٹرن آپ لیں، تضاد بیانی آپ کریں، وعدہ خلافی آپ کریں، چینی، آٹا، پٹرول، ادویات چوروں کو تحفظ آپ دیں، تیر دشنام اور سنگ الزام آپ چلائیں، امپائر کو ساتھ ملا کر آپ کھیلیں، سازشیں اور ریشہ دوانیاں آپ کریں اور الیکشن کمیشن اور دیگر اداروں کو متنازع آپ بنائیں اور پھر بھی اخلاقیات کا ڈھول پیٹیں؟

اور وزیراعظم صاحب یہ کون سی اخلاقیات ہیں کہ آپ انہی لوگوں سے اعتماد کا ووٹ لیں گے جنہوں نے دو دن قبل آپ کے بقول ضمیر فروشی کر کے آپ کے خلاف سینیٹ میں ووٹ دیے؟

اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بند قبا دیکھ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments