انڈیا کے زیر انتطام کشمیر کے ایک جنگل میں رہنے والی ’ریبٹ گرل‘ نے سکول کیوں چھوڑا؟


روبینہ

دس برس کی رُوبینہ اپنے والد عبدالمجید، والدہ رافیہ مجید اور چھ بھائی بہنوں اور دو خرگوشوں کے ہمراہ جنوبی کشمیر کے مشہور سیاحتی مقام پہلگام کے قریب بائی سارن جنگل میں گارے اور گھاس سے بنے ایک جھونپڑے میں رہتی ہیں۔

روز صُبح رُوبینہ خرگوشوں کو کھانا کھلانے کے بعد اُنھیں گود میں پکڑ کر سیاحوں کا انتظار کرتی ہیں۔ گھوڑوں پر سوار سیاح بائی سارن جنگل کی سیر کے لیے جب رُوبینہ کے جھونپڑے سے گزرتے ہیں تو وہ اُنھیں خرگوش پکڑا دیتی ہیں۔ سیاح خرگوش کے ہمراہ سیلفی کھینچتے ہیں اور رُوبینہ کو کچھ نقدی بخشش کے طور پر دے دیتے ہیں۔

رُوبینہ کے والد عبدالمجید ایک خانہ بدوش بکروال ہیں جو اپنے خاندان سمیت ہمالیائی پیرپنچال خطے کے دونوں جانب ہر سال ہجرت کرتے تھے لیکن کمر اور چھاتی میں شدید عارضوں کے بعد اُنھوں نے بائی سارن جنگل میں ہی قیام کر لیا۔ وہ طویل عرصے سے ہسپتال میں ہیں۔

رُوبینہ کہتی ہیں کہ ’ہم خُوش تھے، سب ٹھیک تھا۔ پاپا مزدوری کرتے تھے اور ہم سب سکول جاتے تھے۔ میں تیسری جماعت میں تھی لیکن اچانک پاپا بہت بیمار ہو گئے۔ ہم سب پریشان تھے، پھر میرے پاپا نے کہیں سے خرگوش منگوائے تاکہ ہمارا دل بہل جائے لیکن میں نے پاپا سے کہا کہ میں اِن ہی خرگوشوں سے کمائی کرلوں گی اور اُن کا علاج کراوں گی۔‘

یہ بھی پڑھیے

کشمیر میں برفباری نے سیاحت کو زندہ کردیا

پابندیوں کے شکار کشمیری بچوں کا سہارا ٹیوشن سنٹر

کشمیری لڑکی کی ڈائری: ’کیا پتہ وہ ڈر سے ہسپتال ہی نہ گیا ہو؟‘

روبینہ

رُوبینہ نے سکول چھوڑ دیا لیکن والد سے اصرار کیا کہ باقی بھائی بہن سکول جاتے رہیں۔ اب ہر روز رُوبینہ خرگوشوں کے ہمراہ سیاحوں کی تاک میں ہوتی ہیں۔ جونہی سیاحوں کا گروپ گھوڑوں پر سوار ہو کر اُن کے جھونپڑے سے گزرتا ہے تو وہ فوراً اُنھیں خرگوش تھماتی ہیں، سیاح سیلفی کھینچتے ہیں اور 100 یا 50 روپے کا نوٹ رُوبینہ کو تھما دیتے ہیں۔

’چار یا پانچ سو روپے کی کمائی ہوتی ہے۔ پھر میں شام کو بھائی کے ہمراہ نیچے مارکیٹ جاتی ہوں۔ گھر کے لیے دال چاول، آٹا وغیرہ اور خرگوشوں کے لیے گاجر لاتی ہوں۔‘

روبینہ

رُوبینہ نے گھریلو ذمہ داریوں کی وجہ سے پڑھائی تو چھوڑ دی لیکن وہ اب بھی سکول جانا چاہتی ہیں۔

’شام کو جب بھائی بہن کتابیں کھولتے ہیں، لکھتے ہیں، تو میرا دل کرتا ہے کہ میں بھی پڑھائی شروع کروں لیکن اگر میں سکول گئی تو کمائی کون کرے گا۔ اب تو میری زندگی میرے خرگوش ہیں، یہ خرگوش نہ ہوتے تو ہم بھوکے مر جاتے۔‘

سیاحوں کی تعداد زیادہ ہو تو رُوبینہ کی ماں رافیہ بھی اُن کی مدد کرتی ہیں۔ ایک جانب رُوبینہ خرگوش لے کر جاتی ہے جبکہ دوسری طرف رافیہ دوسرا خرگوش لے کر سیاحوں کو پیش کرتی ہے۔

روبینہ اور ان کی والدہ

روبینہ کی والدہ کہتی ہیں ’خرگوش لانے سے پہلے میں بستیوں میں جاتی تھی، کوئی چاول آٹا یا نقدی دے دیتا لیکن گزارہ مشکل تھا۔ اللہ کا شکر ہے جب سے رُوبینہ نے خرگوشوں کے ساتھ کام شروع کیا ہے کم سے کم دو وقت کی روٹی اچھی طرح مل جاتی ہے۔‘

لیکن جنگل کے بیچوں بیچ زندگی کی جنگ لڑ رہی رُوبینہ کے خاندان کو اب ایک بڑا مسلہ درپیش ہے۔ اُن کی ماں رافیہ کہتی ہیں کہ جموں کشمیر انتظامیہ نے جنگلاتی اراضی پر رہنے والے خانہ بدوشوں کو جگہ خالی کرنے کا نوٹس دیا ہے۔

روبینہ

’ہر دوسرے تیسرے دن محکمہ جنگلات کے ملازم آتے ہیں اور ہمیں یہاں سے نکلنے کو کہتے ہیں۔ اب یہ پیغام بھیجا ہے کہ برف پگھل جائے گی تو جگہ خالی کرنا لیکن ہم کہاں جائیں۔ میرے خاوند ہسپتال میں پڑے ہیں، مال مویشی کچھ نہیں ہے ہمارے پاس، چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اور رُوبینہ دن بھر خرگوشوں کے ساتھ کچھ پیسہ کما لیتی ہے جس سے گھر چلتا ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp