ٹنڈو بہاول کے مقتول ہاری اور مائی جندو کی جدوجہد


1960 کی دہائی میں افغانستان سے آئے ہوئے محمد جان پٹھان، حیدرآباد کے نواحی گاؤں دیہاتوں میں پھیری کا کام کرتے تھے، اور چوڑیاں، لپ اسٹک، ائرنگ، بالیاں وغیرہ بیچ کر گزارہ کیا کرتا تھا اور رات کو گاؤں ٹنڈو بہاول کے مسجد میں سو جایا کرتا تھا، گاؤں والے اس کو کھانا پینا دے دیا کرتے تھے۔ گاؤں میں ایک زمیندار فتح محمد بھرگڑی بھی تھا، جس کو دو بیٹیاں جیجی جادو اور جیجی سانئن تھیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ محمد جان پٹھان پھیری کے ساتھ اب بھرگڑی خاندان کے باڑے کی چوکیداری بھی کرنے لگا، اور اچھا روزگار دیکھ کر اس نے افغانستان سے اپنے پورے خاندان کو بلوالیا اور انہوں نے فتح محمد بھرگڑی کو اپنی بیٹی شاہ پری کا رشتہ دینے کی پیشکش کی تاکہ ان کو بیٹے کی اولاد نصیب ہو، لیکن فتح محمد بھرگڑی نے انکار کر دیا۔

بعد ازاں محمد جان پٹھان نے اپنی بڑی بیٹی مائی درانی کا رشتہ فتح محمد بھرگڑی کے چچا زاد جھان خان کو دے دیا۔ 12 جنوری 1985 کو جہان خان بھرگڑی کا انتقال ہو گیا، اور اس روز ہی ان کے چچا زاد فتح محمد بھرگڑی کی بیٹی جیجی سانئن کا بھی انتقال ہو گیا۔ فتح محمد کی ایک ہی بیٹی جیجی جادو تھی جو اب محمد جان پٹھان کی بیٹی مائی درانی کے ساتھ رہنے لگی۔ کچھ عرصے بعد محمد جان پٹھان کا بھی انتقال ہو گیا، اور ان کا بیٹا محی الدین بھرگڑی خاندان کی سینکڑوں ایکڑ زمین کا رکھوال بنا۔

کچھ عرصے بعد جہان خان بھرگڑی کی بیوہ مائی درانی نے غلام نبی نامی ایک افغانی سے خاموشی میں شادی کر لی۔ اور غلام نبی اور اس کے سالے محی الدین نے بھرگڑی خاندان کی زمینیں اپنے نام کروالیں، جب بھرگڑی خاندان کے مرحوم فتح محمد بھرگڑی کی بیٹی جیجی جادو کو اس بات کا پتہ چلا کہ مائی درانی نے ان کی پشتینی جائیداد اپنے نام کروالی ہے تو وہ بے بس ہو کر گھر میں بیٹھ گئیں۔ اپریل 1992 میں ان کی زمین پر جب قبضے کی کوشش کے طور پر افغانی وہاں پر آئے تو فتح محمد بھرگڑی کی پردہ دار بیٹی جیجی جادو پہلی بار اپنے گھر سے نکلیں، اور قبضے کی مزاحمت کی۔ مائی جندو اس وقت گھاٹ پر کپڑے دھو رہی تھی، اس نے کپڑے دھونے والی لکڑی اٹھائی اور جیجی جادو کے ساتھ مل کر افغانیوں کو وہاں سے بھگانے میں اہم کردار ادا کیا۔

بعد ازاں، غلام نبی افغانی کی ملاقات، حیدرآباد کے بھٹائی ہسپتال کے نواح میں کپڑے بیچنے والے افغانیوں کی جھگیوں میں کیپٹن ارشد جمیل سے ہوئی اور اس کے ساتھ ساز باز کر کے اس نے وہ زمین ہتھانے کی کوشش کی۔

5 جون 1992 کی شام تھی، سورج غروب ہی ہونے والا تھا، فورسز اور پولیس کی گاڑیاں کیپٹن ارشد جمیل کی سربراہی میں حیدرآباد کے نواحی گاؤں ٹنڈوبہاول میں داخل ہوتی ہیں، کھیتوں، بٹھوں اور ملوں سے مزدوری کر کے گھر لوٹنے والے لوگوں کی گرفتاریاں شروع ہوئیں۔ 9 کسانوں 22 سالہ منٹھار ولد محمد بخش چانڈیو، ان کے بھائی 30 سالہ بہادر، بہنوئی 45 سالہ اکرم چانڈیو، 38 سالہ کنڈو ولد محمود خاصخیلی ان کے بھائی 22 سالہ جاوید ولد محمود خاصخیلی، 17 سالہ غلام مصطفیٰ ولد غلام محمد بروہی، 28 سالہ شفیع محمد ولد غلام علی بھرگڑی، 38 سالہ ہندو نوجوان ہملو ولد تجھو کولہی، اور پاس والے گاؤں جاڑا پیر کے رہائشی 40 سال دھنی بخش ولد صوف خان ببر کو اٹھا کر گاڑیوں میں لاد دیا جاتا ہے اور پھر انہیں دریا سندھ پار کروا کر جامشورو لایا جاتا ہے، جہاں اگلی صبح 6 جون 1992 کو جامشورو کے تاریخی پل کے قریب پمپنگ اسٹیشن کے پاس تمام گرفتار شدگان کو منہ میں گولیاں مار کر قتل کر دیا جاتا ہے۔

اور پھر جامشورو تھانے پر ایک ایف آئی آر نمبر 92 / 57، ایس ایچ او ملوک چنڑ، سب انسپکٹر مشتاق اور اللہ ڈنو کی مدعیت میں سیکشن 307، 353، 148، 149 ( 4 ) بی ایکسپلوسو سبسٹنس ایکٹ 1958 کے تحت درج کی جاتی ہے، ایف آئی آر میں بتایا گیا کہ مارے جانے والے سارے پڑوسی ملک کے دہشتگرد تھے، ان کے قبضے سے 36 دستی بم، 36 ڈیٹونیٹر، 4 کلاشنکوف، 12 کلاشنکوف کے میگزین، 4 گرنیڈ، 36 کلو دھماکہ خیز مواد اور شارٹ گن برآمد کی گئی ہے۔

کیپٹن ارشد جمیل کو میجر کے عہدے پر ترقی دے دی گئی، دو دن بعد 8 جون 1992 کو حیدرآباد کے علاقے ہوسڑی کے تھانے پر ایک اور ایف آئی آر درج کی گئی جس میں بتایا گیا کہ فورسز نے کسانوں کو اغوا کر کے قتل کیا ہے، اور پھر ایک ہفتے بعد 15 جون 1992 کو محترمہ بے نظیر بھٹو ٹنڈو بہاول پہنچتی ہیں، اور مارے جانے والے ہاریوں کے لواحقین سے تعزیت کرتی ہیں، اور یہ واقعہ میڈیا پر چھانے لگتا ہے۔ 24 جون 1992 کو اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف، اور آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ میں جی ایچ کیو میں ملاقات ہوتی ہے، اور اس روز جنرل آصف نواز جنجوعہ کیپٹن ارشد جمیل اور آرٹلری فیلڈ نمبر 86 کے دیگر 14 اہلکاروں، حوالدار محمد اقبال، حوالدار محمد اکرم، حوالدار غلام محمد، نائک رحمان دین، لانس نائک پرویز اختر، لانس نائک کے کورٹ مارشل کا حکم جاری کرتے ہیں۔

ادھر 6 جون 1992 کو جن ٹنڈو بہاول سانحے ے ہاریوں کی تدفین کی جا رہی تھی تو پورا گاؤں سوگ میں ڈوبا ہوا تھا، علاقہ مکیں کہتے ہیں اس رات گاؤں کے کسی بھی گھر میں چولہا نہیں جلا تھا۔ ہر چشم نم، ہر دل شوریدہ تھا۔ قتل کیے گئے ہاریوں کے جنازے جب اٹھے، اس وقت مائی جندو کے گھر کے آنگن سے بھی تین میتیں اٹھیں، میتوں کے ساتھ مائی جندو بھی اٹھ کھڑی ہوئی، سر پر پڑا دوپٹہ اتارا، کمر سے باندھا اور بولی، ”مائی جندو اس وقت تک نہیں روئے گی جب تک اپنے بیٹوں کے قاتلوں کو پھانسی کے پھندے پر جھولتا ہوا نہیں دیکھ لیتی۔“

دو بیٹوں اور داماد کے جنازے نے مائی جندو کو کمزور تو کر دیا تھا لیکن اس کے حوصلے پہاڑوں سے بھی بلند تھے۔ اس نے احتجاج کرتے ہوئے انصاف کی صدا بلند کی۔ اس کے صدا کی گونج اتنی زوردار تھی کہ اس نے محترمہ بے نظیر بھٹو کوایک ہفتے اور چیف آف آرمی اسٹاف اور وزیر اعظم کو ایک مہینے کے اندر اندر ٹنڈو بہاول آنے پر مجبور کر دیا۔

اکتوبر 1992 کو دے دیا، 29 اکتوبر کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے میجر ارشد جمیل کو سزائے موت اور 13 فوجی اہلکاروں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی، لیکن سزائے موت پر عمل نہ ہونے پر 11 ستمبر 1996 کو مائی جندوپھر میدان میں نکل آئی اور جب ان کو معلوم ہوا کہ انسداد ہشتگردی کی عدالت ارشد جمیل کی سزائے موت کو عمر قید میں بدلنے والی ہے تو انہوں نے حیدرآباد کے علاقے جی او آر کالونی میں قائم انسداد دہشتگردی کی عدالت کے باہر احتجاج کیا، اور ان کی بیٹیوں حاکمزادی اور زیب النساء نے احتجاج کے طور پر خودسوزی کر لی، جس میں شدید زخمی ہو گئیں۔

اور سی دوران مائی جندو کو حراست میں لے کر نارا جیل بھیج دیا گیا۔ زخمی حاکمزادی او ر زیب النساء 20 اور 21 ستمبر 1996 کو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسیں، اور ان کے احتجاج ک طور جان دینے کی خبر نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ ٹنڈو بہاول کا سانحہ اب محض سانحہ نہیں رہا تھا، وہ ایک مثال بننے جا رہا تھا، پاکستان کے نظام انصاف پر انگلیاں اٹھنے لگیں، مائی جندو جو ابھی تک نارا جیل میں قید تھی، بے خبر تھیں کہ حاکمزادی اور زیب النساء اب اس دنیا میں نہیں رہیں۔

پورے سسٹم اب مائی جندو کے سامنے گھٹنے ٹیک چکا تھا، کیس کی رفتار گولی کی سی بڑھی، اپیلیں ہوئیں، مسترد ہوتی گئیں، اور حاکمزادی اور زیب النساء کی خودسوزی کے اگلے ماہ 28 اکتوبر کو ملزمان کو مقتولین کے لواحقین کے سامنے پھانسی دے دی گئی۔ مائی جندو کو نارا جیل میں اس بات کی خبر دی گئی کہ ان کے بیٹوں کے قاتلوں کوپھانسی دے دی گئی۔ مائی جندو نے جیل میں منشیات کے کیس میں گرفتار کچھ بلوچ خواتین سے میک اپ کا سامان مانگا، لپ اسٹک اور پاؤڈر لگایا، جیسے ہی وہ خوشی سے اٹھ کر جھومنے کی کوشش ہی کر رہی تھی کہ بیہوش ہو کر گر پڑیں۔ جب ان کو ہوش آیا تو انہوں نے پہلا سوال یہ کیا ”میری بیٹیاں، حاکمزدی اور زیب النساء تو ٹھیک ہیں نہ؟“ پھر خود ہی بولی، ”میری بیٹیاں اللہ کا نام لے کر آگ میں کودی ہیں، وہ ہی ان کو پار لگائے گا۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments