مائیکروسافٹ کا چینی گروہ پر ہیکنگ کا الزام، امریکی حکام کو تشویش


مائیکرو سافٹ

مائیکروسافٹ نے چین کے ایک گروہ ہیفنیئم پر ہیکنگ کا الزام لگایا ہے جنھیں مبینہ طور پر چینی حکومت کی پشت پناہی بھی حاصل ہے تاہم چین نے اس سے انکار کیا ہے

مائیکرو سافٹ کے اس الزام کہ چین نے کمپنی کے ایکسچینج ای میل سافٹ ویئر کو ہیکنگ کا نشانہ بنایا ہے پر امریکی حکام گہری تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔

وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی نے جمعے کو دی گئی پریس بریفنگ میں کہا کہ جو بھی حکومتی ادارے یا نجی کمپنیاں ان سرورز کا استعمال کررہی ہیں انھیں اس مسئلے کو فوری طور پر حل کرنا ہوگا۔

مائیکروسافٹ کا کہنا ہے کہ ہیکروں نے اپنے اہداف کو ان کے میل سرورز کے ذریعے نشانہ بنایا ہے۔ ہیکنگ کے اس مسئلے سے ہزاروں کی تعداد میں کمپنیاں متاثر ہوسکتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ایک مس کال سے فون کیسے ہیک ہو سکتا ہے؟

’ڈارک سائڈ‘ نامی ہیکرز نے چوری شدہ رقم عطیہ کرنا شروع کر دی

ہیکرز نے کس طرح یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سے 11 لاکھ 40 ہزار ڈالر کا تاوان لیا

‘سائبر حملے میں چین بدستور سب سے اہم مشتبہ ہے’

امریکہ ایکے عرصے سے چینی حکومت پر سائبر حملوں کے الزام عائد کرتا آ رہا ہے۔ چین اِن الزامات کی تردید کرتا ہے۔

جین ساکی کا کہنا تھا کہ وائٹ ہاؤس کو اس بات پر تشویش ہے کہ اس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ مائیکروسافٹ کے سرورز میں موجود کمزوریوں کے اثرات دور رس ہو سکتے ہیں۔

ہم اس ہیک کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟

مائیکروسافٹ کے کارپوریٹ وائس پریزیڈینٹ برائے کسٹمر سیکیورٹی، ٹام برٹ نے ہیکنگ کے متعلق یہ خبر ایک بلاگ پوسٹ کے ذریعے جمعرات کو دی۔ انھوں نے سیکیورٹی میں خامیوں کا ذکر کیا جس کی وجہ سے ہیکرز کو مائیکروسافٹ سرورز تک رسائی حاصل ہوئی۔ اس پوسٹ میں انھوں نے ان خامیوں کو دور کرنے کے لیے کیے گئے اقدامات کا بھی ذکر کیا۔

مائیکروسافٹ کی اپنی ٹیم جو اس نوعیت کے واقعات سے نمٹتی ہے، کا کہنا تھا کہ وہ کافی وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ اس حملے کے پیچھے چینی گروہ ہیفنیئم ہے جسے ریاست کی پشت پناہی حاصل ہے۔

انھوں نے کہا کہ ہیفنیئم نے وبا پر تحقیق کرنے والے محققین، قانونی اداروں، تعلیمی اور دفاعی تنصیبات سے ڈیٹا چوری کرنے کی کوشش کی۔

مائیکرو سافٹ

چینی حکومت کے ایک ترجمان نے روئٹرز کو بتایا کہ اس ہیکنگ کے پیچھے اُن کے ملک کا ہاتھ نہیں ہے۔ بیجنگ بارہا امریکہ کی جانب سے سائبر حملوں کے الزامات کی تردید کر چکا ہے۔

خبر رساس ادارے روئٹرز کے مطابق 20 ہزار سے زیادہ ادارے صرف امریکہ میں اس ہیک کا نشانہ بنے ہیں۔

سیکیورٹی ایکسپرٹ اور بلاگر برائن کریبس کے مطابق یہ تعداد کہیں زیادہ ہے۔ انھوں نے ایک بلاگ پوسٹ میں لکھا کہ ’پورے امریکہ میں کم از کم 30 ہزار اداروں کو اس سے نقصان پہنچا ہے جن میں بہت سے چھوٹے کاروبار، شہری، علاقائی ادارے اور مقامی حکومتیں شامل ہیں جو گذشتہ کچھ دنوں میں خلاف غیر معمولی طور پر جارحانہ چینی جاسوس یونٹ کی جانب سے ہیک کی گئیں جس کا مقصد نشانہ بننے والے اداروں سے ای میلز چرانا ہے۔’

برائن کریبس نے کہا کہ مائیکروسافٹ کے اعلان کے بعد ان حملوں میں ڈرامائی طور پر تیزی آئی ہے۔

مائیکروسافٹ اس بارے میں کیا کر رہا ہے؟

امریکی سائبر سیکیورٹی ادارے سی آئی ایس اے نے اس سائبر حملے کے بعد ہنگامی طور پر ایک حکم نامہ جاری کیا جس میں مختلف شعبوں کو فوری اقدامات کرنے کا کہا گیا۔

وائٹ ہاؤس کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر جیک سیلیوین نے نیٹ ورک مالکان سے کہا ہے کہ وہ جلد از جلد سیکیورٹی پیچ ڈاؤن لوڈ کریں۔

مائیکروسافٹ نے متاثر ہونے والی کمپنیوں کی تعداد کے حوالے سے تصدیق نہیں کی لیکن ادارے نے کہا ہے کہ وہ امریکی حکومت کے ساتھ مل کر اس پر کام کررہے ہیں اور اپنے صارفین کو یہ پیغام دیا کہ وہ ’جلد از جلد اپنے متاثرہ سسٹمز کو اپ ڈیٹ کریں۔’

گذشتہ 12 ماہ کے دوران یہ آٹھواں ایسا موقع ہے جب مائیکروسافٹ نے کسی ریاست پر سول سوسائٹی کے لیے انتہائی اہم اداروں کو نشانہ بنانے کا الزام لگایا ہے۔

مائیکروسافٹ نے کہا ہے کہ یہ حملے گذشتہ برس ہونے والے سولر ونڈ اٹیک سے کسی طرح سے بھی منسلک نہیں ہیں جس سے امریکی حکومتی ادارے متاثر ہوئے تھے۔

مائیکروسافٹ کا کہنا ہے کہ ہیفنیئم ویسے تو چین میں ہے لیکن یہ مبینہ طور پر اپنا کام امریکہ میں ورچوئل پرائیوٹ سرورز کے ذریعے کرتا ہے۔

ویسے تو چینی حکومت اور امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے آپس میں تعلقات کافی کشیدہ رہے ہیں لیکن مائیکروسافٹ سنہ 1992 سے چین میں موجود ہے۔

فیس بک اور ٹوئٹر پر چین میں پابندی ہے لیکن مائیکروسافٹ کے سوشل مییڈیا پلیٹ فارم لنکڈ ان پر چین میں پابندی نہیں ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ مائیکروسافٹ کا سرچ انجن بِنگ بھی چین میں دستیاب ہے حالانکہ چینی عوام زیادہ تر مقامی سرچ انجن بیڈو استعمال کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32543 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp