کچھ آنے اور جانے والے سینیٹروں کے بارے میں


صحافت، سیاست، کھیل، شوبز، سائنسدان، کاروبار زندگی کا کوئی بھی میدان ہو استقامت کے ساتھ کھڑے رہنے والے ظفریاب ہوتے ہیں۔ آج ہم سیاست کی بات کرتے ہیں دنیا کی سیاسی تاریخ اٹھا کر دیکھیں جو مصائب میں ثابت قدم رہے جو استقامت کا پہاڑ بنے رہے بالآخر وہی منزل مراد پر پہنچے۔ سیاست کے میدان میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو عہدوں کے محتاج نہیں ہوتے بلکہ عہدے ان کے محتاج ہوتے ہیں۔ ان عہدوں پر براجمان ہونے سے ان کی نہیں بلکہ عہدوں کی تکریم بڑھتی ہے۔ نیلسن منڈیلا 30 سال تک پس زنداں رہے ان کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آئی۔ رہائی کے بعد جنوبی افریقہ کے صدر منتخب ہوئے حالانکہ کی صدارت کا عہدہ ان کے سامنے ہیچ تھا۔ ان کے صدر بننے سے اس عہدے کو تکریم ملی منڈیلا کی عظمت کی دنیا پہلے سے معترف تھی۔

پاکستان میں حالیہ ہونے والے سینیٹ انتخابات میں کچھ نئے لوگ سینیٹر منتخب ہوئے اور کچھ لوگوں کو سینیٹ انتخابات لڑنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ میرا شمار ان قلمکاروں میں ہرگز ہرگز نہیں ہوتا جو آنے والوں پر گل پاشی کرے اور جانے والوں پر نوحہ لکھے ہاں مگر کچھ لوگ عظیم مقصد کے ساتھ اتنے کمیٹڈ ہوتے ہیں کہ ان کی توصیف کرنی چاہیے۔ نون لیگ کے سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید کو سینیٹ انتخابات لڑنے کی اجازت نہیں ملی جس کا مجھے دکھ ہے اور دوسری طرف مجھے خوشی بھی ہے کہ ایوان بالا میں نون لیگ کے ساتھ استقامت دکھانے والے معروف دانشور عرفان صدیقی اس معزز ایوان کے رکن بنے۔

میں اپنی صحافتی ذمہ داریوں کے سلسلے میں ایوان بالا تواتر کے ساتھ جاتا ہوں نون لیگ سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز میں راجہ ظفرالحق، پرویز رشید، مشاہد حسین سید، آصف کرمانی، سردار محمد یعقوب خان ناصر، جاوید عباسی، رانا محمودالحسن، شاہین خالد بٹ، رانا مقبول احمد، مشاہد اللہ خان مرحوم، حافظ عبدالکریم، ڈاکٹر اسد اشرف، مصدق ملک، چوہدری تنویر خان، اسد علی جونیجو، سید محمد صابر شاہ، جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم، جنرل ریٹائرڈ صلاح الدین ترمذی، غوث محمد خان نیازی، دلاور خان، آغا شاہ زیب درانی، نجمہ حمید، راحیلہ مگسی، کلثوم پروین، پروفیسر ساجد میر اور کراچی سے تعلق رکھنے والے سلیم ضیاء جیسے نام آتے ہیں۔

میں نے یہ سارے نام اس لیے لکھے ہیں کہ قارئین اندازہ لگا لیں ان میں کتنے ہیں جنھوں نے ایوان بالا میں کسی بھی موضوع پر پر زبان کھولی ہو یا شریف خاندان اور مسلم لیگی قیادت پر آنے والی قیامت پر صدائے احتجاج بلند کی ہو۔ راجہ ظفرالحق اپوزیشن قائد ہونے سے کبھی کبھار لب کشائی کرتے ہیں ان کے علاوہ تواتر سے بولنے والوں میں سینیٹر پرویز رشید، مشاہد اللہ خان مرحوم، جاوید عباسی اور خال خال مصدق ملک کی آواز سنائی دیتی ہے۔

مشاہد اللہ خان مرحوم ایوان بالا میں جب بھی تقریر کرتے تو ایوان میں جان پڑ جاتی وہ اپنی تقریر میں اکثر ذومعنی اشعار کا استعمال کرتے وہ تادم مرگ نون لیگ کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے رہے۔ پرویز رشید بھی ایوان بالا میں جمہوریت کی بات کرتے مشرف نے اپنے سیاہ دور حکومت میں ان پر مصائب کے پہاڑ توڑے مگر وہ جمہوریت کے ساتھ کھڑے رہے۔ اگر وہ ہمت سے اپنی یادداشتوں کو قلمبند کریں تو مشرف دور میں ان پر ہونے والے مظالم پڑھ کر انسانی روح کانپ اٹھے۔ ایک بار ان سے ملتمس ہوا تھا کہ وہ اس پر کتاب لکھیں انھوں نے حامی بھری مگر ابھی تک شروعات نہیں کی جمہور کی آواز بلند کرنے کی پاداش میں اب کی بار انھیں سینیٹ سے باہر کر دیا گیا۔

دوسری طرف معروف دانشور عرفان الحق صدیقی کا ایوان بالا کا رکن بننا ایوان کی تکریم ہے۔ عرفان صدیقی سیاست میں آنے سے قبل فیڈرل گورنمنٹ سر سید کالج راولپنڈی میں 25 برس درس و تدریس کے شعبے سے منسلک رہے ان کے شاگردان کی ایک بڑی تعداد ملک کے کلیدی عہدوں پر پہنچے سپہ سالار جنرل باجوہ بھی ان کے شاگردان میں سے ہیں۔ 1990 ء میں شعبہ صحافت سے منسلک ہوئے اور کم عرصے میں یہاں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ حکومت کی طرف سے ان کی علمی و ادبی سرگرمیوں کے اعتراف میں قومی اعزاز ”ہلال امتیاز“ سے نوازا گیا، چھ کتابوں کے مصنف ہیں جن میں سے ان کی شہرہ آفاق کتاب ”مکہ مدینہ“ بیسٹ سیلر کتاب ہے۔

1998 ء سے 2001 ء تک سابق صدر پاکستان رفیق تارڑ کے ساتھ بطور پریس سیکریٹری منسلک رہے 2014 ء 2018 ء تک سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے ساتھ بطور مشیر کام کیا ان کا شمار میاں نواز شریف کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ نون لیگ کی صف اول کی قیادت پر کڑا وقت آیا تو عرفان صدیقی بھی اس لپیٹ میں آ گئے جولائی 2019 ء کی ایک گرم رات جب وہ اپنی لائبریری میں بیٹھ کر اپنی یادداشتیں قلمبند کر رہے تھے حکومت وقت نے کرایہ داری ایکٹ کے ایک بے بنیاد مقدمے میں گرفتار کر لیا۔ اگلے دن انھیں ہتھکڑیاں لگا کر عدالت پیش کیا گیا جہاں سے انھیں اڈیالہ پس زنداں کیا گیا۔ ان پر بے بنیاد مقدمہ اس لیے بنایا گیا کہ وہ نواز شریف کی حمایت سے دستبردار ہو جائیں مگر وہ ڈٹے رہے۔ 2021 ء کے سینیٹ انتخابات میں نون لیگ نے انھیں پنجاب سے ٹکٹ دیا جہاں سے وہ بلا مقابلہ سینیٹر منتخب ہوئے۔ امید ہے کہ وہ ایوان بالا میں ہمیشہ کی طرح آئین، جمہوریت کی سربلندی کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments