اعتماد کا ووٹ اصل میں بدلتا کیا ہے؟


زندگی گزارنے کے حوالے سے مشہور مینیجمنٹ پریکٹیشنر، سٹیو کوی نے اک کتاب تحریر کی تھی جس میں پراثر اور کامیاب لوگوں کی سات عادات کا تذکرہ تھا۔ اس میں سے ایک عادت یہ تھی کہ کوئی بھی کام شروع کرنے سے پہلے، اس کے اختتام پر نظر ہونی چاہیے۔ زندگی کے دباؤ میں یہ اصول عموماً نظروں اور ذہن سے اوجھل ہو جاتا ہے، مگر ذاتی یا پیشہ وارانہ بحران میں اس کا یاد آ جانا عمومی تسلی کا باعث بنتا ہے۔

پچھلے دو ہفتوں سے پاکستانی سیاست بہت گرم ہے۔ سینیٹ کے الیکشنز تھے اور اس میں اک سیٹ، پاکستان کے اک محکمے کی کبھی ڈھکی اور کبھی کھلی مدد رکھنے والی جماعت کے ہاتھ سے نکل گئی۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر اس کے طوفان نے اک ایٹمی ریاست پر بظاہر حکمرانی کرنے والے شخص کو اتنا جذباتی اور غصیلا کر دیا کہ انہوں نے خود سے ہی اعتماد کا ووٹ لینے کی ٹھانی۔

حکومتوں کے دل بڑے ہوتے ہیں۔ اک سیٹ کے ہار جانے کی سمبالک ویلیو بھلے بڑی ہوتی ہو، مگر وفاقی دارالحکومت کی اک سینیٹ کی سیٹ، باقی صوبوں کی اک نشست کے ہی برابر ہے۔ مگر یہاں معاملہ دل اور ظرف کے بڑے ہونے کا ہے۔

آج اعتماد کا خودساختہ ووٹ بھی مکمل ہو گیا۔ اس سے حاصل کیا ہوتا ہے؟ اور یہ اک سنجیدہ سوال ہے۔

کیا اس سے وطن و ریاست کی سیاسی و معاشی اوقات میں کوئی فرق پڑتا ہے؟ کیا اس سے بجلی کے نرخ کم ہوتے ہیں؟ کیا اس سے گیس کے نرخ کم ہوتے ہیں؟ کیا اس سے انویسٹر کانفیڈنس بحال ہوتا ہے؟ کیا اس سے کشمیر واپس آتا ہے؟ کیا اس سے مہنگائی کم ہوتی ہے؟ کیا اس سے ریاست پر شہریوں کا اعتماد بڑھتا ہے؟ اور ان جیسے درجنوں سوال مزید بھی ہیں، کہ جن کے جوابات پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

حقیقت، آج کے اعتماد کے ووٹ سے نہیں بدلتی، بلکہ اک بہت سادہ اصول کے تحت، مزید خراب ہوتی ہے کہ پچھلے ڈھائی برس کی جو کارکردگی رہی، وہی کارکردگی اگلے ڈھائی برس بھی ہو گی اور ایسی ڈولتی ہوئی سیاست میں کون ہو گا جو اس جاری شدہ سرکس میں اپنا پیسہ ڈالے گا جس سے صنعت و معیشت کا پہیہ چلے گا جس سے پچاس لاکھ گھر بنیں گے اور ایک کروڑ نوکریاں تخلیق ہوں گی؟

اب یہ بات قطعاً خفیہ نہیں رہی کہ ہمارے وزیراعظم صاحب کی وکالت تو خود بڑے بڑے لوگ، اپوزیشن رہنماؤں کے سامنے کرتے رہے اور سیاست کا جواب جب جب پریس کانفرنسوں کے ذریعے آیا، سیاست دانوں کا جواب الجواب اس رد کرتا چلا گیا۔ تو لہذا، یہ اک تماشا ہے جو جاری ہے۔ اس کو تماشے کی ہی نیت سے دیکھیے۔

ہاں مگر، وہ کہ جن کی بدولت پاکستانی معاشرت کی اقدار، جو ڈیڑھ دو باقی تھیں، کا جنازہ ہر دوسرے دیہاڑے اٹھ جاتا ہے، ان کی پاکستانی وراثت کے حوالے سے غیر جذباتی ہو کر سوچا کیجیے۔

میری ذاتی رائے میں تو عمران نیازی صاحب کو ڈھائی برس مزید ملنے چاہئیں، اور اس دوران چونکہ بڑے صاحب کی مدت ملازمت ختم ہو جائے گی تو وہ اک بار پھر کابینہ کے اجلاس کے ذریعے اک توسیع اور بھی لے سکتے ہیں۔ موجودہ نظام کے سربراہ، اک ایسا ابتدائیہ تھے /ہیں، کہ جن کا کوئی منطقی اختتام نہ تھا۔ یہ طاقت کے مرکز کا شوق تھا، سو پورا ہوا۔ پاکستان کا کیا ہے، پیزا کھا کر لڑھکتا رہے۔

احباب، سیاست و ریاست کے باب کے بارے میں جذباتی نہ ہوں۔ آپ، اک شہری کی حیثیت سے، اتنا تعلق ہی رکھیں، کہ جتنا یہ آپ کے ساتھ رکھتی ہے۔ باقی آپ کی مرضی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments