وہی تو ہے جو نظام ملک چلا رہا ہے


ایک زرداری سب پہ بھاری، زندہ ہے بھٹو، ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ کامیاب ہو گیا، ہماری ٹکٹ کی بہت اہمیت ہے، ووٹ کو عزت مل گئی۔ ان نعروں نے آج کل ملک سر پر اٹھا رکھا ہے، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے کارکن خوشی سے پاگل ہو رہے ہیں کہ سینٹ الیکشن میں اسلام آباد کی سیٹ پر حکومت کو شکست دیدی، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے امیدوار سید یوسف رضا گیلانی سینٹر منتخب ہو گئے، حکومت کا امیدوار وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ ہرا دیا گیا

کیا عوام کو بیوقوف بنایا جا رہا ہے، عوام بھی ایسے بھولے ہیں ہمیشہ آسانی سے بیوقوف بن جاتے ہیں اور انشاءاللہ مستقبل میں بھی بنتے رہیں گے، عوام کی عقل اتنی ہے کہ جو بھی مداری تماشا لگاتا ہے اس کے گرد اکٹھے ہو جاتے ہیں اور گھنٹوں تماشا دیکھتے رہتے ہیں کہ مداری پٹاری سے کچھ خاص چیز نکالے گا، طویل تماشے کے بعد مداری اپنا سامان لپیٹتا ہے اور آئندہ انہونی چیز نکالنے کا لارا لگا کر نکل جاتا ہے

سیاستدان اور سیاسی کارکن کس بات کا جشن منا رہے ہیں، کس بات پر فتح کے نعرے لگا رہے ہیں، کس بات پر ناچ ناچ کر ہلکان ہو رہے ہیں، کیا تیر مار لیا ہے سیاسی جماعتوں نے، کیا کارنامہ سرانجام دیا، جواب ملتا ہے کہ تاریخ میں پہلی بار سینٹ میں حکومت کو شکست دی ہے، مجھے سمجھ نہیں آتی ہے اس میں کامیابی کس بات کی ہے؟

باب صرف اتنی ہے کہ عمران خان کو وزیراعظم بنے ڈھائی سال گزر چکے ہیں اب وقت آ گیا ہے کہ ان کو جھٹکا دیا جائے، یہ بات میں ایک سال سے کہہ رہا ہوں کہ جیسے ہی ڈھائی سال مکمل ہوں گے عمران خان کو گندا کرنے کا کام شروع ہو جائے گا مگر مجال ہے کہ تحریک انصاف کے کارکن کسی کی بات سن لیں

پاکستان کی تاریخ میں آج تک کس وزیراعظم نے پانچ سال کی اپنی مدت پوری کی ہے، زیادہ دور نہیں جاتے، اس کھیل کو 1985 ءسے دیکھتے ہیں، آمر جنرل ضیاءالحق نے 8 سالہ مارشل لا کے بعد نام نہاد جمہوریت کو ”جنم“ دیا، 1985 ءمیں غیر جماعتی انتخابات ہوئے، محمد خان جونیجو وزیراعظم بن گئے یا بنا دیا گیا، بعد میں حالات ایسے پیدا کر دیے گئے کہ آمر جنرل ضیاءالحق نے ہی محمد خان جونیجو کو 29 مئی 1988 ءمیں فارغ کر دیا

قدرت پاکستان کے عوام پر مہربان ہوئی، آمر جنرل ضیاءالحق طیارے کے حادثے میں مارا گیا، 1988 ءمیں عام انتخابات ہوئے، پیپلز پارٹی زیادہ نشستیں حاصل کر کے حکومت میں آ گئی، بینظیر بھٹو وزیراعظم پاکستان بن گئیں، ٹھیک 18 ماہ بعد ان کی حکومت کو برطرف کر دیا گیا، پھر پنجاب کے ابھرتے ہوئے لیڈر جو ایک نرسری میں پل کر تناور درخت بن گئے تھے ان کو عام انتخابات کے بعد حکومت مل گئی، مسلم لیگ نواز کے سربراہ میاں محمد نواز شریف 9 نومبر 1990 کو وزیراعظم بنے اور دو سال بعد ان کی حکومت بھی برطرف کردی گئی

پھر 1993 ءمیں عام انتخابات ہوئے، اس مرتبہ پیپلز پارٹی کی باری تھی اس لئے بینظیر بھٹو بھی دوسری مرتبہ وزیراعظم بن گئیں، اس وزارت عظمی کی قیمت ان کو اپنے بھائی میر مرتضی بھٹو کے قتل کی صورت میں ادا کرنا پڑی، 1996 ءمیں ان کی حکومت ایک بار پھر برطرف کردی گئی

1996 ءمیں عام انتخابات ہوئے، مسلم لیگ نواز کے قائد نواز شریف دوسری مرتبہ وزیراعظم پاکستان بن گئے، پھر وہی حالات پیدا ہونے لگے اور وہ ایک بار پھر 12 اکتوبر 1999 کو فارغ کر دیے گئے، اس بار نواز شریف کو فارغ کرنے والا ایک جنرل تھا، آمر جنرل پرویز مشرف ملک پر مسلط ہو گیا جو طویل عرصہ تک ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بنا رہا

آمر جنرل پرویز مشرف نے بھی ایک جمہوری بچے کو جنم دیا، 2002 کو عام انتخابات ہوئے، میر ظفراللہ جمالی جیسا شخص اس ملک کا وزیراعظم بن گیا، 2 سال بعد 2004 میں جمالی کو بھی فارغ کر دیا گیا اور امپورٹڈ وزیراعظم شوکت عزیز عوام پر مسلط کر دیا گیا، شوکت عزیز اسمبلی کی پانچ سالہ آئینی مدت پوری ہونے تک وزیراعظم رہا ان کی وزارت عظمی کا دور بھی تقریباً 3 سال رہا

2007 ءمیں عام انتخابات سے قبل پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بینظیر بھٹو کو خودکش دھماکے میں شہید کر دیا گیا اور عام انتخابات ملتوی کر دیے گئے، 2008 ءمیں پیپلز پارٹی کو بینظیر بھٹو کے خون بہا کے طور پر حکومت دی گئی، پنجاب سے سید یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بن گئے، پھر ایک عدالتی فیصلے کے تحت 2012 میں ان کو وزارت عظمی سے فارغ کر کے گھر بھیج دیا گیا

سید یوسف رضا گیلانی کے بعد جمہوری حکومت تو چلتی رہی کیونکہ آصف علی زرداری نے اس ملک اور قوم پر یہ احسان کیا تھا کہ انہوں نے 58 ( 2 ) بی ختم کردی تھی اس لئے اسمبلیاں ٹوٹنے سے بچ گئیں اور پھر باقی ماندہ مدت کے لئے پیپلز پارٹی کے ہی راجہ پرویز اشرف وزیراعظم بن گئے، آصف علی زرداری کی وجہ سے اسمبلیوں نے اپنی 5 سالہ آئینی مدت پوری کی

2013 ءکے انتخابات میں مسلم لیگ نواز کے صدر نواز شریف الیکشن جیت گئے، اس الیکشن کا دلچسپ امر یہ تھا کہ نواز شریف نے نو بجے ہی ٹی وی چینلز پر آ کر اپنی فتح کا اعلان کر دیا جس کی وجہ سے ان کی فتح تاریخ میں متنازع سمجھی جاتی ہے، نواز شریف پاکستان کے تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے اور ایک نیا ریکارڈ بنایا پھر نواز شریف کو پاناما کیس میں سے اقامہ نکال کر نا اہل قرار دیدیا گیا اس طرح وہ بھی اپنی آئینی مدت پوری نہ کرسکے اور 2017 میں عدالت عظمی کی جانب سے نا اہل قرار دیے جانے کے بعد فارغ کر دیے گئے، نواز شریف کی نا اہلی کے بعد اسمبلی تو برقرار رہی مگر وزیراعظم بدل گیا، شاہد خاقان عباسی کو مسلم لیگ نواز نے وزیراعظم بنا دیا جو اسمبلی کی 5 سالہ مدت پوری ہونے تک وزیراعظم رہے

آج جیالے نعرے لگا رہے ہیں ایک زرداری سب پہ بھاری، کیا بھونڈا نعرہ ہے، مسلم لیگ نواز کا 5 سالہ دور حکومت اور اب تحریک انصاف کا ڈھائی سالہ دور حکومت، کل ساڑھے سات سال زرداری کا بھاری پن کہاں تھا، وہ ساڑھے سات سال ہلکے کیوں رہے، صاف ظاہر ہے سب سے بھاری بھی گرین سگنل کے انتظار میں تھے

مختصر سا یہ جائزہ ہے کہ کوئی بھی وزیراعظم اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کر سکا، اب پاکستانیوں کو سوچنا چاہیے کہ جب بینظیر بھٹو اور نواز شریف جیسے زیرک سیاستدان ”طاقت“ کے سامنے بے بس رہے جن کے پاس عوام کی حمایت بھی تھی، ان کے ایک اشارے پر ہزاروں نہیں لاکھوں کارکن سڑکوں پر آ جاتے تھے وہ کچھ نہ کرسکے، تو کیسے ممکن ہے کہ عمران خان جیسا نوآموز جو کہ سیاستدان نہیں ایک کرکٹ کا کھلاڑی ہے وہ پانچ سال پورے کر جائے گا

عمران خان کی حکومت کو ڈھائی سال گزر چکے ہیں، ان کی حکومتی کارکردگی پر بات کرنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے، ان کے اپنے ارکان پارلیمنٹ اور کارکن بھی ناقص حکومتی کارکردگی پر نادم ہیں، اوپر بیان کرچکا کہ ڈھائی سال گزر گئے، عمران خان کے صفحات کو گندا کرنے کا کام شروع ہو چکا ہے، پنجاب سے ایک اہم استعفی جلد لیا جا رہا ہے، جس کے بعد عمران خان کے لئے مزید مسائل پیدا کیے جائیں گے، عمران خان کو بھی زرداری کی طرح غلط فہمی تھی کہ وہ بہت ذہین سیاستدان بن چکا ہے اس لئے اس کے ساتھ کوئی کچھ نہیں کرے گا

سیاستدان بیچاروں کی اوقات ہی کیا ہے، وزیراعظم بنتے ہیں تو بڑے سے بڑے افسران اور فور سٹار جنرل سلوٹ کرتے ہیں مگر پھر ایک کیپٹن ہی ان کو ٹھڈے مار کر نکالتے ہیں، جو اہلکار پروٹوکول دیتے ہوئے راستے صاف کرتے ہیں وہی بعد میں عدالتوں میں پیش کرتے ہیں، یہی سیاستدان درباری بھی ہیں بھکاری بھی کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ

وہی تو ہے جو
نظام ملک چلا رہا ہے
وہی وہی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments