‘دیوار پہ لکھی تحریر صاف پڑھی جا رہی ہے مگر ہم پس دیوار جھانکنے میں محو ہیں’


ایک مزاح نگار فرما گئے ہیں کہ جو شخص سیاست پہ بحث کرتے ہوئے اپنے بلڈ پریشر اور گالی پہ کنٹرول رکھ سکے وہ یقینا ولی اللہ ہو گا۔

کچھ ایسا غلط بھی نہیں کہتے بلڈ پریشر کا تو معلوم نہیں لیکن گالی پہ کنٹرول کا بٹن پچھلے کچھ برس سے خراب ہے۔ گالی اور سیاست کا ساتھ کچھ ایسا لازم و ملزوم ہوا کہ سیاست کے بازار میں نظریات کے دام گھٹ گئے اور دشنام کا سکہ چلنے لگا۔ ہوتے ہواتے سیاست کہیں غائب ہو گئی اور پیچھے صرف گالم گلوچ رہ گئی۔

سچی بات تو یہ ہے کہ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ہمیں یہ گالم گلوچ بھی گوارا ہو گئی۔ یوں لگتا تھا اگر عوام اپنے غم و غصے کے اظہار کے لیے یہ راستہ نہیں اپنائیں گے تو یہ سیلاب کسی روز سب بند بہا کر لے جائے گا۔

یوں تو پاکستانی عوام نے خوشحالی کے دن کم ہی دیکھے ہیں لیکن پچھلے ڈھائی برس اور خاص کر پچھلے ایک برس نے پہلے سے ناخوش لوگوں کو مزید ناخوش کر دیا ہے۔ نجی محفلوں میں ہونے والے سیاسی مباحث تلخ سے تلخ تر ہوتے جارہے ہیں۔

دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات سے پہلے ایک امید تھی، خاص کر متوسط پڑھے لکھے طبقے کو کہ سب کچھ نہ سہی کچھ تو بدلے گا مگر جب پارٹی ٹکٹس کی تقسیم ہوئی اور الیکٹیبلز کے نام پہ ‘خاکی انڈوں’ کا ٹوکرا اٹھا لیا گیا تو آنے والے وقت کا نقشہ کافی حد تک سامنے آ گیا تھا۔

ڈھائی سال سے بھی زیادہ عرصہ یہ خاکی انڈے سہنے کے باوجود کچھ بھی نہیں بدلا بلکہ حالات بد سے بدترین ہوتے چلے گئے۔ یوسف رضا گیلانی والے اپ سیٹ کے بعد میں نے ایک عرصے کے بعد لوگوں کو خوش دیکھا۔

یہ عجیب سی خوشی تھی جیسے کسی برے خواب سے بیدار ہونے پہ خود کو محفوظ دیکھ کر ہونے والی خوشی۔ لوگوں کو یوں لگ رہا تھا کہ ہواوں کا رخ بدل گیا ہے۔ ایک بات سمجھ کر چلنا چاہیے کہ ہوا کا رخ وہی اچھا لگتا ہے جس میں ہمارا فائدہ ہو۔ سرگوشیوں میں کہا جانے لگا کہ لگتا ہے سر سے ہاتھ اٹھ گیا ہے۔

وزیر اعظم صاحب نے حسب توقع عوام سے خطاب کر کے بتایا کہ اپوزیشن ایک نمبر کی چوٹی، لفنگی اور بےایمان ہے۔ نیز ان کی پارٹی ہی میں وہ لوگ تھے جو دو دو کروڑ میں بک گئے۔ یہ آخری جملہ میں نے اخذ کیا۔

لوگ سنتے رہے، اور کر بھی کیا سکتے تھے؟ اعتماد کا ووٹ لیا گیا اور اس تجدید عہد وفا کے بعد جیسے سب کچھ پہلے کی طرح ہو گیا۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ پاکستان تحریک انصاف میں بہت گہری دراڑ پڑ چکی ہے۔

ایک شے ہوتی ہے اخلاقیات، جو دنیا کے ہر شعبے میں برتی جاتی ہے۔ سیاست کی بھی اخلاقیات ہوتی ہیں۔ ہمارے اخلاقیات کے استاد پڑھایا کرتے تھے کہ اخلاقیات پہ عمل کرنے کی بظاہر نہ کوئی وجہ ہوتی ہے اور نہ مجبوری لیکن ضابطہ اخلاق پہ عمل کرنا پھر بھی بہت ضروری ہوتا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ جب آپ اخلاق کی سرحد پھلانگ لیں گے اور اس حرکت کے حق میں دلائل بھی دیں گے تو آپ اس بد اخلاقی کو روایت میں تبدیل کر دیں گے۔ ہوتے ہوتے یہ روایت اتنی پختہ ہو جائے گی کہ آپ چاہتے ہوئے بھی اسے ختم نہیں کر پائیں گے۔

سیاست میں جوڑ توڑ ہوتی ہے لیکن جب یہ جوڑ توڑ، اخلاقیات کی سرحد پھلانگ لیتی ہے تو ایک غلط روایت جنم لیتی ہے۔ پھر آپ چاہتے ہوئے بھی اسے ختم نہیں کر سکتے۔

آج ہماری اپوزیشن اور حکومتی پارٹی دونوں ہی جس موقف کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں، بد قسمتی سے ان کی اپنی ڈالی ہوئی روایات ہیں۔ بکاو لوگوں کو خریدتے ہوئے کیا یہ سوچا تھا کہ کل اگر بڑی قیمت لگ گئی تو؟

جیسا تیسا، جمہوری عمل جاری رہا تو سیکھتے سیکھتے شاید ہم سیکھ ہی جائیں گے کہ غلط ہمیشہ غلط ہوتا اور درست ہمیشہ درست۔ ان کے درمیان اگر مگر نہیں ہوتا۔ اگر مگر، چونکہ چنانچہ کرتے کرتے آج ہم ایک مضحکہ خیز صورت حال کا شکار ہیں۔

دیوار پہ لکھی تحریر صاف پڑھی جا رہی ہے مگر ہم پس دیوار جھانکنے میں اتنے محو ہیں کہ دیکھ نہیں پا رہے کہ دیوار پہ جلی حروف میں کیا لکھا ہے؟

عوام بے وقوف سہی، نادان سہی، اپنے ووٹ کی قیمت سے انجان سہی لیکن بہر حال ان کو مطمئن کرنا ہی پڑتا ہے۔ عوام میں بے چینی ہے، افراتفری ہے، مایوسی ہے۔ گو وزیر اعظم صاحب اپنے اراکین اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لے چکے ہیں لیکن حالیہ ضمنی انتخابات اور سینٹ کے الیکشن نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ اعتماد اب صرف اس صورت میں کیا جا رہا ہے جب یہ ووٹ کھلے عام دیے جا رہے ہیں۔

خفیہ رائے شماری کا ممکنہ نتیجہ کیا ہو سکتا تھا دیوار پہ جلی حروف میں یہ ہی لکھا ہے۔ گو اس کے نیچے وہ بھی لکھا ہے جو کہ پاکستان میں اکثر دیواروں پہ لکھا ہوتا ہے لیکن ہماری دور کی نظر کمزور ہے، آپ پڑھنا چاہیں تو دونوں نوشتوں کو ملا کر پڑھ لیجیے۔ امید ہے ساری صورت حال سمجھ آ ہی جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).