باس سیریز: ’فیشن کی صنعت میں آلودگی نے مجھے رُلا دیا‘


فیشن برانڈ ریفارمیشن کی بانی اور چیف ایگزیکٹو یایئل افالو ایک کاروباری دورے پر چین میں موجود تھیں جب انھیں فیشن کی صنعت میں ایک ماحول دوست کمپنی قائم کرنے کا خیال آیا۔

امریکی ریاست کیلیفورنیا کی ڈیزائنر یایئل اس دورے پر جانے کے 10 برس پہلے سے فیشن انڈسٹری میں کام شروع کر چکی تھیں۔

انھوں نے پرانے انداز کے مقبول ملبوسات کی فروخت کے لیے ایک دکان قائم کی تھی۔ لیکن اس دوران وہ یہ دیکھ کر خاصی حیران ہوئی تھیں کہ کپڑے بنانے کی صنعت کافی آلودگی کا باعث بنتی ہے۔

بی بی سی نے باس سیریز کے لیے یایئل افالو سے بات کی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’بیرسٹر نشا نے شیف بننا کیوں پسند کیا؟`

اپنے خون سے کپڑے بننے والی فیشن ڈیزائنر

ایک ’بے گھر، نشے کا عادی‘ شخص کروڑ پتی کیسے بنا؟

’12 لاکھ کا لہنگا بیچ کر آپ جہیز کے مسئلے کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں؟‘

گوچی کی سب سے زیادہ پسند کی جانے والی انسٹا پوسٹ کے پیچھے کن خواتین کا ہاتھ ہے؟

فیشن انڈسٹری

وہ بتاتی ہیں کہ ’میں رو رہی تھی اور مجھے دُکھ ہوا کہ فیشن کی صنعت سے ماحول میں آلودگی بڑھتی ہے۔ میں نے دیکھا کہ نامیاتی خوراک کا کاروبار بڑھ چکا تھا اور سوچا کہ ماحول دوست فیشن برانڈ کی آپشن کی کافی ضرورت ہے۔ اس طرح میں نے اس کاروبار کی بنیاد رکھی۔‘

وہ اس کام میں متحرک ہوگئیں اور اپنی ایک دکان کو ریفارمیشن فیشن برانڈ میں تبدیل کر دیا۔ اب ان کے کاروبار کے کئی حمایتیوں میں امریکی گلوکارہ ریحانہ، اداکارہ جیسیکا ایلبا اور شہزادی میگھن مارکل شامل ہیں۔

اس برانڈ کے کپڑے ایسے فیبرک سے بنائے جاتے ہیں جو ماحول کے لیے نقصان دہ نہیں۔ وہ ایسا بچا کچا مواد استعمال کرتی ہیں جو ضائع ہونے کے بعد لینڈ فل جاتا ہے۔ سنہ 2019 میں ان کی سالانہ سیلز 15 کروڑ ڈالر سے زیادہ تھیں۔

یایئل سمجھتی ہیں کہ قسمت میں یہی لکھا تھا کہ وہ اپنی خود کی کمپنی بنائیں گی۔ وہ اپنے والدین کے نقشِ قدم پر چلنا چاہتی تھیں جن کی اپنی کپڑوں کی دکان تھی۔

ان کی ایک تین سالہ بیٹی ہے اور ان کے خاوند اس کمپنی کے کریٹو ڈائریکٹر ہیں۔

یائیل کہتی ہیں کہ ‘میرے خاندان کے تمام افراد کا اپنا کاروبار ہے۔ اس وجہ سے نوکری کرنے کے بجائے میرے لیے اپنا کاروبار قائم کرنا زیادہ قدرتی عمل تھا۔’

21 سال کی عمر میں انھوں نے یایا نامی جدید فیشن کا برانڈ بنایا۔ وہ مختصر دورانیے کے لیے ماڈل بھی رہیں۔

وہ کہتی ہیں ’میں ایک دکان میں گئی تھی اور میں نے ان سے پوچھا ‘کیا آپ یہ سکرٹ خریدنا چاہیں گے؟ انھوں نے مجھ سے 40 سکرٹس خرید لیں اور پھر وہ 40 سکرٹس کا آرڈر 120 میں تبدیل ہو گیا۔‘

جب انھیں بڑے آرڈر ملنے لگے تو انھوں نے اپنے خاندان کے افراد سے پیسے ادھار لیے۔

’اس طرح میں ایک ماہ تک اپنا کام جاری رکھ سکتی تھی اور میں بعد میں (قرضہ لینے کے لیے) بینکوں میں گئی۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ آہستہ آہستہ اس کمپنی نے مشہور سٹورز میں اپنی جگہ بنانا شروع کر دی۔ ان میں لندن کے براؤنز اور امریکہ کے بارنیز اور نارڈسٹورم جیسے سٹورز شامل ہیں۔

اس صورتحال میں کامیابی کے راستے پر چلنے کے لیے یایئل نے کافی محنت کی۔ وہ کہتی ہیں کہ ‘میں غور و فکر کے ساتھ اپنی روح کی تلاش کرتی تھی۔ لیکن مجھے معلوم تھا کہ سب ٹھیک ہو جائے گا اور مجھے کامیابی ملے گی۔’

ان قرضوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے انھوں نے اربن آؤٹ فٹرز سمیت کئی ملبوسات کے برانڈ قائم کیے ہیں۔ اپنے چین کے دورے کے بعد سے وہ ان کمپنیوں کی مدد سے ریفارمیشن کے لیے پیسے جمع کرنے میں کامیاب ہوئیں۔

ان کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ یہ تھی کہ انھیں ملبوسات بنانے والی ایسی کمپنی کی ضرورت تھی جو چھوٹے پیمانے پر آرڈر تیار کر سکے۔

وہ کہتی ہیں کہ ‘کوئی بھی یہ کپڑے بنانا نہیں چاہتا تھا اور میں یہ کر کے تھک چکی تھی۔ میں نے کپڑوں کی کٹائی اور سیلائی کے لیے ملازمین کا بندوبست کیا اور لاس اینجلس میں کام شروع کر دیا۔’

یایئل کا اپنا تعلق بھی اسی شہر سے ہے۔

سنہ 2019 میں ان کی مصنوعات امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا میں مقبول ہیں۔ سٹورز کے علاوہ ان کی کمپنی کی ویب سائٹ بھی ہے جہاں آن لائن آرڈر لیے جاتے ہیں۔ لندن میں ان کے ایک سٹور میں 500 سے زیادہ لوگ ملازمت کرتے ہیں۔ یہاں ہول سیل کا کام بھی کیا جاتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ماحول دوست رہنا اب بھی کمپنی کا مشن ہے۔ رپورٹس شائع کی جاتی ہیں جس میں اس کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ ہم ایسا ماحول دوست برانڈ بنا رہے ہیں جہاں ‘گرین فیشن’ سے مراد ‘سٹائل’ ختم ہونا نہیں۔’

کمپنی کے مطابق سنہ 2015 سے انھوں نے مجموعی طور پر کاربن کا اخراج ختم کر دیا ہے۔ ان کی پیکنگ ایسے کاغذ سے بنتی ہے جو ری سائیکل ہو سکتا ہے یا آلودگی کا باعث بنے بغیر ماحول کا حصہ بن سکتا ہے۔ انھوں نے اپنے شہر میں پہلی ماحول دوست سلائی کی فیکٹری لگائی ہے جسے قابل تجدید توانائی کے ذرائع سے چلایا جاتا ہے۔

سنہ 2018 میں ریفارمیشن کے 79 فیصد ملبوسات لاس اینجلس میں جبکہ 22 فیصد دیگر فیکٹریوں میں بنائے گئے تھے۔ ان میں 19 فیصد کپڑے چین اور باقی فرانس، اٹلی، مراکش، تھائی لینڈ اورترکی میں بنائے گئے تھے۔

اس کمپنی کے معیار پر اترنے کے لیے سپلائر کو سکریننگ کے طریقہ کار سے گزرتا پڑتا ہے اور کام کے بین الاقوامی معیار پر عمل کرنا ہوتا ہے۔

کمپنی کے صارف یہ دیکھ سکتے ہیں کہ کاربن کا اخراج کتنا رہا اور یہ کمپنی جائزہ لیتی ہے کہ ہر خریدی گئی چیز کے ماحول پر کیا اثرات پڑے ہیں۔ ماحول کے حوالے سے کمپنی کی کارکردگی ان کی رپورٹس میں شائع کی جاتی ہے جس پر تنقید بھی کی جا سکتی ہے۔

جیسے سنہ 2018 میں کمپنی چاہتی تھی کہ لاس اینجلس میں اس کی فیکٹری میں کام کرنے والے 75 فیصد ملازمین شہر میں زندگی گزارنے کے لیے کم سے کم معاوضہ 14.25 ڈالر سے زیادہ کماتے ہوں۔ کمپنی صرف اس مقصد میں 22 فیصد کامیابی حاصل کر سکی اور پھر انھوں نے اعلان کیا کہ وہ بونس اور اوور ٹائم کے علاوہ کم سے کم تنخواہ کو اس سطح پر مقرر کریں گے۔

ریٹیل کے شعبے میں گلوبل ڈیٹا سے منسلک ایمیلی سالٹر کہتی ہیں کہ یہ برانڈ شوبز کی شخصیات میں مقبول ہے اور اس طرح صارفین کو یہاں سے خریداری کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔

‘یہ ملبوسات میں فیشن اور ماحول دوست اشیا دونوں کا منفرد برانڈ ہیں اس لیے ایسے صارفین ان سے متاثر ہو کر اشیا خریدتے ہیں جو آلودگی سے نجات حاصل کرنے کی حمایت کرتے ہیں۔’

یہ کمپنی اب دیگر ممالک میں اپنے قدم جمانا چاہتی ہے۔ اس کے لیے انھیں پرمیرا نامی ایک نجی کمپنی نے سرمایہ فراہم کیا ہے۔ اس کے بدلے ریفارمیشن نے بڑے پیمانے پر اپنے شیئرز اس کمپنی کو فروخت کر دیے ہیں۔

ریفارمیشن کے لیے پہلی بیرونی فنڈنگ سنہ 2015 میں آئی۔ کاروباری شخصیت کارلی کلوس سمیت دیگر سرمایہ کاروں نے انھیں ایک کروڑ 20 لاکھ ڈالر کی فنڈنگ دی۔ دو سال بعد انھیں دیگر سرمایہ کاروں نے دو کروڑ پچاس لاکھ ڈالر دیے۔

وہ کہتی ہیں کہ ‘ہم یورپ کے دیگر بڑے شہروں میں پھیل رہے ہیں۔ ہمارا مقصد اگلے تین سے پانچ برسوں میں 75 سٹورز بنانا ہے۔’

یہ سب کچھ ان کے مشن کا حصہ ہے جس میں سب کے لیے ماحول دوست فیشن تک رسائی کی کوشش کی جائے گی۔

لیکن یہ سب اتنا سستا نہیں۔ ان کے فیشن برانڈ میں آپ کو ایک زیر جامہ خریدنے کے لیے 16 پاؤنڈز اور ایک لیدر جیکٹ کے لیے 405 پاؤنڈز دینے پڑ سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp