پاکستان میں سائنس کیوں نہیں پنپ رہی؟


ڈاکٹر عبدالسلام نے ذراتی فزکس (particle physics) کے میدان میں نوبل انعام 1979 ء میں حاصل کیا۔ انہی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ پاکستان کی سرشت کے بتیس ( 32 ) سال بعد جس کے حصے میں یہ امتیاز آیا وہ عبدالسلام ہیں۔ آپ کی وفات کے دو دہائیوں سے زائد عرصے میں بھی کسی پاکستانی کو یہ مقام و منزلت نہ ہوا۔ گو کہ 2014 میں ملالہ یوسفزئی نے بھی نوبل انعام حاصل کیا ہے البتہ یہ انعام انہیں سائنسی کام کے سلسلے میں نہیں ملا (جیسا کے موضوع سائنس ہے ) ۔ اگر انہیں بھی شامل کر لیا جائے تو پاکستان کے یہ تعداد ( 02 ) ہے۔

نوبل انعامات کی فہرست میں ہم امریکہ، برطانیہ، جاپان، جرمنی اور یورپی ممالک کا تذکرہ نہیں کر رہے کیونکہ وہ ہم سے اس دوڑ میں بے پناہ آگے ہیں۔ انڈیا جو کی ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوا کے پاس بارہ ( 12 ) نوبل انعامات ہیں۔ اسرائیل جس کی ابتدا 1948 سے ہوئی (سیاسی نقطہ نظر سے قطع نظر) کے پاس نوبل انعامات کی تعداد ( 12 ) ہے۔ چائنہ جس نے استعمار اور اندرونی خانہ جنگیوں سے چھٹکارا 1949 میں پایا کے پاس یہ تعداد چھ ( 06 ) ہے۔

سائنس کے میدان میں عملی مظاہرہ دکھاتے ہوئے چائنہ دنیا کے عظیم ممالک کی فہرست میں تیزی سے ابھرتا نظر آ رہا ہے۔ انڈیا بھی کسی طرح پیچھے نہیں یے انڈیا کے سپیس کے ادارے نے چاند پر کمند ڈالنے کی بارہا کوششیں کیں ہیں۔ ابھی تک اسے خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی مگر دنیا نے انڈیا کی کاوشوں کو سراہا ہے۔ ہمارے پڑوسی ممالک میدان سائنس میں پیش پیش ہیں جبکہ پاکستان کسی صف میں کھڑا نظر نہیں آتا۔ اس کی چند وجوہات ہیں۔

پہلی وجہ:۔ پاکستان کے ذہین و فطین اساتذہ و طلباء باہر ترقی یافتہ ممالک جانے کو ترجیح دیتے ہیں جس سے ملک میں عملی خلا پیدا ہو رہا ہے۔ جو سائنسدان و ماہرسائنس کے اساتذہ موجود ہیں وہ سائنس کو عوام تک لانے میں ناکام ہیں۔ اس کی ایک وجہ ان کی عدم دلچسپی بھی ہے۔ ڈاکٹر پرویز ہود بائی اس کی ایک مثال ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی تاریخ اور مسلم سائنسدانوں پر کتابیں تو لکھ دی ہیں مگر سائنسی ادب کے لیے کوئی کردار ادا نہ کیا کہ آپ کی لکھی کتب انہی کے شاگرد و تلامذہ پڑھ لیتے۔ آپ کے انٹرویوز اور محافل کو دیکھ کر لگتا ہے کہ آپ کوئی ”سوشل ایکٹوسٹ“ ہیں۔ لوگ اب ان کو سوشل ”ایکٹوسٹ“ کے طور پر جانتے ہیں نہ کہ سائنسدان کے۔ اگر کچھ حضرات ان کو بطور سائنسدان جانتے بھی ہیں تو ان میں سے بھی ایسے موجود ہیں جو شاید ہی ان کے اختصاصات (specialities) کے بارے میں جانتے ہوں۔

دوسری وجہ:۔ پاکستان میں سائنس کی عدم نفوذ پذیری کی دوسری وجہ مذہبی طبقہ ہے۔ رجعت پسند اور قدامت پسند مذہبی طبقہ سائنس پر بھی کفر و زندقہ کے فتوی لگانے سے باز نہیں رہ پا رہا۔ یہ مذہبی گروہ نہ صرف منبر و محراب میں ہے بلکہ حیرانی کی بات یہ ہے کہ سائنسی اداروں میں بھی ایسے افراد بصورت پروفیسر سائنسدان موجود ہیں۔ ان کا علمیہ یہ ہے کہ ہر چیز کو قرآن واسلام کے زاویے پر پرکھتے ہیں جس سے سائنس کا گلا گھٹ جاتا ہے۔

ارتقائی پہلو جیسے بندر سے انسان کا بن جانا، کلوننگ، ویکسین وغیرہ جیسے سائنسی تصورات ان کی نظر میں خلاف شرع و اسلام ہیں۔ یہ بھی ایک الگ طرح سے ٹھٹھا و مذاق بن چکا ہے کہ جو چیز ایجاد ہوتی ہے یا نیا سائنسی تصور منظر عام پر آتا ہے تو مذہبی فکر کے حاملین دکھارہے ہوتے ہیں کہ یہ چیز قرآن میں پہلے سے ہی موجود تھی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر قرآن میں سب کچھ پہلے سے تھا تو آپ لوگوں نے آشکار و انکشاف کیوں نہ کیا؟

تیسری وجہ:۔ پاکستانی معاشرے میں سائنسدانوں کو کبھی ہیرو بنا کر پیش ہی نہیں کیا گیا۔ ان کو کبھی ماڈل کے طور پر دکھایا ہی نہیں گیا جس سے نوجوان نسل متاثر ہوتی۔ عبدالسلام ہیرو تھے جس کو تنگ نظر مذہبی حلقہ نے ہیرو سے زیرو بنا دیا۔ چاہیے تھا ان کو بطور بحیثیت سائنسدان ایک برتر جگہ بٹھا دیا جاتا مگر مذہبی اختلاف نے ان کی خدمات کو مٹی میں ملا دینے کی کوششیں کیں۔ گٹھن اس قدر ہے کہ عام جگہوں پر ڈاکٹر عبدالسلام کی تصاویر آویزاں کرنا جرم ہے۔

چوتھی وجہ:۔ اس کی چوتھی وجہ، ہماری یونی ورسٹیوں کا ناقص تحقیقی کام ہے۔ دوسرے کے سائنسی کام کو لفظوں کے ہیر پھیر کے ذریعے بدل کر اپنا بنا لیا جاتا ہے۔ تاکہ Plagiarism Report کم سے کم ہو۔ پروفیسر و اساتذہ تحقیقی مقالات کے چھاپنے کی دوڑ میں ہیں۔ تعداد کی کثرت کی وجہ سے تحقیقی مقالات کی کوالٹی میں حد درجہ کی نمایاں ہوئی ہے۔ تخلیقی کام کے بجائے علمی سرقہ کا رجحان تعلیمی اداروں میں زیادہ ہے۔ یہ عمل بھی سائنس کے مضبوط پروان چڑھنے میں کوہ ہمالیہ بن کے کھڑا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments