اعتماد کا ووٹ


حکومت نے جب مرکز کی سینیٹ کی نشست ہاری تو حکومت نے الیکشن کمیشن پر شفاف انتخابات نہ کرانے کا الزام عائد کیا تو ساتھ ہی کپتان خود میدان میں آئے، قوم سے خطاب کیا انہوں نے بھی الیکشن کمیشن پر سنگین الزامات عائد کیے جس کا الیکشن کمیشن کی طرف سے ردعمل بھی آیا۔ عرف عام میں ہے کہ سینیٹ الیکشن میں پیسہ چلا ہے۔ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری تھی کہ وہ ان الزامات پر نوٹس لیتا اور اس انتخابی عمل کو شفاف بنانے کے لئے اقدامات کرتا لیکن الیکشن کمیشن نے اس متنازعہ الیکشن کو اچھا الیکشن قرار دے دیا ہے

سینیٹ الیکشن میں مرکز کی نشست ہارنے کے بعد کپتان نے ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا۔ کپتان کے اس فیصلے کے بعد ہر ایک کی نظریں ایوان کی طرف چلی گئیں۔ عمران خان ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے میں کامیاب ہوئے۔ اپنی پارٹی ہی نہیں بلکہ اتحادی جماعتوں کے اراکین نے بھی ان پر اعتماد کا اظہار کیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ اب کی بار کپتان نے پہلے سے ایک دو ووٹ زیادہ حاصل کر لئے۔ اپوزیشن اس سارے عمل کی دوران ایوان سے باہر رہی۔

انہوں نے ایوان کی اس کارروائی کا حصہ بننے سے انکار کیا۔ جس طرح ایک نشست جیتنے سے اپوزیشن کی جان میں جان پڑ گئی یا انہیں ایک نئی زندگی ملی اسی طرح کپتان کو ایوان سے اعتماد کا ووٹ ملنے کے بعد ایک نئی زندگی مل گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ سینٹ الیکشن میں اپوزیشن کی کامیابی کے بعد کپتان کو ایوان سے اعتماد حاصل کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیا کپتان کو واقعی ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ان کا ایوان ان کے ساتھ نہیں ہے یا اس میں کوئی سیاسی مصلحت تھی؟

کپتان کو ایوان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا فیصلہ اس لیے کیا کیونکہ ان کو پتہ تھا کہ اپوزیشن ان کی خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانا چاہتی ہے اس لیے انہوں نے اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک سے پہلے اعتماد کا ووٹ لے کر ان کی طرف سے آنے والی عدم اعتماد کی تحریک کا راستہ روکنے کی کوشش کی ہے اور وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو چکے۔ کپتان اگر ایسا نہ کرتے تو انہیں اپوزیشن کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک کا سامنا کرنا پڑتا تو انہوں نے خود ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے سے اپنی پوزیشن مضبوط کر لی ہے۔

اس دوران ایک بدمزگی بھی دیکھنے میں آئی۔ کل جب ایک طرف ایوان میں عمران خان اعتماد کا ووٹ لے رہے تھے اس دوران ان کی جماعت کی کارکنان، ووٹر اور سپورٹر کے ایک بڑی تعداد ڈی چوک میں موجود تھی۔ نون لیگ کی مرکزی قیادت وہاں پہنچی تو یہ لوگ آپس میں گھتم گھتا ہونے۔ نون لیگ کی مرکزی قیادت کے لئے یہ بہتر ہوتا اگر وہ نہ جاتے تو بہتر ہوتا اور تحریک انصاف کا کارکنوں کے لئے بھی اچھا تھا اگر وہ اس قسم کا رویہ نہ اپناتے۔ سیاسی جماعتوں کو چاہیے وہ اپنے کارکنوں کی اچھی تربیت کریں تاکہ معاشرے میں بڑھتے عدم برداشت کے اس کلچر کا راستہ روکا جا سکے۔

ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد حکومت کے لئے سیاسی محاذ پر اگلہ چیلنج چئرمین اور ڈپٹی چئرمین سینٹ کا انتخاب ہے۔ چئرمین سینٹ کے لئے حکومت کی طرف سے موجودہ چئرمین سینٹ صادق سنجرانی کا نام سامنے آ رہا ہے جبکہ اپوزیشن کی طرف سے نو منتخب سینیٹر یوسف رضا گیلانی کا نام متوقع ہے جبکہ ڈپٹی چئرمین سینیٹ کے لئے دونوں جانب سے تاحال کوئی نام سامنے نہیں آیا۔

سینیٹ کے انتخابی معرکے اور ایوان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد عوامی محاذ پر عمران خان اور ان کی حکومت کا مقابلہ مہنگائی، غربت اور بے روزگاری سے ہے۔ حکومت اگر عوام کے ان بنیادی مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے تو تحریک انصاف اور عمران خان اگلے میں عوام سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر پائیں گے وگرنہ دوسری صورت میں الیکشن میں جانے کے لئے پی ٹی آئی کے پاس کچھ نہیں ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments