نہ عمران نہ نواز، بس بزدار بزدار


قبلہ ہارون رشید اور چوراہے والے حسن نثار صاحب کا حال دیکھ کر یہ جان لینا چاہیے کہ بندہ کسی کو بادشاہ بنانے کی خاطر تن من کی بازی لگاتے ہوئے اپنی زندگی بھی صرف کر دے تو بادشاہ بن جانے کے بعد وہ اس کا احسان نہیں مانتا بلکہ اسے ویسے ہی عزت و احترام سے حج کرنے بھیج دیتا ہے جیسے مغل اعظم نے بیرم خان کو بھیجا تھا۔ ساتھ بے دید ہو کر کہہ بھی دیتا ہے کہ خان بابا اب ایک گوشے میں بیٹھ کر اللہ اللہ کریں حکومتی معاملات میں دخل نہ دیں آپ کو ان چیزوں کی سمجھ نہیں ہے۔

دیکھ لیں کہ کس تندہی سے بہت سے کالم نگاروں اور اینکروں نے عمران خان کی حمایت کی تھی۔ نواز حکومت سے بھی دشمنی مول لی تھی اور پیپلز پارٹی کی نگاہوں میں بھی برے بنے تھے۔ کپتان کی حکومت آئی تو بجائے ان کی دانش سے قوم کو فائدہ پہنچانے کے، انہیں بیرم خان بنا کر ڈبہ بند کر دیا کہ جاؤ تمہاری فلم ختم ہوئی ہے۔ اب مزید کی ضرورت نہیں۔ دنیا ایک سٹیج ہے، اور تمہارا رول ختم ہو گیا ہے، تم اب ابدی سکون حاصل کرو۔

نواز شریف کا بھی عموماً یہی حال دیکھا ہے۔ چند گنے چنے صحافیوں کو تو ان سے فیض پہنچتے دیکھا ہے مگر بیشتر بیرم خان ہی رہے ہیں۔

آصف زرداری تو خیر اس معاملے میں ملنگ ہیں۔ حالانکہ شہرت ان کی یہ ہے کہ دوستوں کے دوست ہیں، مگر ان کے میڈیا والے بیشتر دوست بے فیض ہی اٹھے ہیں ان کی محفل سے۔ وہ میڈیا کو پیسہ کھلانے کے قائل نہیں اور یوں وہ بے حد کرپٹ قرار پائے ہیں۔

یہ عمومی نصیحت ویسے تو مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے میڈیائی حامیوں کے لیے ہے لیکن تحریک انصاف یا دیگر پارٹیوں کے حامی بھی اس سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ یا تو شدید مایوس قسم کا بیرم خان بننے کے لیے تیار رہیں، یا اندھی حمایت کرنی ہے تو بس کوئی اصول یا نظریہ تلاش کر کے اس کے نام پر کر لیں تاکہ دل میں یہ گمان تو باقی رہے کہ لیڈر کے ہاتھوں استعمال ہو کر بے وقوف نہیں بنے تھے بس اپنی ذات کی خاطر یہ کیا تھا۔

بس صاحب، یہ کل جگ ہے کل جگ۔ احسان مانتا ہی نہیں کوئی۔ مہابلی کہیں کے۔ بلکہ مہابلی سے یاد آیا، مغل اعظم دیکھنے والے جانتے ہیں کہ احسان نہ ماننے کے علاوہ مہابلی سب کی دل نشین مدھوبالا کو بھی زندہ دیوار میں چنوا دیتے ہیں کہ دنیا میں حسن پرستوں کے لیے کوئی دلچسپی ہی باقی نہ رہے۔

آج کل ہم فردوسی کا شاہنامہ پڑھنے پر کمر باندھ رہے ہیں۔ ممتاز مورخ ابن انشا کی روایت ہے کہ فردوسی سے بھی سلطان محمود غزنوی نے قول قرار کیا تھا کہ وہ شاہنامے کے ہر شعر کے بدلے ایک اشرفی دے گا۔ جب فردوسی ساٹھ ہزار اشعار کا شاہنامہ لے کر گیا تو سلطان نے بجٹ دیکھتے ہوئے کفایت شعاری سے کام لیا اور اشرفیاں دینے سے انکار کر دیا۔

انعام نہ دینے کی غالباً ایک ضمنی وجہ یہ ہو گی کہ شاہان ایران میں فردوسی نے رستم و سہراب کی تعریف تو کر دی، کاوہ آہن گر (جس کا نام غالباً براڈ شیٹ والے کاوہ موسوی کے نام پر رکھا گیا تھا) کی تعریف بھی کر دی کہ وہ ظالم بادشاہ ضحاک کے خلاف اپنی دھونکنی کے بل پر انقلاب لے آیا تھا، مگر شاہ محمود غزنوی کو نہ تو شاہان ایران میں شامل کیا، نہ ان کی شان میں کچھ کہا، نہ ہی ان کا رتبہ جہانبانی میں کوروش و نوشیرواں سے بڑھ کر بتایا اور بہادری و طاقت میں رستم سے۔

لیکن ایسا نہیں کہ ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ اس کل جگ میں بھی ایک ایسی ہستی موجود ہے جو اپنے درباری شاعر کو قصیدہ کہنے پر بیرم خان بنانے کی بجائے مجلس ترقی ادب کا سربراہ بنا دیتی ہے۔

بھیا ہمارا مشاہدہ تو یہی کہتا ہے کہ نہ عمران خان کی حمایت کرنے کا فائدہ ہے، نہ نواز شریف کی، اور آصف زرداری کو تو بھول ہی جائیں۔ حمایت اگر کرنی ہے تو صرف عثمان بزدار کی کرنی چاہیے۔ ابھی بہت سے اداروں میں سیٹ خالی ہے یا قصیدہ خواں اچھا ہونے پر حسب فرمائش خالی کروائی جا سکتی ہے۔

ویسے بھی حق بات ہے کہ آج کی گندی سیاست میں عثمان بزدار نجابت اور شرافت کے علاوہ عزم و استقلال اور گڈ گورننس کا مینارہ نور بن کر ابھرے ہیں، حالانکہ ان کے اپنے گھر میں بجلی تک نہیں ہے۔ ان کی ہستی ہی کی روشنی چار سو بکھری پڑی ہے۔ بندہ اب اصولوں کی بنیاد پر ان کا قصیدہ نہ کہے تو کس کا کہے؟ ہمارے عہد کے بڑے شاعر منصور آفاق فرما گئے ہیں

بس ایک رات سے کیسے تھکن اترتی ہے
بدن کو چاہئے آرام کچھ زیادہ ہی

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments