غلام، جمہوری سرکس اور رنگ ماسٹر


اب تو یہ مقولہ بھی جعلی لگنے لگا ہے کہ ‘وہ کھیل زیادہ دیر نہیں چل سکتا جس کی بنیاد ہی مکمل جھک جاؤ یا مکمل جھکا دو’ پر استوار ہو۔’

تمام غلام پسند آقا کسی شے سے ڈرتے ہیں تو بس یہ کہ کہیں غلام آپس میں لڑنا بند نہ کر دیں۔ ورنہ پھر وہ ‘لڑاؤ اور حکومت کرو’ کے خالق آقا کے گریبان پر بھی ہاتھ ڈال سکتے ہیں۔

آقا کے لیے کوئی غلام اہم نہیں ہوتا۔ ہر غلام بس خام مال ہوتا ہے جس کے استعمال سے آقائی تسلط جتنا بھی طول پکڑ سکے۔ آقا کا فارمولا تو بہت سادہ سا ہے۔

غلاموں کے غول میں سے چند غلاموں پر ہاتھ رکھ دو تا کہ باقی غلام بھی چند اضافی رعایتی ٹکڑوں کی لالچ میں آقا نواز غلاموں کی طرف کھنچے چلے آئیں اور پھر یہ گروہ ان غلاموں کا مدِمقابل بن جائے جن پر آقا نے جان بوجھ کر ہاتھ نہیں رکھا تا کہ غلاموں کی آپسی دشمنی کا توازن برقرار رہے اور وہ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں ہی لگے رہیں اور آقا دونوں گروہوں کے مابین ثالث بن کر ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر اطمینانی مرغولے اڑاتا رہے۔

آقا کا اگلا کام بس اتنا ہے کہ اگر ایک ہمنوا غلام گروہ کچھ عرصے بعد خود کو آقا کے لیے ناگزیر سمجھ کر پر پرزے نکالنے لگے تو ان سے ہاتھ اٹھا کر کچھ اور غلاموں پر ہاتھ رکھ دو اور ایک نئی غلام میوزیکل چیئر گیم سے لطف اندوز ہونا شروع کر دو۔

جب بھی اس کھیل سے آقا بور ہونے لگتا ہے تو اکتاہٹ دور کرنے کے لیے میوزیکل چیئرز پر نیا رنگ و روغن کروا دیتا ہے، کچھ کو نئے کپڑے دیتا ہے، چند کا راشن بڑھا دیتا ہے، دو چار کو اپنی وسیع اراضی میں سے چند قطعات وفاداری بشرطِ استواری کی سند کے ساتھ دان کر دیتا ہے۔ تھوڑے بہت شفا خانے بنوا دیتا ہے تاکہ غلام صحت مند رہیں اور ان کی پیداواری صلاحیت متاثر نہ ہو۔

اگر ذہین و زمانہ شناس آقا کو بدلتے زمانے کے ساتھ ہم قدم رہنے کے لیے ہنرمند غلاموں کی ضرورت ہے تو پھر انہی غلاموں کے بچوں کے لیے جدید تعلیم کا بھی اہتمام کرتا ہے۔

تعلیم چونکہ دو دھاری تلوار ہے اور طالبِ علم کو اردگرد کے حالات سمجھنے اور اپنا موازنہ کرنے کے لیے ضروری شعور سے بھی مسلح کرتی ہے، چنانچہ زیرک آقا اس نسل کو اندر کا غبار نکالنے کی بھی تھوڑی بہت اجازت مرحمت فرما دیتے ہیں۔

مگر ساتھ ہی ساتھ یہ اہتمام بھی رکھتے ہیں کہ کہیں اس غبار کا رخ ان کی جانب نہ ہو جائے اور غلام ایک دوسرے کو ہی ہر مسئلے کے لیے موردِ الزام ٹھہراتے رہیں۔

اس غبار کو صحیح سمت میں رکھنے کے لیے آقا اپنے چند دائمی سفید کنپٹی والے وفادار غلاموں کو اگلی غلام نسل کے ابلتے خون کو ٹھنڈا رکھنے کا کام سونپتا ہے، اور خود کو روز مرّہ کے معاملات اور چھیچا لیدر سے بظاہر الگ کر لیتا ہے اور صرف اس وقت تصویر میں پوری قوت کے ساتھ آتا ہے جب معاملات سینیئر غلاموں کے ہاتھ سے بھی نکلتے محسوس ہوتے ہیں۔

اس پس منظر میں میرے جیسے خبطیوں اور مایوسی ساز تجزیہ بازوں کو ایک عرصے سے محسوس ہو رہا ہے کہ پاکستان میں بظاہر جمہوری نظام کے تمام لوازمات موجود ہیں۔ انتخابات بھی ہوتے ہیں، اسمبلیاں بھی بنتی ٹوٹتی ہیں، حکومتیں بھی آتی جاتی ہیں، عدلیہ بھی اپنے دائرے میں محتاط حد تک فعال ہے، سیاسی جماعتیں بھی سرگرم ہیں اور ٹی وی چینلز پر تجزیاتی بازار بھی آراستہ ہے۔

مگر سب کچھ اوپرا اوپرا سا کیوں لگتا ہے۔ دونوں آنکھیں جمہوری عمل کو شفاف اور مضبوط بنانے اور درگزر کے کلچر کو فروغ دینے پر مرکوز کیوں نہیں۔ ایک آنکھ ہمیشہ کیوں نادیدہ سمت میں دیکھتی رہتی ہے۔

شاید ہماری سوچ اور سیاسی ڈی این اے میں سٹاک ہوم سنڈروم اتر چکا ہو۔ ہم جانتے ہیں کہ سٹاک ہوم کا ایک بینک لوٹنے والے گروہ کی طرح ہمارا بینک آف ڈیموکریسی لمیٹڈ بھی لٹ چکا ہے۔

مگر ہمیں بھی شاید سٹاک ہوم کے بینک کو لمبے عرصے تک یرغمال بنانے والے گروہ سے بینک ملازمین کا لگاؤ ہونے کی طرح اپنا بینک یرغمال بنانے والوں سے پیار ہو گیا ہے۔ اور اب ہم اُنھیں نیک دل ثابت کرنے اور ان کے دفاع اور صفائی میں کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔

کسی بھی غلام پسند آقا کے لیے اس سے بڑا کیا انعام ہو سکتا ہے کہ غلام اسے اپنا آخری ہمدرد و پالن ہار و ثالث سمجھنے لگیں اور اس کے مفاداتی تحفظ کے لیے ایک دوسرے کو نوچ کھائیں۔ بقول اقبال کے

کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضامند

تاویلِ مسائل کو بناتے ہیں بہانہ

ایسی حالت پر آپ بھلے ڈیموکریسی کا ٹھپہ لگا دیں یا آمریت کا، آقا یا رِنگ ماسٹر کو کیا فرق پڑتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).