میرا جسم میری مرضی کا مطلب کیا ہے؟


آپ جیتے جاگتے زندہ انسان پیدا ہوئے لیکن آپ کے گھر والے آپ کی پیدائش پر دکھی ہوئے اور روئے۔ کیوں؟ اس لیے کہ آپ لڑکا نہیں تھے۔ ایک عورت نے نو مہینے تکلیف برداشت کی۔ اپنی زندگی کا رسک لیا اور نئی زندگی تخلیق کی۔ اس کا مستقبل بھی خطرے میں پڑ گیا کیونکہ جو زندگی اس نے تخلیق کی وہ لڑکا نہیں تھی۔ آپ کہیں گے کہ لڑکی جب پیدا ہوئی تو وہ اتنی چھوٹی سی اور معصوم تھی اسے کیسے پتا ہے کہ اس کا استقبال اچھا نہیں ہوا تھا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ لڑکی جب تھوڑا سا ہوش سنبھالتی ہے اور اس کے سامنے اس کے اپنے گھر یا کسی رشتہ دار یا پڑوسی کے گھر جب لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اسے پتا چل جاتا ہے کہ پیدا ہونے والی معصوم لڑکی کا استقبال کیسے ہوتا ہے۔

صرف یہی نہیں وہ یہ بھی دیکھ رہی ہوتی ہے کہ سب لوگ دعائیں کیا مانگ رہے ہوتے ہیں۔ آپ کہیں گے کہ نہیں یہ لڑکی کی پیدائش پر رونا دھونا تو پرانی بات ہو گئی ہے اب تو لوگ لڑکی کی پیدائش پر بھی برفی بانٹتے ہیں۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں تو آپ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ اگر آپ تھوڑا سا بھی سنجیدگی سے جائزہ لیں تو صاف نظر آ جائے گا کہ کسی گھر میں دوسرا، تیسرا اور چوتھا لڑکا پیدا ہو تو ماحول کیسا ہوتا ہے اور اگر دوسری تیسری یا چوتھی لڑکی پیدا ہو تو ماحول کیسا ہوتا ہے۔ بس دیانتداری اور غیر جانبداری سے سوچنے کی صلاحیت چاہیے یہ فرق جاننا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔

کیوں ہے یہ فرق؟ کیوں لوگ بیٹی کی پیدائش پر دکھی ہوتے ہیں اور بیٹے کی پیدائش پر خوش ہوتے ہیں۔ کیوں؟

اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں بیٹیوں کو بیٹوں سے کمتر سمجھا جاتا ہے۔ عورت کو مرد سے کم تر سمجھا جاتا ہے۔ سارا معاملہ اسی سے خراب ہوتا ہے۔ یہ قصور ہمارا ہے، بیٹی یا عورت کا نہیں۔

پیدائش پر رونے دھونے کے بعد پرورش کی باری آتی ہے۔ اب ہم نے یہ یقینی بنانا ہے کہ لڑکی کو ذہنی اور جسمانی طور پر معذور کر دیا جائے۔ تاکہ وہ ایک آزاد اور بھرپور زندگی گزارنے کے قابل نہ ہو سکے۔ اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک مرد کا سہارا چاہیے ہو۔

پرورش کے دوران گھر والے اور سارا معاشرہ یہ یقینی بناتا ہے کہ اس کا کسی چیز پر کوئی اختیار نہ ہو۔ حتی کہ اس کے جسم پر بھی۔ اس کو ہمیشہ یہ بتایا جاتا ہے کہ تم فیصلے نہیں کر سکتی، اپنے لیے بھی نہیں۔ اس کی زندگی کے اہم ترین فیصلے کوئی مرد ہی کرے گا اور اسے ان فیصلوں کو خوشی سے قبول کرنا ہے تبھی وہ اچھی عورت ہے ورنہ ایک بری عورت ہے۔ اس کی تعلیم، صحت، شادی، نوکری، رہائش، حتی کہ کسی چیز کا فیصلہ بھی اس کے اپنے ہاتھ میں نہیں۔

ایک لڑکی جب دس سال کی ہوتی ہے تو اس کا بچپن ختم ہو جاتا ہے۔ کھیل کود یا کوئی بھی ایسی چیز جو اس کے لیے تفریح کا باعث بن سکتی ہے وہ ختم کر دی جاتی ہے اور اس کی آزادی تیزی سے سکڑنا شروع کر دیتی ہے اور لڑکی کی عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ آزادی سکڑتی ہی چلی جاتی ہے۔ جب کہ لڑکا جب دس سال کا ہوتا ہے تو اس کے لیے کھیل کود اور تفریح کے مواقع بڑھ جاتے ہیں۔ اس کی آزادی میں اضافہ ہو جاتا ہے اور یہ اضافہ مسلسل جاری رہتا ہے۔ لڑکی بھی یہ سب کچھ دیکھ رہی ہوتی ہے اور اس بے انصافی پر حیرانی کے ساتھ ساتھ پریشان بھی رہتی ہے۔ لیکن وہ بے بس ہوتی ہے کیونکہ اس کی آزادی کو سلب کرنے والے اپنے پرائے سبھی ہوتے ہیں۔ ملک کا قانون اور معاشرتی اور مذہبی روایات سبھی کچھ عورت کے خلاف استعمال ہوتا ہے۔

انتہا یہ ہے کہ عورت جسم کے اندر لگی بچہ دانی پر بھی اس کا اپنا اختیار نہیں ہوتا۔ وہ اس فیصلے میں بھی آزاد نہیں کہ کب اپنی بچہ دانی کو ریسٹ دینا چاہتی ہے یعنی حاملہ نہیں ہونا چاہتی۔ اگر وہ فیملی پلاننگ کی سروس لینے کے لیے کسی مرکز صحت پر پہنچ ہی جاتی ہے تو اسے واپس بھیج دیا جاتا ہے یہ کہہ کر کہ اپنے خاوند کا اجازت نامہ لے کر آؤ تو پھر سرجری ہو سکے گی۔

بے بسی کے اس ماحول میں گھٹن محسوس کرنا فطری ہے۔ اس انتہائی گھٹن سے بغاوت اور آزادی مانگنا فطری ہونے کے ساتھ ساتھ لازمی بھی ہے۔ عورت آزادی مارچ عورتوں کے خلاف برتی جانے والی انتہائی صنفی تفریق کا رد عمل ہے۔ یہ آزادی کی جدوجہد ہے۔ اس کی حمایت اور اس میں شمولیت صرف جائز ہی نہیں لازمی ہے۔ اس جدوجہد میں “میرا جسم میری مرضی” کے نعرے کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔

اپنے جسم پر مکمل اختیار کے بغیر کوئی بھی انسان زندگی کی خوشیاں حاصل نہیں کر سکتا۔ اپنی مرضی کی زندگی ہی خوشی کا باعث بنتی ہے۔ یہ ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ عورت بھی چونکہ انسان ہے اس لیے اس کا حق ہے کہ اس کی اپنے جسم پر مکمل اپنی مرضی ہو۔ میں خوش ہوں کہ عورت یہ نعرہ لگاتی ہے۔ یہ نعرہ ہر انسان مرد، عورت اور ٹرانس جینڈر، سب کا ہے اور سب کے لیے ہے۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments