سوئٹزر لینڈ میں برقعہ پر پابندی عائد کر دی گئی


9

سوئٹزر لینڈ میں برقعہ پر پابندی عائد کر دی گئی۔ پابندی کا فیصلہ یہ فیصلہ سوئٹزرلینڈ میں ریفرنڈم کے بعد آیا۔ سوئیٹزرلینڈ کے جمہوری نظام میں آئے دن متنازعہ معاملات پر عوامی ریفرنڈم منعقد ہوتے رہتے ہیں۔ سوئٹزرلینڈ میں براہ راست جمہوریت کا نظام رائج ہے جس میں آئین تبدیل کرنے کے لیے تجویز عوام میں رکھی جاتی ہے جو ریفرنڈم میں ووٹ دے کر تجویز کی حمایت یا مخالفت کرتے ہیں۔ ایک لاکھ افراد کی تجویز پر کسی ترمیم پر رائے شماری کرائی جاتی ہے۔

9 میں ایسے ہی ایک ریفرنڈم میں رائے دہندگان نے ملک بھر میں نئے میناروں کی تعمیر پر پابندی کی حمایت کی تھی۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق سوئٹزرلینڈ کے 26 کینٹونز میں سے 22 کینٹونز سے آنے والے نتائج کے مطابق 54 فیصد لوگوں نے نقاب پر پابندی لگانے کے حق میں ووٹ دیا۔ اس پابندی کے تحت اب ملک میں خواتین کے لیے سڑکوں پر، پبلک ٹرانسپورٹ، ریستوران اور اسپورٹس اسٹیڈیم میں منہ ڈھانپ کر جانا خلاف قانون تصور کیا جائے گا۔ سوئٹزرلینڈ کے علاقے مونٹریکس اور جنیوا جھیل کے آس پاس کے تفریحی مقامات میں خلیجی ممالک سے سیاح بڑی تعداد میں آتے ہیں جن کے ساتھ آنے والی خواتین نقاب میں ہوتی ہیں۔

واضح رہے کہ نقاب پر پابندی کی تجویز دائیں بازو کی شدت پسند جماعت سوئس پیپلز پارٹی کے ایک گروپ ایجرکینجر کومیتی نے دی ہے جب کہ 2009 میں بھی میناروں کی تعمیر پر پابندی انہی کی تجویز تھی۔ ریفرنڈم میں براہ راست اسلام کا ذکر نہیں کیا گیا اور اس کا مقصد سڑکوں پر پرتشدد مظاہرین اور تعصب پسند غنڈوں کو ماسک پہننے سے روکنا بھی قرار دیا گیا ہے۔ حکام کو اس سے منسلک قوانین تشکیل دینے کے لیے دو سال کا وقت لگے گا۔

سوئس حکومت اس قانون کے حق میں نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس پابندی کا ان مسلم خواتین پر خاص طور پر اثر پڑے گا جو نقاب یا برقعہ پہننے کا انتخاب کرتی ہیں، اگر ہم واقعی خواتین کا احترام کرنا چاہیے ہیں تو ہمیں خواتین کو یہ فیصلہ کرنے دینا چاہیے کہ وہ کیا پہنتی ہیں۔ سوئس حکومت نے عوام سے اپیل کی تھی کہ نقاب پر پابندی لگانے سے متعلق ریفرنڈم میں رائے دہندگان مخالفت میں ووٹ دے کر امتیازی رائے شماری کو ناکام بنادیں۔

حکومت کی نظر میں یہ ایک غیر ضروری بحث ہے، جس سے ملک میں سیاحت متاثر ہو سکتی ہے۔ تاہم ملک کی نیشنل پیپلز پارٹی اور دیگر قوم پرست جماعتوں کا کہنا ہے کہ برقعہ اور نقاب سوئس معاشرے کی آزاد روایات کے منافی ہیں، جس کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ جبکہ متعدد سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کی جانب سے اس کی مخالفت کی گئی اور اس عمل کو نسل پرستانہ قرار دیا۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ سوئٹزر لینڈ میں چہرے کے نقاب پر مجوزہ پابندی کی بات امتیازی اور خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

ان خیالات کا اظہار ایمنسٹی انٹرنیشنل، سوئٹزرلینڈ کی خواتین سے متعلق حقوق کی سربراہ سیریل ہوگناٹ نے اتوار کے روز ملک میں مسلم خواتین کے نقاب پر پابندی سے متعلق عوامی ریفرنڈم کے تناظر میں دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس پابندی کا ان مسلم خواتین پر خاص طور پر اثر پڑے گا جو نقاب یا برقعہ پہننے کا انتخاب کرتی ہیں، اگر ہم واقعی خواتین کا احترام کرنا چاہیے ہیں تو ہمیں خواتین کو یہ فیصلہ کرنے دینا چاہیے کہ وہ کیا پہنتی ہیں۔

اعداد و شمار کے تحت سوئٹزرلینڈ کی 86 لاکھ آبادی میں سے صرف پانچ فیصد مسلمان ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت ترکی، بوسنیا اور کوسوو سے تعلق رکھتی ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق سوئٹزرلینڈ میں کوئی خاتون برقعہ نہیں پہنتی ہے جب کہ صرف 3 خواتین ایسی ہیں جو نقاب کرتی ہیں۔ یاد رہے کہ ماضی ستمبر 2019 میں سوئٹزرلینڈ میں برقع پہننے پر ملک گیر پابندی کے مطالبے کو ملکی پارلیمان نے اکثریتی رائے سے مسترد کر دیا تھا۔ سوئس وزیر انصاف کے مطابق عوامی لباس تک کے لیے سرکاری ضابطے بنانا لبرل سوئس معاشرے کی سماجی اقدار سے متصادم ہے۔ یہ قرار داد دارالحکومت برن میں سوئس پارلیمان نے 9 کے مقابلے میں 34 ووٹوں کی بہت بڑی اکثریت سے رد کر دیا تھا۔ یورپی ملک فرانس نے 2011 میں عوامی مقامات پر نقاب کرنے پر پابندی لگائی تھی، جبکہ ڈنمارک، آسٹریا، نیدرلینڈز اور بلغاریہ میں عوامی مقامات پر نقاب پر مکمل یا جزوی پابندی عائد ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments