’’کٹ‘‘ لگانے کا ماحول اور اندھی نفرت و عقیدت


میں لاہور کے ایک ایسے محلے میں پیدا ہوکر بڑا ہوا ہوں جو دوخاندانوں کے مابین پرانی دشمنی کی وجہ سے بہت بدنام تھا۔ میرے سکول اور کالج میں بنائے دوستوں کو اس محلے میں جانے سے خوف آتا تھا۔عمومی تاثر یہ تھا کہ وہاں پر روز گروہوں میں بٹے ’’بدمعاشوں‘‘ کے درمیان سربازار جھگڑے ہوتے ہیں۔ سوڈے کی بوتلوں کو ایک دوسرے پر پھینکنے سے ہوئے حملوں کا آغاز بسااوقات چاقوزنی کے ذریعے ہوئے قتل کا باعث ہوتا ہے۔

اپنے محلے کی ’’بدنامی‘‘ نے تاہم مجھے ذاتی طورپر ایک دن بھی پریشان نہیں کیا۔ اس محلے کے تقریباََ ہر باسی سے مجھے بے حد پیار ملا۔ میرے ساتھ کوئی خونی رشتہ نہ ہونے کے باوجود وہ میری بابت فخر محسوس کرتے۔بہت شاداں ہوتے کہ میں امتحانوں میں شاندار نمبر لے کر کامیاب ہوتا ہوں۔سکول کی جانب سے تقریری مقابلوں میں حصہ لینے کے لئے پاکستان کے دیگر شہروں میں جاتا ہوں۔ریڈیو پاکستان لاہور کی نشریات میں اکثر میری آواز بھی سنائی دیتی ہے۔محلے کا ’’لاڈلا‘‘ ہونے کے علاوہ میں نے اپنے محلے میں اہم ترین روایت یہ بھی دریافت کی کہ وہاں عورتوں کا بے حد احترام ہوتا تھا۔ ہر بوڑھی عورت ’’ماں جی‘‘ پکاری جاتی تھی۔جوان بچیاں گلی سے گزررہی ہوتیں تو آنکھیں جھکالی جاتیں۔اونچی آواز میں گالم گلوچ روک دی جاتی۔

اپنے ’’بدنام‘‘ محلے کی روایات کو ہفتے کے دن میں نے بہت شدت سے یاد کیا۔پاکستان مسلم لیگ (نون) کی محترمہ مریم اورنگزیب سے پارلیمان کی راہداریوں سے گزرتے ہوئے چند سرسری ملاقاتیں ہوئی ہیں۔وہ بہت احترام سے حال احوال پوچھ کر آگے بڑھ جاتی ہیں۔مہذب اور ہر حوالے سے باوقار دِکھتی یہ خاتون پارلیمان کے مرکزی گیٹ کے باہر جمع ہوئے ایک جنونی غول کی زد میں گھری نظر آئیں۔ انہیں غلیظ ترین گالیوں سے نوازنے کے بعد ایک اوباش صفت نوجوان نے ٹانگ مارکر گرانے کی کوشش بھی کی۔ محض سیاسی غصے کی بنیاد پر کسی خاتون کے ساتھ ایسا برتائو میں نے ’’غنڈہ گردی‘‘ کے مرکز ٹھہرائے اپنے قدیمی شہروں کے محلوں میں بھی کبھی نہیں دیکھا جبکہ وہاں کے باسی ہر حوالے سے جاہل اور اجڈ شمار ہوتے ہیں۔

مزید دُکھ یہ بھی ہے کہ مریم اورنگزیب صاحبہ کے ساتھ ہوئے برتائو کے بارے میں حکمران جماعت کے سرکردہ رہ نمائوں نے پُرخلوص دِکھتی معذرت کا اظہار نہیں کیا۔اس ضمن میں شدید مایوسی مجھے اس سیاست دان کے حوالے سے محسوس ہوئی جسے میں ’’راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراط عصر‘‘ پکارتا ہوں۔

مریم اورنگزیب ان کے ہاتھوں میں پلی ہوں گی۔ 1985سے انہوں نے جس انتخاب میں بھی حصہ لیا مریم صاحبہ کی والدہ اور خالہ نے موصوف کی کامیابی کے لئے دن رات محنت کی۔ 2002میں دوریاں نمودار ہوگئیں۔ موصوف ان دنوں ہمارے وزیر داخلہ ہوتے ہیں۔اسلام آباد کے حتمی تھانے دار ہیں۔دُنیا جہاں کی خبر رکھتے ہیں۔ہفتے کی دوپہر ان کو بخوبی علم ہوچکا ہوگا کہ مریم اورنگزیب کے ساتھ کیا سلوک ہوا ہے۔وہ اپنے اختیارات کو نیک نیتی سے استعمال کرنے کی ٹھان لیتے تو سورج غروب ہونے سے قبل اوباشوں کی نشاندہی ہوجاتی۔وہ حوالات میں رات بسر کرتے۔

ان کی خاموشی کے برعکس تحریک انصاف کے چند بلند آہنگ ترجمانوں نے اپنے زیر اثر میڈیا چینلوں کو مجبور کیا کہ تاثر یہ پھیلایا جائے کہ مسلم لیگ (نون) کے چند رہ نمائوں نے پارلیمان ہائوس کے باہر جمع ہوئے عمران خان صاحب کے جذباتی حامیوں کو جان بوجھ کر اشتعال دلایا۔ہجوم مشتعل ہوجائے تو ایسے واقعات ہوجایا کرتے ہیں۔انہیں بڑھاچڑھا کر ٹی وی سکرینوں پر ڈرامائی انداز میں دکھانے کی ضرورت نہیں۔ حکم کی تعمیل ہوئی۔معاملہ ٹی وی سکرینوں کی حد تک رفع دفع ہوگیا۔میرا جی مگر گھبرا گیا ہے۔

2014 سے وطنِ عزیز کی سیاست میں ہیجانی تقسیم خطرناک حد تک گہری ہوتی چلی جارہی ہے۔یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ اس ملک کے سیاست دانوں کی اکثریت ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ پر مشتمل ہے۔ ان کے دئیے ’’لفافوں‘‘ پر پلنے والے صحافی مگر انہیں ’’ہیرو‘‘ بناکر پیش کرتے ہیں۔عدالتیں بھی بروقت ان چوروں اور لٹیروں کو کڑی سزائیں نہیں سناتیں۔ چونکہ سزا اور جزا کا نظام قطعاََ کھوکھلا ہوچکا ہے اس لئے خلقِ خدا کو ہجوم کی صورت میدان میں نکل کر بدعنوانوں کو از خود ’’عبرت کا نشان‘‘ بنانا چاہیے۔سوشل میڈیا کی بدولت نشان زد ہوئے’’کرپٹ‘‘ افراد جب بھی کہیں نظر آئیں تو انہیں ’’کٹ‘‘ لگائی جائے۔ پاکستان وگرنہ ’’سدھر‘‘ نہیں پائے گا۔ قوم کے ’’اخلاقی انحطاط‘‘ کی بابت ہمہ وقت پریشان نظر آتے عمران خان صاحب ایسے رویے کو اکثر اپنی برجستہ تقاریر سے ’’جائز‘‘ ٹھہراتے محسوس ہوتے۔

اقتدار میں آئے عمران خان صاحب کو دو سے زیادہ برس گزرچکے ہیں۔یہ حقیقت مگر ابھی تک سمجھ نہیں پائے کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد ’’مارو-پکڑو‘‘ والی تقاریر نہیں کی جاتیں۔ ’’بادشاہی‘‘ صبر اور بردباری کا تقاضہ کرتی ہے۔ جو ریاستی،سیاسی اور حکومتی نظام انہیں ورثے میں ملا ہے وہ کئی اعتبارسے یقینا کھوکھلا ہوچکا ہے۔اس نظام کی ’’مبادیات‘‘ مگر اپنی جگہ قائم ہیں۔ ان پر سنجیدگی سے غور کریں تو خلق خدا کی بہتری اور خوش حالی کے ہزاروں امکانات دریافت کئے جاسکتے ہیں۔انہیں تخلیقی انداز میں پوری لگن سے بروئے کار لاتے ہوئے ہی عمران خان صاحب خود کو قوم کا ’’نجات دہندہ‘‘ ثابت کرسکتے ہیں۔ نواز شریف اور آصف علی زرداری کے ماضی سے جڑی کہانیوں کی مسلسل تکرار اس ضمن میں کام نہیں آئے گی۔

ہفتے کے دن انہوں نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد 50منٹ تک پھیلی جو تقریر فرمائی اسے غور سے سنیں تو پیغام یہ ملتا ہے کہ ’’کرپشن‘‘ کے خلاف ان کے دل میں موجود نفرت کی شدت کو ہماری قوم حقیقی معنوں میں سراہ ہی نہیں پائی۔دل وجان سے ان کا ساتھ دینا تو دور کی بات ہے۔میڈیا کے نام نہاد پڑھے لکھے لوگ ابھی تک اس حقیقت کو نظرانداز کئے ہوئے ہیں کہ نواز شریف کو پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے ’’صادق وامین‘‘ تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔\

کرپشن کے الزام میں ’’سزا یافتہ‘‘ ہوا یہ شخص بیماری کے بہانے لندن فرار ہوگیا۔اب وہاں بیٹھ کر بھاشن دیتا ہے تو چند صحافی عدالت میں چلے جاتے ہیں۔فریاد کرتے ہیں کہ ان کے خطاب ٹی وی سکرینوں پر Liveدکھانے کی اجازت دی جائے۔

آصف علی زرداری تو عمران خان صاحب کی دانست میں ویسے ہی ’’مسٹرٹین پرسنٹ‘‘ہیں۔موصوف نے ’’حرام کی کمائی‘‘ سے تحریک انصاف میں بیٹھے چند اراکین قومی اسمبلی میں مبینہ طورپر کروڑوں روپے بانٹنے اور یوسف رضا گیلانی جیسے ’’کرپٹ ترین‘‘ شخص کو ڈاکٹر حفیظ شیخ جیسے صاف ستھرے ٹیکنوکریٹ کے مقابلے میں جتواکر سینٹ بھجوادیا۔الیکشن کمیشن بھی انتخابی عمل کو ’’شفاف‘‘ رکھنے میں ناکام رہا۔

قصہ مختصر آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ایسے دُگرگوں حالات میں عمران اکیلا کیاکرے؟۔ اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے معاشرے میں عمران خان صاحب کے حامیوں کو یہ تقریر بہت پسند آئی ہوگی۔ٹھنڈے دل سے ہمیں مگر یہ حقیقت بھی تسلیم کرنا ہوگی کہ مذکورہ حامی ہمارے معاشرے کے محض ایک حصے یعنی Segmentکی نمائندگی کرتے ہیں۔

نواز شریف کے ہر عمل کو تاہم درست ٹھہرانے والے پاکستانیوں پر مشتمل ایک طاقت ور Segmentبھی ہے۔ آپ اس کی سوچ کو بھی نظرانداز نہیں کرسکتے۔کسی بھی جیتے جاگتے معاشرے میں یہ ممکن ہی نہیں کہ صرف ایک Segmentکی سوچ اور جذبات ہی ’’حتمی سچ‘‘ قرار پائے۔ہرSegment کے لئے ایک دوسرے کو برداشت کرنا۔ یوں رونق لگی رہتی ہے۔سرپھٹول کی بجائے مکالمہ جاری رہتا ہے۔

معاشرے کا کوئی ایک Segment فریق مخالف کو ’’عبرت کا نشان‘‘ بنانے پر ڈٹ جائے تو خانہ جنگی شروع ہوجاتی ہے۔ہمارے ہمسایے میں افغانستان 1978سے اس کی زد میں آکر مسلسل تباہ وبرباد ہورہا ہے۔قدرتی وسائل سے مالا مال دجلہ اور فرات کی وجہ سے عراق کہلاتا ملک اب اندھی نفرت وعقیدت کے جنون میں تقریباََ اجڑ چکا ہے۔’’بلادشام‘‘ تاریخی اعتبار سے ایک خوب صورت اور مثالی معاشرہ رہا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے خانہ جنگی کی زد میں ہے۔ اس کے لاکھوں شہری دربدر بھٹکتے ہوئے دُنیا بھر میں پناہ ڈھونڈرہے ہیں۔ اندھی نفرت وعقیدت کی آگ بھڑکاتے ہوئے پاکستان کو اس جانب دھکیلنے سے ہر فریق کو گریز اختیار کرنا چاہیے۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments