میرا جسم میری مرضی اور کلکتے کی گوہر جان


ایک تھیں گوہر جان کلکتے والی، یہودی نژاد گوھر جان، جن کے مجالس محرم کے حصے چاندی کی طشتریوں میں بانٹے جاتے تھے۔ انگریز باپ اور آرمینی یہودی ماں کی اولاد اور باپ ان کی پیدائش کے بعد غائب ہو گیا تھا۔

گوہر جان نے جو عروج دیکھا ہما شما ارباب نشاط صرف اس کی خواہش ہی کر سکتی تھیں بلکہ ہمیں یقین ہے کہ گھریلو خواتین بھی شاید رشک کرتی ہوں گی، واللہ اعلم

وہ انگریزی، عربی، فارسی، بنگالی اور فرنچ میں گاتی تھیں اور جب گاتیں تو والیان ریاست ان پر جواہرات نچھاور کرتے اور بڑے بڑے چیک کاٹ کر سامنے رکھتے۔ مسلح باڈی گارڈ لے کر نکلتیں اور انگریزی قوانین کی نافرمانی کرتے ہوئے سرخ بتی توڑ کر نکل جاتیں ، اس لئے عوام میں بے حد مقبول تھیں۔ انگریز شہزادے ہندوستان آ تے تو ہیرے جڑے موزے پہن کر بال روم ڈانس کرتیں، وزن زیادہ تھا مگر پروا کس کو تھی۔

نواب حامد علی خان آف رام پور نے گوہر ڈے منایا، سو روپے ٹکٹ رکھا اور وہ عفیفہ ستر ہزار لے کر لوٹیں۔ گورنر بنگال کے فینسی ڈریس بال میں بغیر بتائے شامل ہوئیں تو کچھ والیان ریاست نے برا منایا تو گوہر نے ان کا اپنی محفلوں آنا جانا بند کر دیا۔ 1911 میں بڑی نمائش کے موقعہ پر الہ آ باد گئیں تو حضرت اکبر الہ آبادی نے ان کی شان میں ایک شعر کہہ کر تاریخ رقم کی

خوش نصیب آج یہاں کون ہے گوھر کے سوا
سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے شوہر کے سوا

چنانچہ ایک ایرانی سے نکاح کر لیا تو اکبر نے ارشاد کیا

مرد خلیج فارس، گیسو ہیں جس کے کالے
گوہر نے آب اپنی کر دی جسے حوالے

مگر جلد ہی علیحدگی ہو گئی اور حسب دستور آخری عمر عبرت ناک اور حسرت ناک گزری۔

آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کیا لمبی چوڑی تمہید ہے آخر اور آپ ٹھیک ہی سوچ رہے ہیں۔ آج آٹھ مارچ ہے اور عورت مارچ بھی ہو گا یا نہیں شاید نہ ہو کورونا کے خوف سے لیکن خواتین کا نعرہ ”میرا جسم میری مرضی“۔

اس نعرے سے ہم کچھ اداس ہیں، کیونکہ ہمارے نوے فیصد عوام اس کا مطلب کچھ اور لیتے ہیں۔ اگر ایک عورت یا لڑکی معاشرے کے نامناسب رویوں پر احتجاج کرے تو اس کو بازاری قرار دے دو بس اور اس خطاب پر احتجاج ہو تو دشنام طرازی کا وہ بازار گرم کرو کہ منہ چھپائے نہ چھپے اور سوشل میڈیا کا اس میں قابل قدر حصہ ہے ماشاء اللہ۔ ہمیں اپنی قابل قدر خواتین سے بھی شکایت ہے کہ آخر صرف جسم پر مرضی کیوں، انھوں نے عورت کو اتنا سستا کیسے سمجھ لیا کہ صرف جسم پر ہی اختیار ہو، کیا اس کو اپنے دماغ اور فہم وفراست پر اختیار نہیں ہونا چاہیے؟

میرا جسم میری مرضی کا نعرہ کتنا نیا ہے یا کتنا پرانا ہے ، ایمان سے کہتے ہیں ہمیں نہیں معلوم مگر شاید 2018 یا 2019 میں جب خواتین اپنے اپنے پسندیدہ بینرز کے ساتھ نمودار ہوئیں اور انھوں نے مردوں کو بتایا کہ وہ کتنی انڈیپنڈنٹ اور بولڈ ہیں اور کوئی ان کے جسم کو ان کی مرضی کے خلاف استعمال نہیں کر سکتا، وومن ایمپاورمنٹ کس چڑیا کا نام ہے وہ بھی بتایا گیا مگر ملک کے طول و عرض میں گویا بھونچال ہی آ گیا تھا۔

برصغیر کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے شروع میں ایسی خواتین گزری ہیں جن کو اپنے جسم اور ذہن پر مکمل کنٹرول حاصل تھا، اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی ان خواتین نے نہایت گھٹے ہوئےمعاشرے میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور اپنا جسم اور ذہن استعمال کرتے ہوئے ہوئے غلام معاشرے کی پسی ہوئی خواتین کی صحت اور تعلیم کے لئے کام کیا اور ساتھ ساتھ اپنی گھریلو زندگی کو بھی بطریق احسن نبھایا۔

ایک بات جو ہم دیکھتے ہیں کہ عوام الناس کی عورت تب بھی کھیتوں میں بچے جنم دیتی تھیں اور اب بھی، آج بھی فصل کاٹتے ہوئے گود میں موجود بچے کو وہ ساتھ ساتھ دودھ بھی پلاتی ہے۔ میرا جسم میری مرضی کے نعرے کا کیا مطلب ہے؟ کیا وہ خاندان جو ایک اکائی ٖکی صورت میں پھلے پھولے یا حدود و قیود سے آزاد معاشرہ وجود میں آ جائے۔ خواتین کو اشرف المخلوقات سمجھتے ہوئے ان کے تمام حقوق مرد کے برابر ہونے چاہئیں، وہ اعلی تعلیم حاصل کرنا چاہیں تو کوئی رکاوٹ نہ ہو، وہ اپنی مرضی سے ملازمت کرنا چاہیں تو انہیں کوئی مجبوری نہ ہو، وہ پینٹنگ، ایکٹنگ، گلوکاری حتیٰ کہ رقص بھی اپنی روح کو سیراب کرنے کے لئے بلا جھجھک سیکھ سکیں۔ ایک مناسب عمر میں اپنا جیون ساتھی اپنی مرضی سے چن سکیں، بچے دو ہوں گے یا چار آزادانہ فیصلہ کریں۔ عورت کی بیماری کا بھی اتنا ہی خیال رکھا جائے جتنا گھر کے سربراہ کا رکھا جاتا ہے۔

برصغیر میں جب گورا راج نے زور پکڑا تو انھوں نے صرف باتوں کے ذریعے نہیں بلکہ عورت کی فلاح بہبود پر عملی توجہ دی اور ہندو رعایا کے احتجاج کے باوجود ستی کی رسم کا مکمل خاتمہ کیا کیونکہ ظاہر ہے کوئی عورت بھی جل مرنے کو تیار نہ ہوتی ہو گی مگر ان کو گھسیٹ گھسیٹ چتا پر بٹھا دیا جاتا تھا، لیکن آج کیا پاکستان میں کوئی اتنا پاورفل قانون ہے جو لڑکیوں کو زندہ دفن یا کاری ہونے سے بچا لے؟

گوہر جان کا ذکر بھی اسی لئے کیا یہ خواتین میرا جسم میری مرضی کی جیتی جاگتی تصویریں تھیں مگر اپنے اخلاقی انحطاط کی وجہ سے معاشرے میں باعزت مقام حاصل کرنا ان کے لئے مشکل تھا۔

میرا جسم میری مرضی اپنے اندر ایک وسیع اور اعلیٰ مفہوم سموئے ہوئے ہے، ایک عورت کو یہ سہولت حاصل ہونی چاہیے کہ وہ اپنے جسم اور ذہنی صلاحیتوں کے مطابق زندگی گزار سکے مگر اس کے ساتھ اپنے فرائض بھی احسن طریقے سے انجام دے، اپنے سے وابستہ لوگوں کے حقوق کا خیال رکھے۔ اپنے بچوں کو اعلیٰ اخلاقی خصوصیات کے ساتھ معاشرے میں رچنا بسنا سکھائے اور ان میں محنت کی عادت راسخ کرے اور خوش رہو اور خوش رکھو کی پالیسی پر عمل پیرا ہو۔

کیا ہی اچھا ہو اگر اپر کلاس اور مڈل کلاس کے ساتھ نچلے طبقے کی محنت کش عورت کے لئے بھی برابر کے حقوق ہوں۔ بچپن کی شادی اور بچوں قطاروں کے ساتھ اس کو جوانی میں بوڑھا ہونے سے بچایا جائے، آج جو بھی سیمینار ہوں گے ، ان میں اس عورت کے بارے میں بھی تھوڑی دیر کے لئے ضرور سوچیں ۔ ضرور اور کوشش کریں کہ ہر عورت میرا جسم میری مرضی کے مطابق زندگی گزار سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments